وقت سے پہلے


خودرو جھاڑیوں اور بے ہنگم گھاس سے اٹا وہ میدان اس وقت خالی پڑا تھا۔ دور تک ہلکی دھند کا پھیلاؤ نظر کو دھندلارہا تھا۔ دن کے وقت یہ میدان جعلی فقیروں، زائچہ بنانے اور طوطا فال نکالنے والے پروفیسروں، سانڈھے کے تیل سے جسمانی ناتوانی کا مجرب علاج کرنے والے حکیموں سے بھرا رہتا۔ اس نیم دھندلے اندھیرے میں ان کی صدائیں ابھی بھی کانوں پہ دستک دیتی محسوس ہو رہی تھیں۔ دور میدان کے سرے پہ پلیٹ فارم کی بھوت بنگلہ نما عمارت کا ہیولا اب تھوڑا تھوڑا دکھنے لگا۔

دن میں یہاں خوب گہماں گہمی ہوتی۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ ایک میلہ سا جما رہتا۔ اب یہ جگہ اتنی خالی اور سنسان تھی کے وہاں سے گزرتے ہوئے انجانا سا خوف دل کو گھیر رہا تھا۔ یوں لگتا تھا سر شام کوئی جادوگر سحر پھونکتا ہے اور اس میدان کی چلتی پھرتی زندگی ایک دم غائب ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا کسی دن ایک فرشتہ صور پھونکے گا اور اس دنیا کا یہ میدان بھی یکدم خالی ہو جائے گا۔

ریلوے سٹیشن کے بھوت بنگلے میں جو اسٹیشن ماسٹر کا کمرہ تھا اس کی کھڑکی اس میدان میں کھلتی تھی۔ کھڑکی سے پیلے بلب کی ناتواں روشنی باہر آ کر دھند میں ٹھٹھر رہی تھی۔ اب اسٹیشن کی کولونیل دور کی عمارت واضح نظر آنے لگی تھی۔ میدان سے تھوڑی سی چڑہائی چڑھ کر سیڑھیاں آگئیں۔ سیڑھیوں پر قدم دھرتے میں اس کہنہ سال برآمدے میں داخل ہو گیا۔ بوڑھا چوکیدار بنچ پہ بیٹھا بیٹھا اونگھ رہا تھا اس کی گردن سینے پہ ڈھلک آئی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے خراٹوں کی آواز پلیٹ فارم پر گونجتی اور اس دبیز سناٹے میں دراڑ پڑ جاتی۔ بنچ سے کچھ دور ایک مریل سا کتا اگلے پاؤں پہ تھوتھنی جمائے آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ جب بوڑھے چوکیدار کے خراٹے بلند ہوتے تو کتے کی نیند میں خلل پڑ جاتا وہ ناگواری سے آنکھیں کھولتا منہ اٹھا کر چوکیدار کو گھورتا، جیسے ہی بوڑھے کے خراٹے تھمتے کتا بھی پھر سےسلیپنگ موڈ میں چلا جاتا۔

ٹرین آنے میں آدھا گھنٹہ تھا۔ ٹکٹ کاؤنٹر کی کھڑکی ابھی بند تھی۔ کاونٹر کی کھڑکی کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے نوجوان کلرک نے سگریٹ سلگا رکھی تھی۔ سگریٹ کا دھواں مرغولے بناتا کھڑکی سے باہر آ رہا تھا۔ میں بوڑھے چوکیدار کے پاس بنچ پہ بیٹھ گیا۔ گھڑی دیکھی ابھی ٹرین آنے میں آدھا گھنٹہ تھا دل ہی دل میں شکر کیا کہ وقت سے پہلے پہنچ گیا ہوں۔ پتہ نہیں انتظار کے لمحے اتنے طویل کیوں ہوتے ہیں۔ گھڑی کو دو چار بار دیکھ کے میں نے سر بنچ کی پشت سے ٹکا دیا۔ اس سوئے سوئے ماحول میں میں نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھ کھلی تو پلیٹ فارم پہ صبح کی دودھیا روشنی پھیل گئی تھی۔ گھڑی کو دیکھا ٹرین گزرے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے۔ چوکیدار غائب تھا، کتا بدستور اونگھ رہا تھا، ٹکٹ کاؤنٹر کی کھڑکی بند تھی اور پیچھے روشنی بھی بجھ گئی تھی۔ بوجھل نظروں سے میں نے یہ منظردیکھا۔ آنکھیں پھر سے خود بخود پلکوں کے بوجھ تلے بند ہوتی چلی گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).