کینیڈا کا مغوی جوڑا افغانستان میں کیا کر رہا تھا؟
کینیڈین شہری جوشوا بوئل اور ان کی امریکی نژاد اہلیہ کیٹلن کولمین کو طالبان کے ایک گروہ نے پانچ سال تک اپنی قید میں رکھا جس سے انھیں رواں ماہ ہی رہائی ملی ہے۔ لیکن ذہن میں پہلا سوال یہ آتا ہے کہ یہ جوڑا وہاں افغانستان میں کر کیا رہا تھا؟
جوشوا کے دوست ایلکس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ دو سال پہلے کی بات ہے جب ہم نے کوئی ثبوت دیکھا کہ وہ زندہ ہیں۔ ’میرا خیال تھا کہ وہ شاید مر چکے ہیں اور اس سوچ سے میں خود کو تسلی دیتا تھا۔‘
جوشوا بوئل اور کیٹلن کولمین کو سنہ 2012 میں جنگ زدہ ملک افغانستان کے ایک پُرخطر سفر کے دوران اغوا کیا گیا۔ اسی برس آٹھ اکتوبر کو جوشوا کی ایک ای میل ان کے سسرال والوں کو موصول ہوئی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ افغانستان کے ایک ایسے حصے میں موجود ہیں جو ’محفوظ‘ نہیں ہے۔ وہ دونوں پانچ سال تک قید میں رہے اس دوران انھوں نے مبینہ تشدد اور ظلم کا سامنا کیا۔ بوائل کہتے ہیں کہ اس عرصے میں ان کے بچے بھی ہوئے لیکن پھر قید کے دوران ان کے ایک بچے کو اغوا کاروں نے ہلاک کر دیا۔
ایڈورڈ کہتے ہیں کہ جب انھیں پتہ چلا کہ ان کے دوست اپنی بیوی کولمین جو کہ سات ماہ کی حاملہ تھیں کے ہمراہ افغانستان کے سفر پر نکلے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انھوں نے یہ ہولناک حد تک خطرناک قدم کیوں اٹھایا۔
بوئل اور کولمین کے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں معصومانہ حد تک مثبت سوچ کے حامل افراد ہیں جو انسانی ہمدردی اور پختہ یقین رکھنے والے ہیں۔ بوئل نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ اور کولمین لوگوں کی مدد کے لیے افغانستان گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’دنیا کے سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے اقلیتی گروہ‘ کی مدد کرنے کے لیے گئے تھے۔
’ان عام دیہاتی لوگوں کے لیے جو طالبان کے زیر قبضہ افغان علاقوں میں رہتے تھے، جہاں نہ کوئی این جی او، نہ امدادی کارکن اور نہ کبھی کوئی حکومت ضروری امداد پہنچانے کے لیے رسائی حاصل کر سکی۔ ‘ لیکن یہ جوڑا دراصل کس قسم کی مدد فراہم کرنا چاہتا تھا اس کا جواب نہیں مل سکا۔
31 سالہ کولمین امریکی شہر پنسلوینیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سٹوئرٹس ٹاؤن میں ہی بڑی ہوئیں جبکہ 34 سالہ بوئل نے کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا کے قریب واقع سمتھ فالز نامی علاقے میں اپنی زندگی بسر کی۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے آن لائن رابطہ ہوا اور پھر سنہ 2011 میں ان کی شادی ہوئی۔
فلاڈیلفیا کے ایک میگزین کو گذشتہ برس انٹرویو میں کولمین کے ایک دوست نے بتایا کہ انھیں اپنے مذہب مسیحیت سے گہرا لگاؤ تھا، وہ سفر کرنے کی دلدادہ، ہنس مکھ، بڑے دل کی، بہادر اور مثبت سوچ کی حامل لڑکی تھیں۔ بوئل کے دوست ایڈورڈ کہتے ہیں کہ وہ خود کو جنگ کے مخالف اور مسیحی فرقے، پروٹیسٹنٹ مینونی کا نوجوان کہتے تھے۔ بوئل کی پہلی شادی گوانتاناموبے میں قید رہنے والے عمر خضر کی بہن زینب خضر ہوئی تھی تاہم یہ رشتہ تھوڑے عرصے تک قائم رہ سکا۔
