بلھے شاہ اور دور حاضر کے مذہبی ٹھیکیدار


بابا بلھے شاہ اپنے عہد کے مذہبی ٹھیکیداروں، ملاّوں اور مفتیوں کے حوالے سے کہتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے اور ان کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے۔ بابا بلھے شاہ نے مذہب کی اپنے وجدانی تجربے کی مناسبت سے تشریح کی۔

ملاّں قاضی راہ بتاون، دین بھرم دے پھیرے

ایہہ تاں ٹھگ جگت دے جھیور، لاون جال چوفیرے

مذہبی منافرت، فرقہ واریت، اور جنونیت پسندی کے خلاف بابا بلھے شاہ نے اپنے دور میں آواز بلند کی اور اپنی زندگی میں انسانی برابری، لوگوں کی مدد اور درویشی کے رجحانات کو نمایاں کیا۔ بلھے شاہ نے اپنے کلام میں تمام انسانوں کے درمیان پیدا کردہ تفریق اور تقسیم کی نفی کی ہے۔ وہ ذات برادری،رنگ نسل اور مذہبی فرقے سے بلند ہوکر سوچتے تھے۔

کرم شرع دے دھرم بتاون، سنگل پاون پیریں

ذات مذہب ایہہ عشق نہ پچھدا، عشق شرع دا ویری

بلھے شاہ نے ملاّ کے بنائے ہوئے تصورِ دین سے سخت نفرت کا اظہار کیا اور عربی فارسی میں عالم ہونے کے باوجود انہوں نے رابطے کے لیے پنجابی زبان میں لوگوں سے رابطے جوڑا۔ اور یہی وجہ تھی کہ جب بابا بلھے شاہ کا انتقال ہوا تو شہر کے مولویوں اور مذہبی ٹھیکیداروں نے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔

سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی

لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟

تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا

لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے

چلِے کیتے پر رب نہ ملیا

لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے

ان نام نہاد ملاّوں کے وقتاً فوقتاً چہرے معاشرے میں بے نقاب ہوتے رہے ہیں جس کی ایک مثال مفتی عبدالقوی ہیں جو رویت ہلال کمیٹی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے بھی رکن تھے، سوشل میڈیا پر قندیل بلوچ کے ساتھ تصاویر شائع ہونے کے بعد زیادہ مشہور و معروف ہو گئے۔ بقول قندیل بلوچ کہ، مفتی صاحب نے اپنی ملاقات میں رمضان اور عید کے چاند سے زیادہ ان کو فوقیت دی اور ان کا چھوڑا ہوا سگریٹ اور مشروب بھی پیا اور ان کو اپنانے کے لیے سر توڑ کوشش کی اور قندیل بلوچ کو یہ لگا کہ وہ ایک مفتی کے لباس میں شیطان سے ملاقات کر رہی ہے۔ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں مفتی عبدالقوی کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہوتے ہی مفتی صاحب احاطہ عدالت سے فرار ہو گئے اور ان کے زیر استعمال موبائل فون سے ان کی لوکیشن معلوم کرنے کے بعد پولیس نے انھیں مظفر گڑھ سے گرفتار کرلیا اور آج کل مفتی صاحب عارضہ قلب کے باعث زیر علاج ہیں۔ اگر مفتی عبدالقوی بے قصور ہیں تو عدالت سے ان کے فرار کا کیا مطلب لیا جائے اور اگر وہ اتنے ہی پرہیزگار تھے تو پھر ایک بدنام زمانہ عورت سے اکیلی جگہ پر ملنے کا کیا سبب۔ یاد رہے کہ مفتی عبدالقوی پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے قیدیل بلوچ کو قتل کروانے کے لیے اس کے بھائی اور رشتے داروں کو اکسایا۔ مفتی عبدالقوی جیسے سیکڑوں مذہبی ٹھیکیدار ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر دین کو بھی نہیں بخشتے اور مذہب کے نام پر ملک میں مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور جنونیت پسندی اور دھشتگردی کو فروغ دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے ان سوداگروں کو پہچانیں اور خود مذہب کو صحیح معنوں میں سمجھیں ورنہ تو بلھے شاہ کی جنگ ان ملاّؤں سے صدیوں سے جاری ہے۔

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نہیں

جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر

کدی اپنڑے اندر توں وَڑیا ای نہیں ۔

ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں

کدی نفس اپنڑے نال توں لڑیا ای نہیں

بُلھے شاہ اسمانی اُڈدیاں پھَڑدا ایں

جہڑا کہر بیٹھا اونوں پھڑیا ای نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).