فرض شناس ڈاکو اور مستعد پولیس


کل شام نو بجے کراچی سے بھائی کی کال آئی کہ لاہور میں دوسرے بھائی کے گھر میں ڈاکو موجود ہیں۔ فوراً 15 پر کال کی۔ ایسے حالات میں پریشانی یہ ہوتی ہے کہ ڈاکو گھر والوں کو یرغمال نہ بنا لیں۔ پھر جان خطرے میں ڈالنے والی بات ہو جاتی ہے۔ بھائی کا گھر علامہ اقبال ٹاؤن میں ہے۔ ادھر کا سفر شروع کیا اور بیس منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔ پتہ چلا کہ فون کرنے کے پانچ منٹ کے اندر پولیس کی موبائل وہاں پہنچ گئی تھی اور ہمارے پہنچنے تک اچھی بھلی نفری موجود تھی۔

معلوم ہوا کہ ڈاکو گیٹ پھلانگ کر اندر پہنچے تھے۔ اندرونی دروازہ کھلا تھا۔ پانچ ڈاکو گھر کے اندر داخل ہوئے۔ گھر میں آٹھ دس بڑے بچے موجود تھے جن کو ایک کمرے میں جمع کر دیا۔ پھر بہت تیزی سے تلاشی لینا شروع کی۔ ماننا پڑے گا کہ نہایت مہذب ڈاکو تھے۔ ایک نے تو تسلی بھی دی کہ ”دیکھیں ہمیں برا مت سمجھیں، ہم تو بس اپنا فرض ادا کر رہے ہیں“۔

ڈاکوؤں نے الیکٹرانک اشیا پر نظر تک نہ ڈالی۔ سب کے موبائل لے تو لئے مگر انہیں ایک جگہ ڈال دیا۔ ہاں ایک برخوردار کے فون کا ماڈل شاید ڈاکو بھی استعمال کر رہا تھا۔ اس کی بیٹری اور ڈیٹا کارڈ نکال کر ڈاکو نے اپنی جیب میں ڈالا اور فون واپس کر دیا۔ کیمرے، موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ سب محفوظ رہے۔ ڈاکوؤں کو صرف پیسوں اور زیورات سے میں دلچسپی تھی۔ آدھے چہرے پر نقاب پہنے ہوئے ڈاکوؤں کے ہاتھوں پر دستانے بھی تھے۔ ایک بچی حاضر دماغی سے کام لے کر اپنے موبائل پر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے آنکھ بچا کر پہلے نمبر پر ہی میسیج کر دیا جو کراچی سے ہوتا ہوا واپس لاہور میں ہم تک پہنچا۔ اس وقت تک ڈاکو گھر سے جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔

ڈاکوؤں کے گھر سے جانے کے تین چار منٹ کے اندر ہی پولیس پہنچ گئی۔ پہلے تو ایس ایچ او صاحب خود آئے۔ پھر ایس پی آپریشن پہنچ گئے۔ ان کے جانے کے بعد سی آئی ڈی والے آئے۔ آخر میں علاقے کے ڈی ایس پی بھی پہنچے۔ معلوم ہوا کہ اس سے آدھا پونا گھنٹہ پہلے ڈاکو تین چار کلومیٹر دور ایک اور واردات بھی کر چکے تھے۔ پولیس اہلکاروں کا رویہ نہایت ہی اچھا تھا۔ وہ بہت خوش اخلاقی سے بات کرتے رہے اور نہایت متحمل انداز میں ڈاکوؤں کے بارے میں جاننے میں کوشاں رہے۔ رات کے بارہ بجے تک سینئیر پولیس افسران کی موقع واردات پر موجودگی اور ذاتی دلچسپی متاثر کن تھی۔

پولیس اہلکاروں کی کارروائی ہمارے لئے حیرت کا باعث تھی۔ سب سے پہلے تو انہوں نے اپنے موبائل پر مشتبہ اشخاص کی تصاویر دکھائیں۔ ان میں سے ایک دو کی آدھی شناخت ہو گئی کیونکہ وہ آدھے چہرے پر نقاب پہن کر واردات کرنے آئے تھے۔ اس کے کچھ دیر بعد ایک یونٹ تھانے سے ایک لیپ ٹاپ لے کر آیا۔ اس میں ہسٹری شیٹرز کی تصاویر شناخت کے لئے دکھائی گئیں۔ دو تین افراد شناخت ہو گئے۔ اس کے بعد فنگر پرنٹ اٹھانے کے لئے ٹیم آ گئی۔

چار پانچ برس پہلے ہمارے ایک عزیز کے گھر ایسی ہی ایک واردات ہوئی تھی تو ہم نے پولیس کی ٹیم سے فنگر پرنٹ کے بارے میں پوچھا تھا۔ پوری ٹیم ہی ہنس پڑی تھی کہ فنگر پرنٹ کیا ہوتے ہیں اور کون اٹھاتا ہے۔ اس تناظر میں فنگر پرنٹ کا یونٹ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ لگتا یہ ہے کہ یہ یونٹ کافی عرصے سے کام کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکو نہ صرف دستانے پہنے ہوئے تھے بلکہ جن ایک دو چیزوں کو انہوں نے ننگے ہاتھوں سے چھوا تھا، ان کو کپڑے سے صاف کر کے گئے تھے۔

پولیس والے بہرحال مطمئن تھے کہ ان کو مشتبہ افراد کی تصویری شناخت مل گئی ہے اور اس کی بنیاد پر وہ ان کو پکڑ سکتے ہیں۔ پولیس کو ٹیکنالوجی کا یہ اچھا استعمال کرتے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ دو برس پہلے موبائل چھننے کی واردات پر مشتبہ افراد کی تصویریں دیکھنے ہمیں قلعہ گوجر سنگھ جانا پڑا تھا۔ اب پولیس کی تفتیشی ٹیم فوراً جائے واردات پر ہی لیپ ٹاپ پر شناخت کی کوشش شروع کر دیتی ہے۔

اس دوران گھر کے باہر سے گزرتے شہری پولیس اہلکاروں پر لعن طعن کرتے رہے کہ ان کی وجہ سے شہری محفوظ نہیں ہیں۔ پولیس اہلکار ایسے ظاہر کرتے رہے جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ہے۔ شہریوں اور پولیس میں تعلقات بہتر کرنے کے لئے وردی تبدیل کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔ پولیس کا عملہ تقریباً تین گھنٹے تک وہاں موجود رہا اور سراغ اکٹھے کرتا رہا۔ پولیس اہلکاروں کی تھکن دیکھتے ہوئے ہم نے ان کے لئے چائے بنوا لی۔ اہلکاروں نے پینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس معاملے میں پولیس پہلے بہت زیادہ بدنام تھی کہ کسی گھر میں واردات ہو جائے تو اس کے بعد پولیس چوروں یا ڈاکوؤں سے زیادہ تنگ کرتی ہے اور کھانے پینے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ وہ چائے کا ایک کپ پینے سے بھی انکاری تھے۔ ان کو کافی زیادہ اصرار کر کے چائے پینے پر تیار کیا۔

پولیس فورس میں یہ تبدیلیاں نہایت خوشگوار ہیں اور افسران کی اس معاملے میں بہت زیادہ محنت دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ڈاکو اگر پکڑے بھی گئے تو کیا ان سے لوٹا ہوا مال برآمد ہو گا؟ برآمد ہو بھی گیا تو کیا ان کو سزا ہو پائے گی؟ یا طویل مقدمہ چلے گا، درمیان میں وہ ضمانت پر رہا ہو جائیں گے اور مزید وارداتیں کریں گے۔ اسی اثنا میں مقدمے کی طوالت کے باعث گواہ اور متاثرہ افراد دلچسپی کھو بیٹھیں گے اور آخر کار عدالت انہیں بری کر دے گی۔ پولیس میں تبدیلی کے آثار تو اچھی خبر ہے، مگر کیا نظام انصاف کے دوسرے اہم پہلو یعنی عدالتی نظام میں بھی کوئی بہتری لائی جا رہی ہے؟

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar