ایک مذہبی لڑکے کا رشتہ کیوں قبول نہیں کیا جاتا؟


کچھ روز پہلے ہم سب پر علی راج کی تحریر “مذہب سے وقتی لگائو اور لڑکیوں کی شادی” پڑھی تھی۔ اس تحریر میں علی نے لکھا تھا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو صوم و صلوٰۃ کا پابند اور دنیا سے بیزار بنایا جاتا ہے لیکن جب ان کے رشتے کی بات آتی ہے تو ان کے لئے کسی مذہبی شخص یعنی کہ مسجد کے موذن، امام یا مفتی کو بطور شوہر نہیں چنا جاتا کیونکہ یہ افراد دین پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ مجھے اس پوری تحریر سے شدید اختلاف ہے ۔

 سب سے پہلے تو ہمیں اپنے مذہبی مرد اور مذہبی عورت کے تصور کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ ایک مذہبی آدمی وہی ہوگا جس کے پاس مفتی یا عالم کی سند ہو، کسی مدرسے میں پڑھاتا ہو یا مسجد میں خدمات سر انجام دیتا ہو، جسم پر سفید شلوار قمیض، شلوار ٹخنوں سے اوپر اور سر پر ٹوپی ہو جبکہ ایک مذہبی عورت وہی ہوگی جو عالمہ کی ڈگری رکھتی ہو، سر تا پیر برقع میں چھپی رہتی ہو، نماز روزے کی پابند ہو ، ہر وقت تسبیحات میں مصروف رہتی ہو اور گھر سے باہر نہ جاتی ہو۔اس کے علاوہ ہم کسی کو مذہبی مرد یا عورت ہونے کا درجہ نہیں دیتے۔ علی راج کی تحریر پڑھ کر لگا کہ معاشرے میں بس دو اقسام کے لوگ رہتے ہیں ۔ ایک ایسے مذہبی افراد ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور دوسرے روشن خیال افراد ہیں جو ایسے مذہبی لوگوں کا بالکل الٹ ہوتے ہیں۔ درمیان کے لوگوں کا اس تحریر میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

اب اگر یہ بات کی جائے کہ بیٹی کے لئے ایک مسجد کے موذن، خطیب، امام، یا کسی مفتی کا انتخاب کیوں نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ مولوی حضرات مذہب پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان مین سے کچھ ایسی باتوں پر بھی عمل پیرا ہوتے ہیں جو کہ اسلام کا حصہ نہیں ہیں۔ عموماً مولوی حضرات اپنی بیویوں کو سات پردے میں رکھتے ہیں اوران کا باہر آنا جانا تقریباً ممنوع ہوتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ بعض مولوی حضرات کا اسلام صرف عورت کے پردے پر ٹکا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک شرعی پردہ عورت کو برقع پہنا کر گھر کے سب سے تاریک گوشے میں بٹھادینے کا نام ہے۔ دوسری وجہ ہمارے معاشرے کی کسی بھی مولوی اور اس کے خاندان سے لگائی گئی توقعات ہیں ۔ ایک مولوی کی بیوی گاڑی چلاتی ہو، کسی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر نوکری کرتی ہو اور اس کے بچے کو ایجوکیشن میں پڑھتے ہوں، ایسا مولوی اور اس کا خاندان ہمارے معاشرے کو قابلِ قبول نہیں۔ مولوی کی بیوی اور بچے یہ سارے کام شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کر سکتے ہیں، مگر ہمارا معاشرہ انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس معاشرے کے خوف کی وجہ سے بھی اکثر مولوی حضرات اپنے گھر والوں کو مقید کر کے رکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایک مولوی کو بس مسجد یا مدرسے کی چار دیواری میں رہنا چائے، اپنی خدمات کے عوض وہ ایک روپیہ نہ لیتا ہو اور اس کی بیوی اور بچے لوگوں کے دئے گئے عطیات اور صدقات پر گزارا کرتے ہوں۔

اب ایک ایسا معاشرہ جہاں لڑکیوں کو اپنے سب ارمان شادی کے بعد پورے کرنے کا کہا جاتا ہوں وہاں کی لڑکیاں ایک ایسے لڑکے کا انتخاب کیوں کریں جو معاشرے کے خوف سے یا مذہب کی آڑ لے کر اپنی بیوی کو زندگی نہ جینے دے۔

میں اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ شادی کے لئے لڑکی کو بطور ایک جسم پیش کیا جائے جو کہ دکھنے میں دبلا پتلا اور حسین ہو اور اس جسم میں مقید روح اپنے جسم کو سجانا سنوارنا جانتی ہو۔ کیا شادی میں لڑکی کی ذمہ داری بس خوبصورت نظر آنا اور اپنے شوہر کی جنسی ضروریات پوری کرنا ہے؟ کیا اسلام کے مطابق ایک بیوی اپنے شوہر کی صرف اور صرف جنسی غلام ہے؟ جن لوگوں کو ایسا لگتا ہے انہیں اپنے شادی اور اسلام سے متعلق تصورات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).