زینب نے لندن میں 2005 میں ہونے والے حملوں اور نائن الیون جیسے واقعات کی کھل کر مذمت سے انکار کیا تھا۔ عمر خضر کو گوانتاناموبے میں ایک امریکی فوجی کو قتل کرنے کے جرم میں 10 سال کے لیے قید کی سزا ملی۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوج نے حراست میں لیا تھا۔ عمر خضر پر تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ شدت پسند جنگجو ہیں۔ لیکن دوسری جانب عمر کے حامی انھیں ایک ’بچہ سپاہی‘ اور بوئل کو انسانی حقوق کی وکالت کرنے والا کہتے تھے۔ زینب اور جوشوا بوئل کی شادی 2010 میں ختم ہو گئی۔
مشرق وسطیٰ کے سفر پر روانگی سے پہلے کولمین نے اپنے ایک دوست کو بتایا تھا کہ وہ صرف اپنے چھ ماہ کے سفر میں محفوظ علاقوں میں سفر کریں گے تاہم بعد میں ان کا یہ ارادہ تبدیل ہوتا نظر آیا۔
سنہ 2012 میں ایک برطانوی شہری کی کرغستان کے دارالحکومت بیشکک میں بوئل اور کولمین سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام رچرڈ کرونن تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کیسے رات کو دیر تک ان سے تاریخی مہم جوئیوں پر بات کرنے کے بعد بوئل نے انھیں افغانستان کے سفر پر جانے پر آمادہ کیا۔ بوئل اور کولمین تیزی سے روس اور اس کی سابقہ ریاستوں کرغستان، تاجکستان اور قزاقستان کا سفر کر رہے تھے۔ اور اس فہرست میں اس کے بعد افغانستان کا سفر تھا۔ میں نے بوئل سے کہا کہ وہ افغانستان میں کہاں جانا چاہتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہر جگہ‘۔
اس ملاقات کے بارے میں لکھے گئے اپنے بلاگ میں کرونن نے لکھا کہ بوئل نے ان سے کہا کہ وہ افغانستان کے ان جنوبی علاقوں میں نہ جائیں جہاں غیر ملکی فوج اور طالبان موجود ہیں۔ افغانستان میں کرونین کو پتہ چلا کہ وہ دونوں میاں بیوی غائب ہو گئے ہیں۔
بعد میں بوئل اور کولمین کی طویل عرصے تک اسیری کی زندگی گزارنے پر ٹورنٹو سٹار سے گفتگو کرتے ہوئے کرونن نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ جوش اور ان کا خاندان محفوظ ہیں۔ میرے کچھ سوالات ہیں جو میں ان سے کرنا چاہتا ہوں اور میں پرامید ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی چاہیں گے۔‘ 2013ء میں جب انھیں غائب ہوئے کچھ ماہ ہو چکے تھے تو ان کے اہل خانہ کو پتہ چلا کہ اس جوڑے کے ساتھ کیا ہوا۔ انھیں طالبان کے ایک گروہ حقانی نیٹ ورک نے افغان صوبے وردک کے سفر کے دوران اغوا کر لیا تھا۔ یہ کابل سے دور ایک پہاڑی علاقہ ہے۔
ایک شخص جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ طالبان سے تعلق رکھتا تھا نے کولمین کے خاندان کو دو ویڈیوز ای میل کی تھی۔ ان میں بوئل اور کولمین اور ان کی بیٹی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس جوڑے کی جانب سے امریکی اور کینیڈین حکام کو پیغام دیا تھا کہ وہ اغوا کاروں کی قید سے آزاد کروانے کے لیے مزید اقدام کریں۔ اغوا کاروں کی جانب سے جاری کی گئیں چار ویڈیوز میں سے ایک ویڈیو میں یہ جوڑا تھکا ہوا، ناامید اور بدحواس دکھائی دے رہا تھا۔ کولمین نے قید کے دوران ہی اپنے پہلے بچے کو جنم دیا۔
سنہ 2014 میں بوئل اور کولمین کے خاندانوں نے ان میں سے دو ویڈیوز کو عوامی سطح پر ریلیز کیا۔ اس سے قبل طالبان کی قید میں رہنے والے امریکی سپاہی بوئے برگڈہال کو بھی رہا کیا گیا تھا۔ اس کے جوڑے کے اہل خانہ نے اس امید کے ساتھ ویڈیو جاری کی کہ ان کی پکار کو سنا جائے گا اور ان کے بچوں کی واپسی میں مدد ملے گی۔ آخری ویڈیو کو دس ماہ پہلے گذشتہ کرسمس سے قبل ریلیز کیا گیا تھا۔ اور اس میں بوئل اور کولمین کے دو بچوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ کولمین نے اس میں اپنی صورتحال کو ’گھٹن پیدا کرنے والا ایک ڈراؤنا خواب‘ قرار دیا تھا۔ اس خاندان کو قید کے دوران برے سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اپنے انٹرویوز میں بوئل نے بتایا کہ انھیں بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا رہا اور انھیں رہنے کے لیے اتنے چھوٹا کمرہ دیا جاتا تھا جو ٹوائلٹ سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا تھا۔ قید کے دوران ان کے ساتھ ایسا بھی ہوا جب دونوں میاں بیوی کو الگ کر دیا جاتا تھا اور مارا پیٹا جاتا تھا۔ لیکن بوئل کہتے ہیں اس عرصے میں سب سے بڑا مسئلہ بوریت تھی۔ دن کے طویل گھنٹوں کے دوران کرنے کو کچھ خاص نہیں ہوتا تھا۔
بوئل نے بی بی سی کو بتایا کہ قید کے دوران وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کر کے وقت گزارتے تھے۔ انھوں نے لکھا کہ ’ہم ہمیشہ اپنے گھر میں بچوں کے لیے سکول بنانا چاہتے تھے۔ مگر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتابوں، پیپر یا پین کے بغیر ہوگا ۔۔۔ مگر ہم نے وہ سب بنایا جو ہم بنا سکتے تھے۔ کوڑے سے شمسی نظام بنایا، ٹوٹی ہوئی لکڑیوں سے ضرب سیکھا، بوتلوں کے ڈھکنوں سے پرکار بنائی۔‘
بوئل اور کولمین کے خاندانوں اور احباب نے بظاہر امریکی اور کینیڈین حکومتوں کی جانب سے اس معاملے میں بظاہر عدم دلچسپی نیز میڈیا اور عوام کی جانب سے ان کی حالتِ زار پر ملے جلے رویوں پر بہت مایوسی کا اظہار کیا۔
فلاڈیلفیا میگزین میں کولمین پر لکھے گئے ایک فیچر (2016) میں ان کی ایک دوست نے کہا تھا کہ ’اس معاملے کو اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جتنی دی جانی چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ گڑبڑ ہے۔ وہ ایک انسان ہے۔ اس کا خاندان ہے۔ یہ صرف ایسا نہیں کہ ایک امریکی عورت اغوا ہوئی ہے۔‘
بوئل ’سٹار وارز‘ اور ’فائر فلائے‘ کے مداح تھے لیکن ان کے دوست ایڈورڈ کہتے ہیں کہ ان کی گمشدگی کے بعد جب وہ اس مسئلے کے حوالے سے مدد اور آگاہی کے لیے ان دونوں کے مداحوں سے رابطہ کرتے تو ان کی جانب سے عدم دلچسپی نظر آتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان پر واضح ہوا کہ لوگوں پر انحصار کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ کبھی بھی مدد نہیں کرنا چاہتے جب تک انھیں یہ معلوم نہ ہو کہ جو وہ کر رہے ہیں وہ کرنا درست بھی ہے اور جوش اور کیٹلن کے کیس میں بہت پیچیدگیاں تھیں۔
وہ افغانستان میں کیا کر رہے تھے؟ ان کا خضر کے ساتھ کیا تعلق تھا؟
سنہ 2015 میں امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے سپیشل فورسز کے ایک ریٹائرڈ اہلکار نے گواہی دی۔ انھوں نے بوئل اور کولمین کی رہائی کے منصوبے کے بارے میں بتایا جو کہ جیل سے قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں تھا۔ گرین بیرٹ ٹیم کو بووی برگڈال کو گھر واپسی میں مدد کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
اپنی گواہی کے دوران جیسن امیرئن نے بتایا کہ بوئل اور کولمین کی رہائی کے لیے کوشش کے دوران مانیٹرنگ سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ پاکستان میں بھی کچھ سویلین مغوی موجود ہیں تو پھر ہم نے اسے بھی اپنے مشن کا حصہ بنا لیا۔ قیدیوں کے تبادلے کے ایک متنازع عمل کے دوران برگڈال بلآخر سنہ 2014 میں رہا ہو گئے اور ریسکیو پلان تباہ ہو گیا۔
ایسا لگتا تھا کہ بوئل اور کولمین کو سب آہستہ آہستہ بھولتے جا رہے ہیں۔ اس لیے اب پانچ سال بعد ان کی رہائی حیران کن ہے۔ گزشتہ ہفتے 12 اکتوبر کو پاکستانی اور امریکی فوجی ایک پرخطر مشن کے ذریعے اس خاندان کو رہا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے اس گاڑی کے ٹائروں پر گولیاں برسائیں جس کی ڈگی میں بوئل اور ان کی اہلیہ اور بچوں کو بٹھایا گیا تھا۔ بوئل اور کولمین اپنے تین بچوں کے ساتھ محفوظ رہے اور گھر چلے گئے۔
ٹورنٹو یونیورسٹی میں جہادی گروہوں کے بارے میں سیاسیات کی ایک طالبہ کا خیال ہے کہ یہ اتفاق نہیں کہ اس جوڑے کی بازیابی پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کے دوران عمل میں آئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرے۔ اس خاندان کی رہائی کے ذریعے پاکستان کو ٹرمپ کی جانب سے تعریف سننے کو ملی جن کا کہنا ہے کہ ’یہ اس بات کی علامت ہے کہ (پاکستان) سکیورٹی کے لیے مزید اقدامات کرنے سے متعلق امریکہ کی خواہشات کا احترام کر رہا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان آرمی اور انٹیلی جنس کمیونٹی اپنے اقدامات میں بہت حقیقت پسند ہیں۔ وہ حکمت کار ہیں۔ ’وہ جیو پالیٹیکس کا خیال کرتے ہیں۔ وہ لمبا کھیل کھیلتے ہیں۔‘ جمعرات کو امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپے نے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کے دوران بتایا کہ بویل اور کولمین کو پاکستان میں قید رکھا گیا تھا۔ ان کا یہ بیان پاکستانی فوجی حکام کے دعوؤں سے متصادم ہے۔
کینیڈا پہنچنے کے بعد بوئل نے کہا کہ دوران قید ان کی بیوی کا ریپ کیا گیا اور زبردستی ان کا بچہ گرا کر ان کے چوتھے بچے جو کہ ایک بیٹی تھی کو ہلاک کر دیا گیا۔ ادھر طالبان نے اس بیان کی تردید میں کہا ہے کہ بچے کی ہلاکت ’مس کیرج‘ سے ہوئی۔ بی بی سی سے بات چیت میں بوئل نے بتایا کہ ان کے اغوا کاروں میں ایک مغربی ملک سے تعلق رکھتا تھا اور انھوں نے اس سے اسلامی قانون اور تاریخ کے بارے میں خفیہ طور پر کچھ سوالات کیے۔
جب ایک شخص جو دولتِ اسلامیہ سے منحرف ہو گیا کو یہ پتہ چلا کہ محافظوں نے میری بیوی کا ریپ کیا ہے تو اس نے ’وعدہ‘ کیا کہ وہ دولت اسلامیہ کو حقانی نیٹ ورک کی منافقت، عقیدے سے روگردانی اور مظالم کے بارے میں بتائے گا۔
بوئل نے کہا کہ ’میں نے اسے مکمل طور پر معاف کر دیا اور کیٹلن نے کہا کہ وہ اپنے خلاف کیے جانے والے معمولی گناہوں پر اسے معاف کرتی ہیں۔ لیکن وہ بھول نہیں سکتیں جو کچھ اس نے ابتدا میں اس گروہ پر اندھے اعتماد کی وجہ سے اس کے بچوں کے خلاف کیا۔‘
اب اونٹاریو میں بوئل، کولمین اور ان کے تین بچے آزادی ملنے کے بعد معمول کی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بوئل کہتے ہیں کہ اگرچہ اب بھی وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں اکٹھے سوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے بچے اپنے دادا دادی کے ہمراہ اپنے نئے ماحول میں ڈھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
این بی سی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ مغربی دنیا میں اور کینیڈا میں خیرمقدم نہیں بلکہ یہ زندگی کی جانب سے خوش آمدید ہے۔ کولمین نے اب تک میڈیا سے کوئی بات چیت نہیں کی اور وہ اپنی رہائی کے بعد رواں ہفتے کے آغاز میں نامعلوم بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔
بوئل کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ گھر دینے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ان کا یہ عزم اب بھی قائم ہے کہ وہ درست کام کریں گے چاہے اس کے لیے کتنی بڑی قیمت چکانی پڑے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).