علامہ اقبال، پرویز ہود بھائی اور داعش کا بیانیہ


پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی ایک روشن خیال اور انسان دوست دانشور ہیں۔ ایک زمانے میں ہم دونوں قائداعظم یونیورسٹی میں رفیقِ کار تھے۔ میں ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اُن کی دردمندی اور دل سوزی سے متاثر چلا آ رہا ہوں۔ وہ اُن دانشوروں میں سے ایک ہیں جو پاکستان میں ایک ترقی پسند اور عوام دوست معاشرہ پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس دھن میں بعض اوقات وہ مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کے نظریات و افکار کی تفہیم و تعبیر میں غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کی چودہ اکتوبر کی اشاعت میں Is IS actually bad? UnIslamic?
کے زیرِ عنوان ایک ایسا کالم شائع کیا ہے جس میں داعش :’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کے فکر و عمل کوعلامہ اقبال کے نظریات و افکار سے مماثل ٹھہرایا ہے۔ اپنے اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اقبال کی کتاب of Religious Thought in Islam The Reconstruction سے درج ذیل اقتباس پیش کیا ہے:

“In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not today, one must wait.”

حقیقت یہ ہے کہ نہ تو درج بالا اقتباس اقبال کی اس کتاب میں موجود ہے اور نہ ہی اقبال اپنے زمانے یا اپنے بعد آنے والے زمانوں میں خلافت کے نظام کو رائج دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خلفائے راشدین کے بعد بنو امیہ کے دور سے لے کر آج تک جاری خلافت کو Arabian Imperialism قرار دیتے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اپنی شاہکار تصنیف خلافت و ملوکیت میں اسے عرب ملوکیت ہی ثابت کیا ہے۔ برادرم پرویز ہود بھائی نے درج بالاجس اقتباس کو اقبال سے منسوب کیا ہے اُس سے مجھے اقبال کی اسی کتاب کا ایک اور اقتباس یاد آیا ہے۔ اس اقتباس میں اقبال نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ عالمی اسلامی اتحاد کا خیال ترک کرکے فی الحال اپنے اپنے ملک میں ، اپنے اپنے قومی وجود کی گہرائیوں میں جذب ہو کر طاقت حاصل کریں۔ باقی مسلمان ملکوں کو بھول کر اپنی خودی کو بیدار کریں اور جب وہ اپنے اپنے قومی وجود کی گہرائیوں سے نئی طاقت لے کر ابھریں تو پھر League of Nations کی مانند ایک مسلم لیگ آف نیشنز وجود میں آ سکے گی۔ جہاں تک داعش کے دہشت گرد فکر و عمل کا تعلق ہے اقبال نے اس کی اپنے افکار میں پُرزور تردید کر رکھی ہے۔ ’’جاوید نامہ ‘‘ کے اختتام پر انہوں نے نئی نسل کے نام جو پیغام دیا ہے اُس پر کان دھرنے کی ضرورت ہے:

آدمیت، احترامِ آدمی

باخبر شو از مقامِ آدمی

بندۂ عشق از خدا گیرد طریق

مے شود بر کافر و مومن شفیق

تحریکِ پاکستان بھی ایک عوامی جمہوری تحریک تھی۔ پاکستان توپ و تفنگ سے نہیں، ووٹ کی پرچی سے قائم ہوا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران اقبال نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ:

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

آج کے پاکستان اور آج کی دُنیائے اسلام میں بلاشبہ اسلام کے مقدس نام پردہشت گردی اور غارت گری کا جہنم زار دہک رہا ہے مگر اقبال اور قائداعظم ہر دو بانیانِ پاکستان اسلام کی انسان دوست آفاقی روح کو پاکستان کے کوچہ و بازار سے لے کر کھیت کھلیان تک سرگرمِ کار دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ملائیت کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متصادم سمجھتے تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ اسلام میں ملائیت اور تشدد پسندی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے، برطانوی ہند میں سرگرمِ کار تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں تحریکِ پاکستان کے مخالف اور متحدہ ہندوستان کی حامی تھیں۔ اقبال کی روشن خیال اور انقلابی اسلامی تفہیم و تعبیر تحریکِ پاکستان کے دوران تو علماء کی تفہیم و تعبیر سے متصادم تھی مگر المیہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب سول اور ملٹری افسر شاہی نے اقتدار پر قبضہ کرکے امریکہ کی غلامی کو اپنا دین ایمان قرار دے دیا تو ہم رفتہ رفتہ بانیانِ پاکستان کے نظریات سے دور ہوتے چلے گئے اوراب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ ہمارے دانشور بھی اِن تصورات سے اس لیے گریزاں ہیں کہ یہ اسلام کی انقلابی تعلیمات سے پھوٹے ہیں۔

یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ علامہ اقبال کے سن تیس کے خطبۂ الہ آباد کا فقط ایک پیراگراف قارئینِ کرام کی نذر کر دوں:

“I therefore demand the formation of a consolidated Muslim state in the best interests of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam and opportunity to rid itself of the stamp that Arabian Imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times.”

درج بالا اقتباس میں قیامِ پاکستان کی تمنا اسلام پر سے عرب ملوکیت اورمروجہ ملائیت کی چھاپ کو ریزہ ریزہ کر کے اسلام کی حقیقی روح کو آزاد کرکے روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بتایا گیا ہے۔ آج داعش اِن قومی و ملی مقاصد سے انحراف کی حکمتِ عملی پر گامزن ہے۔ نہ وہ اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت کی تمنا رکھتی ہے اور نہ ہی روحِ عصر کو پہچانتی ہے۔ آج ہم داعش کی سی اسلام کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری میں مصروف تنظیموں کا مقابلہ اقبال کی تفہیم و تعبیرِ اسلام پر عمل پیرا ہوکر ہی کر سکتے ہیں۔ میری نظر میں اس وقت صرف داعش کی سی تنظیمیں ہی ہمارے قومی و ملی وجود کے لیے خطرہ نہیں بلکہ روشن خیالی اور ترقی پسندی کے دعوے دار وہ دانشور بھی خطرہ ہیں جو ملائیت کی بجائے سرے سے اسلام ہی کو رد کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اقبال سمیت دنیائے اسلام کے اُن تمام مفکرین سے کسبِ فیض سے انکاری ہیں جو اسلام کی حقیقی روح از سرِ نو بیدار اور سرگرمِ کاردیکھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش کی سی تنظیموں کے بیانیہ کو اقبال اور تحریک پاکستان کے بیانیہ ہی سے شکست دی جا سکتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).