مداری اور جادوگر


\"M.

اک وقت تھا کہ جب گاوں دیہاتوں کے باہر اور بیچ بازار میں ڈگڈگی کی آواز پہ اک مجمع جمع ہوجاتا جس میں بچے بوڑھے سب شامل ہوتے۔
جب بھیڑ کافی ہو جاتی تو مداری زمین پہ اک بڑے دائرے نما حصار کھینچتا اور لوگ اس دائرے کے باہر ترتیب وار بیٹھ جاتے اور باقی کھڑے ہو جاتے۔
مداری اس دائرے کے اندر تماشا شروع کر دیتا اور اگر جادو گر ہوتا تو اپنے کرتب دکھاتا۔ اپنے منھ سے بڑے بڑے پتھر نکالتا، مٹی سے روپے بناتا، رومال سے کبوتر بنا کر ا±ڑاتا اور لوگ تالیا ںبجا بجا کر داد دیتے، پیسے نچھاور کرتے۔ ان پیسوں سے وہ اپنا گزر بسر کرتے۔ اس قسم کے تماشوں سے لوگ محظوظ ہوتے اور کئی دنوں تک یاد رکھتے۔
کہتے ہیں کہ ہمارے گلی محلوں کے علاوہ تماشہ لگانے والے مداریوں کا ذکر قدیم رومی اور یونانی تواریخ میں بھی ملتا ہے۔
خیر جب یہ کرتب لوگ بارہا دیکھ چکے تو مداریوں اور جادو گروں کو فکر لاحق ہوئی کہ روزگار بند ہونے سے پہلے کوئی تدبیر کی جائے۔ اس ’تدبیر‘کا نتیجہ یہ نکلا کہ مداری اور جادو گر کے ساتھ بندر بھی آ ملا۔ اب ڈگڈگی بجتی ، لوگ جمع ہوتے تو تماشے اور کرتب کے ساتھ ساتھ بندر بھی اپنے جوہر دکھاتا، سینہ تان کے چلتا، سلام کرتا، سائیکل چلاتا، الٹی قلا بازی کھانا، سجدہ کرتا اور اپنی ٹوپی اتار کے اس میں لوگوں سے داد وصول کرتا۔ لوگ بندر کے کرتب دیکھ کر دنگ رہ جاتے، محظوظ ہوتے اور جی کھول کے پیسوں کی صورت میں داد دیتے۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلا اور مداریوں کا گزربسر ہوتا رہا۔
\"574_001\"جب مدرایوں اور جادو گروں نے محسوس کیا کہ اب آمدن پھر سے کم ہونے لگی ہے تو یہ ”تدبیر“ نکالی کہ اس دائرے میں اک بکری بھی شامل ہو گئی جو ا یک عمودی چھڑی پہ اپنے چاروں پاﺅں جما کر کھڑی ہو جاتی۔ شروع شروع میں تو لوگ بکری کا کرتب دیکھ کر ہکابکا ہوگئے اور کچھ تو اپنے گھر میں بندھی ہوئی بکریوں کر برا بھلا کہتے۔ بعض اوقات تو یہ بکری اک تنی ہوئی رسی پر بھی چلتی ہوئی نظر آتی۔ تالیاں بجتیں، لوگ نہال ہوتے، خوب بڑھ چڑھ کے داد دیتے اور پیسے لٹاتے۔
جب یہ کمائی کا حربہ بھی مانند پڑنے لگا تو اک مشہور کردار ’بچہ جمورا‘ پیش ہوا جو بہت پسند کیا گیا۔ ڈگڈگی بجتی، بچہ جمورا اور استاد کے مکالمے شروع ہوجاتے۔ بچہ جمورا آنکھوں پہ پٹی باندھے یا چادر کے نیچے لیٹے مداری کی ہر پکار پہ جی استاد، جی استاد کہتا اور جب استاد حکم دیتا کہ بچہ جمورا گھوم جا تو بچہ جمہورا ساری دنیا کے گرد چکر لگا کر گھوم جانے کی تصدیق کرتا، ہر پوچھی ہوئی چیز بتاتا اور بعض دفعہ استاد اسے سزا بھی دیتا۔ یہ کردار بہت کامیاب رہا، تاریخ کا حوالہ بنا، قصے، کہانیوں اور کتابوں میں شامل ہوا اور اس سے روزگار بھی بہتر ہوا۔ لیکن کب تک! دن، سال اور صدیاں بدلتی رہیں، مداریوں اور جادوگروں کو مجمع پہ اپنی گرفت ڈھیلی محسوس ہونے لگی، پیسے اینٹھنے والا دائرہ باہر سے خالی ہونے لگا تو پھر سے غوروفکر کیا گیا۔
\"images\"مجمے کو قابو کرنے اور اپنا روزگار چلانے کے لئے ان مداریوں اور جادوگروں نے ہر قسم کے جتن کئے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اک نو عمر لڑکی کو دائرے میں شامل کر لیا جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ اب مجمع بڑھتا ہی چلا گیا۔ تالیوں کے ساتھ ساتھ سیٹیاں بھی بجنا شروع ہو گئیں۔شروع شروع میں لڑکی کوئی چھوٹے موٹے کرتب دیکھاتی، قلابازیاں لگاتی اور داد سمیٹتی۔ بہت سی جگہوں پہ یہ لڑکی مکمل جمناسٹک کے کمالات دکھاتی، لوگ پھرتیلے جسم کی پرفارمنس پہ تالیاں پیٹتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔
آہستہ آہستہ تماشہ اور کرتب کم ہونے لگے، جسم کی نمائش بڑھتی گئی۔ اک لڑکی سے دو ہوئیں اور پھر چل سو چل۔
دنوں کے ساتھ ٹیکنالوجی بھی بدلتی گئی، چیزیں سکڑتی گئیں، پھر ٹی وی، ریڈیو اور بلب دنیا سے غائب ہوئے اور ان کی جگہ ایل ای ڈی ٹی وی ، اینڈرائیڈ موبائل اور ایل ای ڈی بلب نے لے لی۔
اسی طرح یہ مداری، جادوگر اور ڈگڈگی جو ہمارے کلچر کااک معصوم حصہ تھے جس سے لوگ محظوظ ہوتے تھے۔ آخرکار دم توڑ گیا۔ اب ڈگڈگی کی آواز سننے کو بھلے آپ کے اور میرے کان ترسیں لیکن اب یہ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اب اگر مداری اور جادوگر کہیں ہیں بھی تو انہیں کوئی قبول کرنے والا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments