دارالعلوم دیوبند کا آن لائن دارالافتاء اور جدید تعلیم


مدارس کے حوالے سے گزشتہ دنوں جو بحث چھڑی، اس کو صحت مند انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میں آج مدارس کے نظام کی خامیوں پر کچھ کہنے کے بجائے اس سوال کا جائزہ لینا چاہتا ہوں، کہ کیا مدارس کے رویے سے مسلمان پیچھے جا رہے ہیں؟ اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے کچھ فتاوی دیکھیے اور بتائیے کہ مسلمانوں کی رہنمائی کے دعوے داروں کا عمل مسلمانوں کو کس طرف دھکیل رہا ہے؟ دارالعلوم کے حوالہ سے اس وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، کہ یہ ادارہ برصغیر کے دسیوں لاکھوں مسلمانوں اور ہزاروں مدارس کا منبع ہدایت ہے۔ میں دارالعلوم دیوبند کے آن لائن دارالافتاء کے کچھ فتاوے یہاں درج کر رہا ہوں۔ حوالے موجود ہیں جو اصحاب چاہیں وہ تصدیق کر سکتے ہیں۔

دارالافتاء سے سوال نمبر 37852 میں ایک خاتون نے سوال کیا کہ میں میڈیکل کالج میں پڑھتی ہوں اور الحمد للہ شرعی پردہ بھی کرتی ہوں، میڈیکل کالج کے ماحول کے برعکس میں کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہیں کرتی، لیکن جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو ڈاکٹروں سے پوچھ لیتی ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ آواز میں نرمی نہ ہو۔ اس کے علاوہ اگر کبھی پوری کلاس کے سامنے پریزنٹینش (پڑھائی سے متعلق کوئی چیز پیش کرنا) ہوتی ہے تو گروپ کی دوسری لڑکیاں دیتی ہیں، مگر جب پریزنٹیشن امتحان کا حصہ ہوتی ہے تو مجھے دینا پڑتی ہے۔ الحمد للہ! میں اسلام پر چلنے کی پوری کوشش کرتی ہوں، لیکن میں اس بارے میں پریشانی کا شکار ہوں کہ ان تمام باتوں کے باوجود میرا یونیورسٹی میں پڑھنا جائز ہے؟

اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند نے جو فتویٰ صادر کیا اس کا متن کچھ یوں ہے۔ لیڈیز ڈاکٹر بننے کے لیے میڈیکل کالج میں مسلم لڑکیوں کا پڑھنا لڑکوں کے اختلاط کے ساتھ اور پروفیسروں سے بے پردگی کے ساتھ ہمارے مذہب اسلام میں اس کی اجازت نہیں۔ بے پردگی اور اختلاط سے بہت سارے فتنے کے دروازے کھلتے ہیں، اگر کسی لڑکی نے پڑھ لیا اور لیڈی ڈاکٹر بن گئی تو اپنی بے پردگی اور اختلاط کے باعث گنہ گار ہو گی۔ اگر کسی یونیورسٹی میں لڑکیوں کا بالکل الگ سسٹم ہو، اس میں لڑکے نہ ہوں، پڑھانے والیاں بھی لیڈیز ڈاکٹرنی ہوں تو پھر لیڈی ڈاکٹر بننے کی اجازت ہے۔

اب ذرا ٹھیر جائیے۔ جنہیں میڈیکل تعلیم کا رتی بھر بھی علم ہے، وہ اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے لیے کسی امیدوار کو کتنی سخت محنت کرنا پڑتی ہے؟ یہ کوئی مدرسے کا داخلہ نہیں جہاں کسی بڑے حضرت کی سفارشی چٹھی یعنی توسیع لے کر جاؤ اور نام لکھوا لو؛ میڈیکل کے لیے رات رات بھر کتابیں چاٹنا پڑتی ہیں؛ پڑھتے پڑھتے اکثر آنکھوں پر موٹے لینز کی عینک چڑھ جاتی ہے؛ اس کے بعد کہیں جاکر کسی کا داخلہ ایم بی بی ایس میں ہوتا ہے۔ کسی مسلمان بچی کے لیے یہاں تک پہنچنا مزید مشکل اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے صاحبان جبہ و دستار پہلے ہی سے جائز نا جائز کا لٹھ لے کر کھڑے ہوئے ہیں؛ ایسے میں ایسے مشکل کورس میں داخلہ پالینے کے بعد اور تعلیم کے دوران شرعی حدود کا ہر ممکن لحاظ رکھنے والی لڑکی کو مفتی صاحب نے بیک جنبش قلم حکم دے دیا کہ یہ جائز نہیں ہے۔

دست بستہ کہنا چاہوں گا کہ ہندوستان میں ایک بھی ایسا میڈیکل کالج نہیں جہاں صرف خواتین ہوں۔ ایسے میں کیا کوئی مسلمان لڑکی میڈیکل کی تعلیم حاصل ہی نہ کرے؟ اگر کوئی مسلمان لڑکی ڈاکٹر بنے ہی گی نہیں تو میڈیکل کالج میں لیڈی ٹیچر کہاں سے آئیں گی؟

غور فرمائیں، مفتی صاحب نے محض اس قیاس پر کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مردوں سے اختلاط ہو گا، فرما دیا کہ یہ تعلیم ہی جائز نہیں۔ میرے منہ میں خاک! اگر مفتی صاحب کی اہلیہ محترمہ کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہو جائیں اور اس کا ماہر ڈاکٹر مرد ہی ہو، تو کیا مفتی صاحب اپنی بیگم کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں گے؟ ہماری بچیوں کا میڈیکل تعلیم حاصل کرنا انھی کے لیے نہیں، مفتی صاحب کی اہلیہ کے لیے بھی ضروری ہے۔

ہماری مسلمان بہنوں کی زچگی کے لیے ہمیں مسلمان خاتون گائناکالوجسٹ تبھی میسر ہوں گی، جب ہم اپنی بچیوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے دیں، اور بے وجہ کے فتوؤں کی پھل جھڑیاں چھوڑنا بند کریں۔

دارالعلوم کے فاضل مفتیان کی جدید تعلیم سے عداوت کی ایک اور مثال دیکھیے۔ ایک صاحب نے سوال نمبر 18633 میں پوچھا کہ ان کا داخلہ ایم بی اے میں ہو گیا ہے، انھوں نے داخلہ امتحان پاس کر لیا ہے اور اب داخلہ کے لیے کورس کی فیس سات لاکھ روپیا چاہیے۔ لکھتے ہیں، کہ ان کے والد صاحب غریب ہیں اور اس فیس کو ادا کرنے سے معذور ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ کیا وہ اپنی تعلیم کو مکمل کرنےکے لیے بنک سے ایجوکیشن لون یا تعلیمی قرض لے سکتے ہیں؟

اس کے جواب میں فتوی ملاحظہ ہو۔ سودی قرض لینا شرعاً حرام ہے، اس لیے اگر تعلیمی قرض میں اصل سے زائد رقم دینا پڑتی ہو، تو اس لون کا لینا شرعاً ناجائز و حرام ہوگا۔

مفتی صاحب کو یہ حکم لگانے میں کتنی دیر لگی ہوگی؟ ممکن ہے ایک گھنٹا، ایک ایک منٹ یا بمشکل ایک پل؟ اس ایک پل سے کتنے طالب علموں کے روشن مستقبل کا کباڑا ہو سکتا ہے، یہ کسے خبر۔ مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے؛ یہ طالب علم قرض لے کر شراب کا ٹھیکا نہیں لگائے گا، بلکہ اس کی فیس ادا ہوگی، جس سے اس کے گھر خوش حالی آئے گی، یہ اپنے اہل وعیال کے فرائض ادا کرے گا، بہنوں کی شادی کرے گا، بھائیوں کو تعلیم دلائے گا، ماں کا علاج کرائے گا، باپ کی دوا خریدے گا۔ یہ سب کچھ اس کے یہ کورس مکمل کرنے سے مشروط ہے اور کورس کرنے کے لیے ایجوکیشن لون چاہیے۔

مفتی صاحب اس لون کو حرام قرار دینے سے پہلے لمحہ بھر سوچ ہی نہیں رہے کہ یہ ایسی اسلامی فلاحی مملکت نہیں جہاں طالب علموں کے لیے غیر سودی قرضوں یا امداد کی سہولت دستیاب ہے؛ پہلے سے پسے ہوئے طبقے کے فرد کو علم کے راستوں سے دور کردینے والوں کے خلاف فتویٰ کون دے گا؟ علم تو ہے ہی جستجو کا نام، تو کیوں نہ جستجو کے خلاف جاتے فتووں کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ سود حرام ہے، پر سود کیا ہے، اس کی تشریح بھی ہو جائے۔ جہاں مملکت کا نظام ہی سود پر چل رہا ہو، وہاں ایک ایک لقمہ لیتے حرام حلال کی بحث کرتے، ایسے مفتیوں کا کیا کام؟ وہاں سے ہجرت کیوں نہیں کر جاتے؟ تعلیم کے لیے بینک سے لیا جانے والا قرض اور ساہوکار سے غریب کو دیا جانے والا قرض دونوں الگ نوعیت کے ہیں، دونوں کو ایک ہی ترازو میں کس بے دردی سے تول دیا گیا، کیا یہی انصاف ہے؟

