جزیرہ


                                                     

چند سال پیشتر مجھے نیلسن کینیڈا سے ایک خط موصول ہوا جس میں درج تھا کہ وہ کینیڈا کے ہائی سکولوں کے لیے عالمی ادب کی ایک اینتھولوجی مرتب کر رہے ہیں جس کا نام GLOBAL SAFARI ہے۔ اس اینتھالوجی میں انہوں نے روس سے اینٹون چیخوف‘جرمنی سے ہنرک بول اور جنوبی افریقہ سے نادین گورڈیمر کی کہانیاں چنی تھیں۔ اسی اینتھولوجی میں انہوں نے میری کہانی ’ISLAND‘ کا انتخاب کیا تھا۔ اس اینتھولوجی میں شمولیت میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔ اس کہانی کا اردو ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔

                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟

ہاں۔

آخری دفعہ ان سے کب ملے تھے؟

دس سال پہلے۔

کیا تمہارے بہن بھائی ہیں؟

جی ہاں۔

ان سے آخری بار کب ملے تھے؟

سات برس پیشتر۔

کہاں ملے تھے؟

راستے میں ملاقات ہو گئی تھی۔

کیا تمہارے دوست ہیں؟

کوئی نہیں۔

کیا تمہارا گھر ہے؟

نہیں۔

کہاں سوتے ہو؟

جہاں رات ہو جائے۔

تمہاری آمدنی کا کیا ذریعہ ہے؟

کوئی نہیں۔

تو تم زندہ کیسے ہو؟

بس زندہ ہوں۔

تم کب سے اس طرح زندگی گزار رہے ہو؟

بارہ برس سے۔

تم زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہو؟

کچھ بھی نہیں۔

تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

پتہ نہیں۔

کیا تمہارے لیے ویلفیر کا انتظام کریں؟

اس کی کوئی ضرورت نہیں۔

رہائش کا انتظام؟

اس کی بھی حاجت نہیں۔

تمہیں کھانے پینے کے لیے کچھ رقم کی ضرورت ہے؟

نہیں۔

کیا ہم کسی طریقے سے تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟

نہیں بہت بہت شکریہ۔

میری سوشل ورکر کے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے۔

اس شخص کو مقامی پولیس لے آئی تھی تا کہ اسے ہسپتال میں داخل کر لیا جائے کیونکہ وہ بہت کمزور و ناتواں تھا۔ گلیوں بازاروں میں سوتا تھا اور بھوکا پیاسا رہتا تھا۔ چونکہ سردی کا موسم آ رہا تھا اس لیے پولیس پریشان تھی کہ کہیں وہ سردی سے اکڑ کر مر نہ جائے۔

’ڈاکٹر صاحب اسے نفسیاتی ہسپتال میں داخل کر لیں تا کہ اس کی صحت بہتر ہو سکے،  پولیس افسر نے مشورہ دیا۔ میں نے مریض سے پوچھا

’کیا تم ہسپتال میں داخل ہونا چاہتے ہو؟

نہیں میں ذہنی طور پر بیمار نہیں ہوں۔

میں ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی بے بسی کے دریا میں ڈوب گیا کیونکہ میں مریض کو اس کی مرضی کے بغیر داخل نہ کر سکتا تھا۔

میری سوشل ورکر نے اس کے والدین کو اطلاع دی اور وہ اسے گھر لے گئے۔

دو دن بعد پولیس اسے دوبارہ لے آئی۔

مسئلہ پھر وہی تھا۔

اس دفعہ سوشل ورکر نے اسے اس کی بہن کے گھر بھیج دیا۔

یہ حل بھی ایک ہفتے سے زیادہ کام نہ آ سکا۔

پولیس کا اصرار تھا کہ اسے پاگل خانے میں داخل کیا جائے اور مریض مصر تھا کہ وہ ذہنی مریض نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے ایک آزاد زندگی گزار رہا ہے۔

اس دفعہ سوشل ورکر نے اسے ایک بورڈنگ ہوم میں بھیج دیا۔ پولیس نے اسے تنبیہ کی کہ اگلی دفعہ اگر وہ شہر کی گلیوں میں سوتا ہوا پایا گیا تو اسے جیل میں بند کر دیا جائے گا۔ پولیس افسر کی بات سن کر وہ بے اعتنائی سے مسکرا دیا۔

٭٭٭٭٭   ٭٭٭٭٭

ایک باپ بیٹا صبح کی سیر کرنے شہر کے باہر گئے تو بچے کو تالاب میں کچھ تیرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے اپنے باپ کو بتایا تو باپ کو اندازہ ہوا کہ وہ لاش تھی۔ اس نے ایمبولنس کو فون کیا جو اسے ہسپتال لے آئی۔ میں لاش کو دیکھ رہا تھا اور پاس ہی وہ بچہ کبھی مجھے اور کبھی باپ کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرانی کے دیے ٹمٹما رہے تھے۔ پھر اس بچے نے کہا

ابو

جی بیٹا

ابو میرے ٹیچر نے ہمیں بتایا تھا کہ جس چیز کے چاروں طرف پانی ہو اور اس کا زمین سے تعلق نہ ہو تو وہ جزیرہ ہوتا ہے

ہاں بیٹا۔

ابو تو کیا یہ آدمی ایک جزیرہ تھا؟

اس بچے کا باپ چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے بچے کو آغوش میں اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail