لڑکیوں کو لفظ ”انجوائے“ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی


میں معذرت خواہ ہوں۔ میں بالکل جاہل، گنوار اور بے خبر تھا۔ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ پاکستانی عورت کو تو اس کے تمام انسانی حقوق مل رہے ہیں اور اسے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ ایک اجنبی کے ساتھ سہاگ رات در حقیقت ایک اچھی چیز ہے اور صرف والدین ہی نہیں لڑکیاں بھی اس بات کو بہت پسند کرتی ہیں۔

یہ ساری باتیں اور ایسی ہی ڈھیروں اور باتیں مجھے اس وقت پتا چلیں جب لوگوں نے ہم سب پر چھپنے والا میرا مضمون ”سہاگ رات کسی اجنبی کے ساتھ ہی ہو“ پڑھا اور اس پر تبصرے کیے۔

ان تبصروں سے مجھے یہ پتا چلا کہ عورتوں کو پاکستان میں تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں اور ہمیں اس بات پر فخر کرنے کا ہمیں پوارا حق ہے اور ہم اپنا یہ حق استعمال بھی کرتے ہیں۔ ہاں البتہ عورتیں اور لڑکیاں ہمارے ساتھ کافی زیادتیاں کرتی رہتی ہیں۔ ہمیں صدمے پہنچاتی ہیں۔ معاشرے کو اس سلسلے میں سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان صدمات سے بچ سکیں جو لڑکیاں اور ہمیں پہنچاتی ہیں۔

سب سے پہلی زیادتی تو وہ ہمارے ساتھ یہ کرتی ہیں کہ ہمارے جیسے غیرت مند گھروں میں پیدا ہو جاتی ہیں اور ہمیں شرمندہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ ہم بیچارے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے، اس دکھ میں ہم روتے بھی ہیں۔ حالانکہ ہم غیر مند قوم ہیں اور ہماری روایات مشرقی ہیں لیکن پھر بھی یہ لڑکیاں ہیں کہ ہمارے ہاں پیدا ہوئی چلی جاتی ہیں۔ جاؤ پرے جا کے ویسٹ میں بے غیرتوں کے گھروں میں پیدا ہو۔ انہوں نے اپنی روایات کافی حد تک بھلا دی ہیں اور ان کے گھروں میں بچی پیدا ہو یا بچہ وہ روتے نہیں بلکہ خوش ہوتے پھرتے ہیں۔ مبارک بادیں لیتے پھرتے ہیں لڑکی پیدا ہونے پر، بے غیرت کہیں کے۔

ایک تو یہ مصیبت (لڑکی) پیدا ہو جاتی ہے اوپر سے اب یہ بے غیرت ماڈرن زمانہ ہے لڑکیوں کے لیے تعلیم جیسے مطالبات لے کے بیٹھ جاتا ہے۔ او بھائی ہم نے انہیں کوئی کرنل بنانا ہے جو تعلیم ضروری ہو گئی ہے (غالباً کرنل بننے کے لیے تعلیم ضروری ہے)۔ اور پھر تعلیم بے غیرتی سکھانے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ پہلے زمانے میں پھر بھی کچھ بچت تھی۔ پڑھی لکھی لڑکیاں رقعے تو لکھتی تھیں لیکن انہیں پرائے لڑکوں تک پہنچانے کے لیے انہیں کافی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ آج کل یہ گشتی فونوں کی وجہ سے میسج یوں بغیر کسی تردد کے چند سیکنڈ میں چلا جاتا ہے۔ اس لیے لڑکی کا پڑھا لکھا ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

اور جب پڑھائی آ جائے تو بات اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور نازیبا مطالبات شروع ہو جاتے ہیں۔ گھر سے نکلنا، دوستیاں کرنا (سارے سیانے لوگ دوستی سے مراد لڑکوں کے ساتھ ناجائز دوستی ہی لیں)، سیر سپاٹے کرنا اور زندگی کو انجوائے کرنا وغیرہ۔ اب کوئی پوچھے لڑکی کو بھلا لفظ ”انجوائے“ استعمال کرتے ہوئے شرم نہیں آنی چاہیے۔ یعنی ہماری مشرقی روایات کیا اتنی کمزور پڑ گئی ہیں کہ ہماری لڑکیاں اور عورتین سر عام لفظ ”انجوائے“ استعمال کریں گی۔ ایسی باتیں سننے سے پہلے ہم غیرت مند مرد (اور جمعیت والے بھائی) مر کیوں نہیں گئے تھے۔

اور بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ تعلیم جب آتی ہے تو لڑکیاں پلٹ کر سوال کرنے لگ جاتی ہیں۔ حالانکہ ہم نے تعلیم کے معیار میں بڑی احتیاط کی ہوئی ہے اور سوال کرنے کا سوال کم ہی پیدا ہوتا ہے لیکن پھر بھی تعلیم اپنے لچھن دکھائے بغیر نہیں رہتی اور پڑھی لکھی لڑکیاں سوالات اٹھانے سے باز نہیں آتیں۔ میں نے خود کئی لڑکیوں کو ایسے سوال کرتے سنا ہے کہ آپ نے بھائی کو کالج داخل کروا دیا ہے اور مجھے اجازت نہیں دی۔ بھائی سائیکل یا موٹر سائیکل چلا سکتا ہے تو میں کیوں نہیں چلا سکتی۔ یا اسلام نے اپنی مرضی کی شادی اجازت دے رکھی ہے تو مجھے یہ حق کیوں نہیں ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ ہماری غیرت کا جذبہ ابھی اتنا مضبوط ہے کہ ہم ایسے سوالوں کو ہاتھوں سے روکتے ہیں اور اپنی عزت کا جنازہ نہیں نکلنے دیتے۔

ایک تو لڑکیوں کی طرف یہ مسائل ہمارے گھروں اور معاشرے میں بڑھتے جا رہے ہیں دوسری جانب یہ این جی او والا موم بتی مافیا اور لنڈے کے لبرل ہمیں بدنام بھی کرتے ہیں۔ یہ مسائل روز بروز بڑہتے جا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ لبرل ہمارے معاشرے کو بھی یورپ جیسا بے غیرت بنا کر ہی چھوڑیں گے۔ لڑکیوں کے منہ سے لفظ ”انجوائے“ تو ابھی سے سننے کو ملتا ہے۔ سارے غیرت مند دوست اس کا واضح مطلب وہ والا انجوائے ہی لیں۔


اسی بارے میں

سہاگ رات کسی اجنبی کے ساتھ ہی ہو

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik