کیا جماعت احمدیہ غدار ہے؟ (1)


ظفر الاسلام سیفی صاحب کا ایک مضمون “ہم سب” کی زینت بنا ہے جس میں آنجناب نے احمدیوں کی ملک و ملت سے کی جانے والی “غداریوں” کا تذکرہ فرمایا ہے۔ بے حوالہ، بے دلائل اور “سنا گیا ہے” یا “بتایا جاتا ہے” پر روایات کا استناد بتلا رہا ہے کہ مضمون کس قبیل کا ہے۔ باقاعدہ شہادت ڈاکٹر صفدر محمود جیسے “جید” مورخ سے دلوائی گئی ہے. موصوف کے اعتراضات کا خلاصہ دیکھئے۔

1.          جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے فرمایا کہ ’’میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ملک کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘چنانچہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ احمدی غدار ہیں ۔

2.          جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا یہ فرمانا کہ ’’ یہ خدا کی مرضی ہے کہ ہندوستاں متحد رہے ،اگر ہم ہندوستاں کی تقسیم پر راضی رہے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائیں‘‘ یہ اس امر شہادت ہے کہ احمدی پاکستان کے غدار ہیں۔

3.          علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا نام پیش نہیں کیا تھا

4.          چوہدری ظفراللہ خان نے کشمیر تک پہنچنے کے لئے انڈیا کو راستہ دیا اور باونڈری کمیشن میں حکومت کی اجازت کے بغیر رائے پیش کی۔

5.          چوہدری ظفراللہ خان کو وزیر خارجہ قائداعظم نے مجبوری میں بنایا تھا ورنہ وہ حسین سہروردی کو وزیر خارجہ بنانا چاہ رہے تھے۔

6.          مسلم لیگ کے سئنیر رکن اسمبلی میاں افتخار الدین نے اسمبلی میں بیان دیا کہ : ’’جناب عالی، ہمارا وزیر خارجہ سر ظفراللہ کیا کر رہا ہے، یہ شخص لازمی طور پر برطانوی مفادات کا نگہبان ہے، ہمارا معزز وزیر خارجہ ہم سے بلکہ امریکہ سے بھی زیادہ برطانیہ کا وفادار ہے، یہ کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑ رہا بلکہ مزید اس کو الجھا رہا ہے۔ـ‘‘

7.          راولپنڈی سازش کیس میں احمدی افسران ملوث تھے۔

8.          بھارت کے سابق ہائی کمشنر سری پرکاش نے خود نوشت سوانح عمری میں لکھا کہ ظفراللہ قادیانی نے ان کے سامنے قائد اعظم کو گالی دی اور کہا کہ اگر پاکستان بن گیا توہندووں سے زیادہ مسلمانوں کا نقصان ہو گا۔‘‘

9.          مشہور صحافی نیر زیدی لکھتے ہیں کہ جب قائد اعظم سے پوچھا گیا کہ قادیانیوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’میری وہی رائے ہے جو علمائے کرام اور پوری امت کی ہے ۔‘‘

10.      پچیس جولائی 1974ء کو جسٹس ہمدانی کی عدالت میں بتایا گیا کہ مرزا ناصر کی سربراہی میں بھٹو قتل کی منصوبہ بندی کی گئی۔

آئیں، تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں کہ کیا فاضل مضمون نگار درست فرما رہے ہیں یا کہانی کچھ اور ہے۔

ہندوستانی سیاست سے مایوس ہوکر قائد اعظم لندن جا بیٹھے۔  لندن مشن کے امام مولانا عبدالرحیم درد نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ہدایت پہ انہیں قائل کیا کہ وہ ہندوستان واپس تشریف لاکر مسلمانان ہند کی خدمت کریں.قائد اعظم خود اس حوالہ سے فرماتے ہیں:

  “The eloquent persuasion of the Imam left me no escape,”

ترجمہ:۔ امام (بیت الفضل لندن)کی وسیع و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کےلئے نہ چھوڑی۔ ‘‘

 (Madras Mail 7th April 1933)

1946  کے الیکشن میں اکثر مذہبی تنظیمیں کانگریس کے پرچم تلے جمع تھیں اس وقت جماعت احمدیہ مسلم لیگ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اور احمدیوں نے اپنے شدید مخالفین کو بھی ووٹ دیئے جو مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ سردار شوکت حیات اپنی کتاب ’’گم گشتہ قوم‘‘ کے صفحہ 139 پہ لکھتے ہیں:

“ایک دن مجھے قائداعظم کی طرف سے پیغام ملا شوکت! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ تم وہاں جاؤ اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے اپنی نیک دعاوں اور حمایت سے نوازیں۔ جلسہ کے اختتام کے بعد نصف شب تقریبا بارہ بجے قادیان پہنچا تو حضرت صاحب آرام فرما رہے تھے۔ میں نے ان تک پیغام پہنچایا کہ میں قائداعظم کا پیغام لیکر حاضر ہوا ہوں۔ وہ اسی وقت نیچے تشریف لائے اور استفسار کیا کہ قائداعظم کے کیا احکامات ہیں؟ میں نے کہا وہ آپ کی دعا اور معاونت کے طلبگار ہیں۔ انہوں نے جوابا کہا کہ وہ شروع سے ہی ان کے مشن کے لئے دعا گو ہیں اور جہاں تک ان کے پیروکاروں کا تعلق ہے کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میں کھڑا نہ ہوگا اور اگر کوئی اس سے غداری کرے گا تو ان کی جماعت کی حمایت سے محروم رہے گا۔‘‘

انہی انتخابات میں جماعت احمدیہ کے بھرپور تعاون سے مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ تنظیم کے طور پر سامنے آئی۔ قائداعظم نے’’ڈان‘‘ میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خط بھی شائع کیا جس میں تمام احمدیوں کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

جہاں تک جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی یہ رائے تھی کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں، اس کا یہی جواب کافی ہوگا کہ علامہ اقبال سے لیکر مولانا مودودی تک ہر ایک کی یہی رائے تھی کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہئے۔علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں بھی مسلمان صوبوں کے قیام کی بات کی گئی تھی نہ کہ علیحدہ وطن کی۔ خودقائداعظم کی کیبنٹ  پلان تک یہی کوشش تھی کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو، تاہم یہ حقائق تاریخ میں شعوری دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لئے ہیں۔ خود ساختہ نظریاتی فوجداروں کو یہ باتیں غداری معلوم ہوتی ہیں۔

ہندوستان جانے کے بارے میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے فرمایا تھا:

’’ ایک خبررساں ایجنسی کے مالک نے مجھ سے پوچھا کہ کیا احمدی قادیان جانے کا خیال رکھتے ہیں یا ربوہ ان کا مستقل مرکز ہوگا۔ میں نے ان سے جواباً کہا کہ ’’قادیان ایک مذہبی مرکز ہے اور اس سے ہر ملک کے احمدی مذہبی عقیدت رکھتے ہیں اس لئے اس کے مرکز ہونے کی حیثیت کو میں یا کوئی اور تبدیل نہیں کرسکتا۔ جب بھی وہاں حالات سازگار ہوں گے وہ احمدی جو وہاں عقیدت یا کام کی وجہ سے جا سکتے ہوں جائیں گے۔ اس کے علاوہ انتظامی طور پر میں نے ہندوستان یونین کے سوا دوسرے تمام احمدیوں کو پاکستان کے ماتحت کردیا ہے تاکہ کوئی سیاسی پیچیدگی پاکستان کے خلاف پیدا نہ ہو اور اسی وقت دوسرے ممالک کے احمدیوں کو قادیان کے ماتحت کیا جائے گا جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو الجھن ہے، وہ دور ہوجائے۔ یقیناً یہ بات پاکستان کے حق میں تھی اور ہے۔ اگر پاکستان سے ہمیں وفاداری نہ ہوتی تو پاکستان کے باہر احمدیوں کو ہم پاکستان کے مرکز کے ماتحت کیوں کرتے۔؟‘‘

جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی پاکستان سے غیر مشروط وفاداری کا یہ بیان اس وقت کے ملکی اخبارات میں نہ صرف شائع ہوا بلکہ سیاسی تاریخ کی کتب میں بھی درج ہے ۔

سیفی صاحب نے فرمایا ہے کہ اقبال جماعت احمدیہ کے امام کا نام بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی کے پیش ہی نہیں کر سکتے تھے ۔سیفی صاحب کی معلومات میں یہ بات یقینا ازحد اضافہ کرے گی کہ اقبال کی پچاسویں برسی کے موقع پر اقبال اکادمی نے ایک ضخیم مجلہ شائع کیا تھا اس میں اقبال کا یہ بیان شامل ہے جو انہوں نے 1910 کے خطبہ علی گڑھ میں کہا تھا:

’’جماعت احمدیہ اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے‘‘

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اقبال 1935ء تک جماعت احمدیہ کی مساعی کی تعریف کرتے تھے۔ اقبال نے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کو قادیان حصول تعلیم کے لئے بھجوایا تھا۔ 1935 میں امام جماعت احمدیہ نے اقبال کی مخالفت پر انہیں ایک خط لکھا جس میں انہیں مخاطب کرکے کہا گیا کہ آپ کے والد احمدی تھے اور آپ کے بڑے بھائی صاحب جو اس وقت آپ کی کوٹھی میں مقیم ہیں وہ بھی احمدی ہیں اور آپ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد بھی احمدی ہیں۔ اقبال نے بڑے بھائی کی موجودگی میں ان حقائق کی تردید کی جرات نہیں کرسکے۔

اقبال کے فرزند اور مصنف ’’زندہ رود‘‘ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب صفحہ نمبر 584 پر لکھتے ہیں:

’’برصغیر کے بیشتر علماء نے تو ابتداء ہی سے مرزا غلام احمد کے دعوی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔یہ سب حقائق اقبال کے علم میں تھے لیکن اس کے باوجود وہ خاموش رہے۔ اقبال نے کم از کم مولانا سید میر حسن یا شیخ نور محمد کی زندگی میں احمدیوں سے کسی بھی قسم کا مناظرہ کرنے سے احتراز کیا۔‘‘

فرزند اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال احمدیوں سے من حیث الجماعت 1933 میں مایوس ہوئے لیکن انہوں نے تحریک احمدیہ کے خلاف اپنا پہلا بیان دو سال بعد یعنی 1935 میں دیا۔‘‘

1935 میں وائسرائے کونسل کے رکن سر فضل حسین کی رکنیت ختم ہو رہی تھی۔ ان کے جانشینی کے لئے سر محمد اقبال اور چوہدری ظفراللہ خان کے نام لئے جارہے تھے۔ وزیر ہند نے اس عہدہ پر چوہدری ظفراللہ صاحب کا تقرر کر دیا۔ مئی 1935ء میں چوہدری صاحب نے چارج لیا تھا۔ اس وقت مجلس احرار احمدیت مخالفت میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ اقبال اس مہم میں شریک نہیں تھے لیکن مئی 1935 میں اس مہم میں شامل ہوگئے۔ اس دلچسپ امر پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا:

’’چوہدری ظفراللہ خان کے تقرر کے بعد اقبال کی حمیت ختم رسل (فدا ابی وامی) میں کیوں جوش آیا؟‘‘

کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا نام بھی اقبال نے ہی پیش کیا تھا۔ ایم ڈی تاثیر کی بیگم اپنی کتاب ’’دی کشمیر آف شیخ عبداللہ‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’علامہ اقبال نے تحریک احمدیہ کے سپریم ہیڈ مرزا بشیرالدین محمود احمد سے درخواست کی کہ وہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ بنیں۔‘‘

علامہ اقبال کے وہ خطوط بھی موجود ہیں جن میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے امام کو منظم جماعت کا امام ہونے کے ناطے ’’بہت مفید کام‘‘ مسلمانوں کے لئے سرانجام دینے کی بات کی ہے

(جاری ہے)

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad