مہلک امراض کی تشخیص غلط بھی ہو سکتی ہے


میں ایم بی بی ایس کے سال دوم میں تھا۔ مزدوروں کے ایک جلوس میں مجھے گرفتار کرنے سے پہلے پولیس کے درجن بھر سپاہیوں اور ایک سب انسپکٹر نے لاٹھیوں، ڈنڈوں، تھپڑوں، مکوں اور لاتوں سے حرم گیٹ ملتان کے باہر میری پندرہ بیس منٹ تک خوب دل لگا کر دھنائی کی تھی۔ پھر حوالات اور اگلے روز ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا تھا۔ اس دوران میں نے بہت ہمت کا مظاہرہ کیا تھا۔ مگر ضمانت پر جیل سے رہائی کے دوران مجھے دن میں کئی بار ایسا لگتا تھا کہ میں مرنے کو ہوں۔ دل دھڑک دھڑک کر حلق میں آ اٹکتا تھا۔ سانس رک سی جاتی تھی۔ تنفس تیز ہو جاتا تھا اور موت سامنے دکھائی دیتی تھی۔

ایک روز اس حالت میں گرفتار میں موت کے ڈر سے رو رہا تھا کہ کالج یونین کا جنرل سیکرٹری میاں احسان باری کمرے میں داخل ہوا تھا۔ اس نے پوچھا تھا کہ کیا ہوا۔ میں اس پر چڑھ دوڑا تھا کہ میں مر رہا ہوں اور کوئی میری پرواہ نہیں کرتا۔ وہ مجھے فوری اپنے سکوٹر پر بٹھا کر پروفیسر حیات ظفر کی کوٹھی پر لے گیا تھا۔ تب پروفیسروں کی فیس معائنہ بتیس روپے ہوا کرتی تھی جسے ہم طالبعلم ”بتیسیاں“ کہا کرتے تھے۔ میں مفت مریض تھا اور پروفیسر مرحوم بتیسیاں کمانے میں مصروف تھے۔ خاصا وقت گزر گیا تھا۔ میں نے غصے میں شور کرنا شروع کیا تو پروفیسر صاحب نے بلا لیا، ڈانٹا اور کاؤچ پر لٹا کر بے دلی کے ساتھ سٹیتھوسکوپ میرے سینے پر رکھنے کی بجائے دو چار بار مار کر مجھے “ Biventricular hypertrophy” میں مبتلا قرار دے کر مجھے Digitalis پر ڈال دیا تھا۔

میں چونکہ نان کلینیکل حصے کا طالبعلم تھا، میرے پاس میڈیسن کی کتاب بھی نہیں تھی۔ میں نے کسی سینیر سے کتاب لے کر اس بارے میں پڑھا تو مرنے سے پہلے جان نکل گئی۔ لکھا تھا کہ قلب کے دونوں بڑے جوف کا گوشت بڑھ چکا ہے جو اس کے دھڑکنے میں مخل ہے۔ ایسے مریض اگر علاج نہ کرائیں تو چند سال سے زیادہ نہیں جی سکتے۔ چنانچہ ڈیجیٹیلس کھانا شروع کر دی۔ یہ پہلے زمانے میں دل کے امراض میں بہترین دوا شمار ہوتی تھی لیکن اگر مرض نہ ہونے کی صورت میں استعمال کی جائے تو زہر ثابت ہوتی ہے۔ چند روز بعد میری آنکھوں کے آگے ترمرے ناچنے لگے تھے جو اس زہرخورانی کی اولیں علامت تھے۔ میں تب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نور صاحب کے پاس گیا تھا۔ انہوں نے معائنہ کرنے کے بعد یہ دوا روک دی تھی اور ویٹامن لکھ دیے تھے۔

میری علامات برقرار رہی تھیں۔ اتفاق سے میرے ایک رشتے دار ڈاکٹر مرزا مقبول صاحب امریکہ سے آئے ہوئے تھے جو کارڈیالوجسٹ ہیں۔ میں نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کچھ نہیں ”کارڈیو نیورووسس“ ہے یعنی دل کے مرض کا وہم ہے۔ مجھے تسلی نہ ہوئی تو میں نے میو ہسپتال کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر زبیر کو دکھایا جنہوں نے ٹیسٹ اور تفصیلی معائنے کے بعد کہا، “ تینوں کجھ نئیں۔ اینج ای گھبرایا ایں“۔ مریض کو ایسی باتوں سے کیا تسلی ہوتی ہے۔ میں نے سوچا مرنا تو ہے ہی، سیر ویر کیوں نہ کر لوں۔ طالبعلم کی حیثیت سے میرے بینک اکاؤنٹ میں جتنے پیسے تھے، سب نکالے اور پہاڑی علاقوں کی سیر کو جا نکلا۔ دس پندرہ روز کے بعد تھک تھکا کے لوٹا تو سب ٹھیک تھا۔ یہ 1971 کی بات ہے۔ اصل میں پولیس کی مار اور جیل و مقدموں کی وجہ سے لاشعور میں خوف بیٹھ گیا تھا جس نے ایسی شکل اختیار کر لی تھی۔

2003 کی بات ہے۔ مجھے Arythmia یعنی کبھی کبھار حرکت قلب بے ترتیب ہونے کی شکایت تھی۔ ماسکو کے میرے متعلقہ پولی کلینک کی ذمہ دار ڈاکٹر نے مجھے تحقیقی مرکز بھجوا دیا جہاں سارے ہی ڈاکٹروں کو دکھایا جانا تھا۔ ان میں ایک یورالوجسٹ بھی تھے۔ انہوں نے میرے خون کے ٹیسٹ کروائے اور چند روز بعد کہا، ”سب برا ہے۔ بری خبر ہے۔ تمہارے خون میں لوہے کی مقدار بہت زیادہ ہے“۔ کچھ تو معلوم تھا۔ اس کے بارے میں مزید پڑھا تو دہل کررہ گیا۔ اس مرض کو Haemochromatosis کہتے ہیں۔ اس میں مبتلا شخص بھی دو تین سال جی پاتا ہے۔ علاج کے لیے ہر ہفتے بازو میں فسد کھلوا کے آدھا لٹر خون بہا دینا پڑتا ہے۔

ماہ رمضان شروع ہو گیا۔ روزے رکھے۔ ایک ماہ بعد پھر اس ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ پھر سے ٹیسٹ کروائیں۔ پانچ روز بعد جا کر پوچھا تو بولے، “اب سب ٹھیک ہے“۔ میں نے کہا یا تو اس ٹیسٹ کا نتیجہ غلط ہے یا وہ غلط تھا۔ کہنے لگے، “ شاید تم نے پی نہ ہو“۔ میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی تو بولے شاید تم نے دعائیں مانگی ہوں۔ میں نے دعائیں بھی نہیں کی تھیں۔ آج اس بات کو چودہ برس بیت چکے ہیں۔

2011 میں میرا فشار خون بہت زیادہ ہو گیا۔ رات کو ایمرجنسی والے آئے دوا دے کر چلے گئے۔ صبح کو بھی وہی حالت۔ پھر آئے اور مجھے لے جا کر ہسپتال چھوڑ دیا۔ علاج شروع کرنے سے پہلے عمومی مراحل سے گزرتے ہوئے ایکس رے لیا گیا۔ سب کو ایکسرے آدھ گھنٹے بعد دے رہے تھے۔ مجھے پھر بلا لیا اور ایک بار پھر ایکس رے لیا۔

جب متعلقہ ڈاکٹر دیکھنے آیا تو اس نے نے پوچھا آپ کا آخری ایکسرے کب ہوا تھا۔ ہمارے پاکستان میں چیک اپ کا رواج ہی نہیں تھا۔ میں نے بتایا کہ 1976 میں فوج میں شامل ہوتے ہوئے لیا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کے بائیں پھیپھڑے میں داغ ہے۔ آپ سگریٹ پیتے ہیں؟ پیتا تھا، 2008 سے ترک کر چکا ہوں، میں نے بتایا۔ مجھے داخل کر لیا گیا۔ میں نے Bronchoscopy کروانے سے انکار کر دیا۔ فشار خون نارمل ہونے پر مجھے ڈسچارج کر دیا گیا۔ پہلے ٹی بی سنٹر بھیجا گیا۔ ٹیسٹ نیگیٹیو نکلے۔ پھر پھیپھڑوں کے کئی طرح کے ایکسرے لیے گئے اور مجھے کمیشن کے پاس بھیجا گیا۔ کمیشن نے سی ٹی سکین کروانے کو کہا۔ اس میں ایکس رے کی بہت ہیوی ڈوز دی جاتی ہے۔ بعض اوقات اس سے بھی کینسر ہو سکتا ہے۔ میں نے اس پر بھی توجہ نہ دی کیونکہ میں خود اس داغ سے متعلق بہت ریسرچ کر چکا تھا اور کمیشن میں موجود صرف ایک ڈاکٹر میری بات سے کسی حد تک متفق تھی، باقی سب مجھے ڈاکٹر نہیں بلکہ مریض سمجھتے تھے۔

میرے پولی کلینک نے مجھے علاقائی کینسر سنٹر سے رجوع کرنے کو کہا۔ میں وہ آٹھ دس ایکس رے لے کر وہاں گیا تو متعلقہ ڈاکٹر نے مجھے کینسر ہسپتال ریفر کر دیا۔ میں نے اس سے کہا ایکس رے تو دیکھ لو۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ ضرررساں رسولی یعنی خدانخواستہ پھیپھڑے کے کینسر کی ابتدا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ میں مسکرا دیا۔ وہ بولا عجیب شخص ہو ہنس رہے ہو۔ میں کچھ نہ بولا۔

اگلے روز کینسر ہسپتال گیا۔ وہاں نوجوان لڑکوں لڑکیوں کے چہروں پر مایوسی اور خوف کے جھلملاتے سائے دیکھ کر میں بھی لرز گیا۔ تاہم جس ڈاکٹر کے پاس پہنچا وہ بہت سمجھدار اور جوان ڈاکٹر تھا۔ اسے میں نے بتایا کہ میں خود بھی ڈاکٹر ہوں۔ اس نے ایکسرے دیکھ کر کہا کہ پھر آپ کو پتہ ہی ہوگا کہ یہ بے ضرر رسولی ہے۔ یا نکلوا دیں یا زیر نگرانی رہیں۔ میں نے دوسرا مشورہ قبول کیا۔ پہلے دو سال ہر چھ ماہ بعد اور پھر ہر سال ایکسرے کرواتا ہوں اور اللہ کے شکر سے ٹھیک ٹھاک ہوں۔ یہ چھوٹی سے رسولی Tuberculoma کہلاتی ہے کیونکہ میں نے 1983 تا 1986 کوٹ ادو نام کے قصبے میں تپ دق کے بہت مریض دیکھے تھے۔ جب تپ دق کے جراثیم آپ کے اندر داخل ہو جائیں تو جسم کا مدافعتی نظام ان کو بے اثر کرنے کی خاطر ان کے گرد کیلشیم کی ایک دیوار چن دیتا ہے۔ یہی ہوا تھا۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات تشخیص درست نہیں ہوتی اور درست تشخیص نہ ہونے کے سبب غیر درست علاج کیے جانے سے لامحالہ نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے اگر کسی مرض کی تشخیص ہو تو دوسرے معالج سے مشورہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ بھی دوبارہ بلکہ سہ بار مختلف لیبارٹریوں سے کروا لینے چاہییں۔
پیدائش، زندگی، مرض اور موت سب انسانوں کے لیے ہے چنانچہ خائف ہونے کی بجائے، ویسے تو خائف ہونا قدرتی ہے، کوشش کرنی چاہیے کہ ہمت سے کام لیں اور بہتری کی امید رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).