مان لیا کہ ہر صورت میں ایجوکیشن لون حرام ہے، تو ٹھیک ہے مدارس کے بیت المال میں جو رقومات شرعیہ ٹھونس ٹھونس کر بھری ہوئی ہیں ان میں سے اس طالب علم کی فیس بطور قرض جمع کرا دیجیے۔ آپ بیت المال کو بھی دانتوں سے پکڑ کر رکھیں گے، طالب علم کو بینک سے لون بھی نہیں لینے دیں گےاور فقہی مسائل کو موجودہ دور کے اعتبار سے بتائیں گے بھی نہیں، تو آپ یوں ‌کیجیے کہ اس طالب علم کو دو چٹکی سنکھیا دے دیجیے، جسے کھا کر وہ ان جھنجھٹوں سے نجات پائے؛ خیال رکھیے گا، کہیں سنکھیا اس رقم سے تو نہیں خریدا گیا جو سودی نظام سے کمائی آمدن سے خیرات میں لی ہو۔

دنیاوی تعلیم کو دارالعلوم دیوبند کے عظیم المرتبت مفتی صاحبان کتنی فالتو شے مانتے ہیں، اس کی ایک اور مثال سوال نمبر 14818 کے جواب میں جاری فتوے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ دنیاوی تعلیم جس سے عورت کو نوکری مل جائے، میں بہت سے محظورات شرعیہ کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے، نیز نوکری ملنے کے بعد بھی بالعموم دورانِ ملازمت بے حجاب رہنا پڑتا ہے، غیر مردوں سے اختلاط رہتا ہے، اس لیے محض شبہ اور وہم کی بنا پر کہ اگر شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت کیسے گزر بسر کرے گی، اعلیٰ پیمانے پر دنیاوی تعلیم دلانا، کسی طرح بھی مناسب نہیں۔

ایک صاحب نے سوال نمبر60827 میں دنیاوی تعلیم کے سلسلہ میں مفتیان سے رہنمائی چاہی تو یہ حکم وارد ہوا کہ باپ اور سرپرست کی ذمے داری یہ ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم دیں، بنیادی اسلامی عقائد سے واقف کرائیں، قرآن کریم سکھائیں ضروری مسائل شرعیہ سیکھنے کا ان کے لیے انتظام کریں، دنیوی پیشہ ورانہ تعلیم دینا، ان پر ضروری نہیں ہے۔ (رہے نام اللہ کا)

دارالعلوم دیوبند کے آن لائن دارالافتاء پر ایسے درجنوں فتاوی موجود ہیں جن میں دنیاوی تعلیم کو یکسر غیر ضرور قرار دیا گیا ہے اور علم بس! نماز روزہ کی جان کاری اور دینی تعلیم کو بتایا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس پر کسی شرمندگی کے بجائے اہل مدارس ایسے فتوؤں کا دفاع کرتے ہیں۔ مفتیان ایک منٹ کو نہیں سوچتے کہ اگر ساری دنیا نے ان کی طرح دنیاوی علوم کو غیر ضروری مان کر ٹھکرا دیا ہوتا، تو ان کا آن لائن دارالافتاء کیسے چلتا؟

انجینیئر نہ ہوتے تو دارالعلوم دیوبند کی عمارت کیسے بنتی؟
نصاب کی کتابیں، بچوں کی اسناد، مولویوں مفتیوں کی مہریں کیسے تیار ہوتیں؟
دیوبند تک طلبا بسوں اور ٹرینوں سے کیسے پہنچتے؟
مفتیان ہر برس حج کرنے جہاز سے کیسے جاتے؟
وہاں مطاف کی توسیع بنا انجینیئر کیسے ہوتی؟

حج کی بھگدڑ میں مفتی صاحب زخمی ہو جاتے تو بنا ڈاکٹر ان کا علاج کیسے ہوتا؟
خدانخواستہ رحلت فرما جاتے تو ان کے جنازے کو وطن پہنچنے تک سڑنے سے بچانے کے مخصوص باکس کیسے بنتے؟
ایئرپورٹ سے جنازہ گھر تک بنا ٹرک یا ایمبولینس کے کیسے آتا؟

تدفین کے لیے جاتے وقت مسہری کہاں سے ملتی؟
کپڑا بننا بھی دینی علم میں نہیں آتا تو پھر کفن کا لٹھا کہاں سے فراہم ہوتا؟
یہ سب سوال ہیں۔ ایک بار سوچیے اور بتائیے کہ یا یہ کہا جائے کہ کیا آپ بالکل نہیں سوچتے؟

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah