سوشل میڈیا، آزادی رائے اور نواز شریف


سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے سوشل میڈیا پر اظہار رائے کرنے والوں کی اچانک گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی رائے پر حملہ قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کی بازیابی کے لئے فوری اقدام کئے جائیں۔ یہ بیان ایک ٹویٹر پیغام کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملکی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اور شائستگی کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ ہر کسی کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے یا کسی رائے سے اختلاف کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ نواز شریف نے آزادی رائے پر اپنے پختہ یقین کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایک ایسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے جو اس وقت مرکز کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان میں برسر اقتدار ہے، اپنے ہی کارکنوں کے خلاف کارروائی کی شکایت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کی صورت حال کس قدر سنگین ہے۔

پاکستان میں حکومت کی طرف سے مسلسل یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں میڈیا کو مکمل آزادی ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ موجودہ حکومت بھی کرتی ہے اور نواز شریف کے حال ہی میں ختم ہونے والے چار سالہ دور حکومت میں بھی یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت آزادی رائے پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں آزادی اظہار کے حوالے سے متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔ اوّل تو حکومت نے متعدد قوانین کے ذریعے خیالات کے اظہار پر پابندی عائد کی ہوئی ہوئی، نواز شریف ہی کے دور میں سائیبر کرائم پر کنٹرول کا جو قانون منظور کیا گیا تھا، اس کے بارے میں ملک میں شہری آزادیوں کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے خیالات کے آزادانہ اظہار پر پابندی کا راستہ تلاش کیا گیا ہے ۔ جو لوگ حکومت یا اس کے طاقتور اداروں کے خلاف کسی قسم کی رائے کا بے باکانہ اظہار کریں گے ، یہ قوانین ان کے خلاف استعمال ہوں گے۔

ملک میں یوں بھی سرکاری اداروں کی طرف سے شہریوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ گزشتہ روز ہی لاہور کی ایک صحافی دو سال کی پراسرار گمشدگی کے بعد اپنے گھر واپس آئی ہے۔ اس کی واپسی کا اعلان لاپتہ افراد کے معاملات کی تحقیق کرنے والے کمیشن کے سربراہ نے کیا ہے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ کن لوگوں نے اس خاتون صحافی کو اغوا کیا تھا اور اسے اس مدت میں کہاں رکھا گیا تھا۔ ملک کے طاقتور اداروں کا یہ قانون شکن رویہ ملک میں آزادی رائے اور جمہوری روایات کے لئے ہلاکت خیز ہے۔ لاہور کی بازیاب ہونے والی صحافی زینت شہزادی کا بظاہر یہ قصور تھا کہ وہ ایک لاپتہ بھارتی شہری کا سراغ لگانے کی کوشش کررہی تھی کہ خود اسے ہی اغوا کرلیا گیا۔ نواز شریف حکومت کے آخری دنوں میں سوشل میڈیا پر سرگرم پانچ افراد کو یکے بعد دیگرے اٹھایا گیا تھا۔ سول سوسائیٹی کے شدید احتجاج پر یہ لوگ رہا تو ہوگئے لیکن ان سب لوگوں کو ملک چھوڑنے یا مکمل خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

اب نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا پر متحرک کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے بارے میں جو احتجاج کررہے ہیں ، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور اس کا سربراہ بھی قومی مفاد کے نام پر غیر قانونی ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ یہ طریقہ شروع میں چھوٹے صوبوں میں ان لوگوں کے خلاف اختیار کیا گیا تھا جن پر قوم پرستی اور ملک سے علیحدگی کی تحریک چلانے یا مسلح جد و جہد کرنے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برس کے دوران اس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو نامعلوم لوگ غائب کردیتے ہیں ۔ ملک کی سول حکومت یا خود مختار عدالتیں ایسی کارروائیوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں لیکن سیاسی رہنما خفیہ ادروں کے ان غیر قانونی ہتھکنڈوں کے خلاف کبھی مل کر کوئی لائیحہ عمل اختیار کرنے اور آواز بلند کرنے پر متفق نہیں ہو سکے۔ حالانکہ ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے، سب کی قانون کے سامنے جوابدہی کا اصول تسلیم کروانے اور انصاف عام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ خود کو قانون سے بالا نہ سمجھے۔ لیکن یہ صورت حال دیکھی جا سکتی ہے کہ سیاست دان اپنی مقبولیت کی بنا پر عدالتوں میں پیش ہونے یا وارنٹ جاری ہونے کے باوجود گرفتار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں ۔ پھر یہی لوگ کیوں کر ریاست کے اداروں میں کام کرنے والے اہلکاروں کو اس بات پر مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ جب فرد اور ادارے اپنے اپنے طور پر طاقت کا ناجائز استعمال کرنا ضروری سمجھیں گے تو ملک میں قانون کی حکمرانی کا تصور بھی محال ہے۔

پاکستان سے گزشتہ کچھ عرصہ سے صحافیوں کو خاموش کروانے اور میڈیا ہاؤسز کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔ اس صورت حال میں ملک کے ایک طاقتور لیڈر کی طرف سے آزادی رائے کے حق میں بیان ایک اہم اور قابل قدر پیش رفت ہے۔ نواز شریف کے اس مطالبہ کو صرف یہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دور میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں تھی یا یہ کہ اب بھی ان کی پارٹی کی حکومتیں موجود ہیں۔ رائے قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق بنیادی انسانی حق کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو اس مقصد کے لئے نواز شریف کی آواز میں آواز ملانی چاہئے۔ آزادی رائے کے بغیر قانون کی عملداری اور جمہوریت کے فروغ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali