مجھے اچھا لگتا ہے شوہر سے ایک قدم پیچھے چلنا۔ کیوں؟(مکمل کالم)۔


آج میرا ارادہ عورت مارچ کے خلاف لکھنے کا ہے اور اس ضمن میں مجھے اپنے پیٹی بند بھائیوں اور ان بہنوں کی مدد درکار ہے جو عورت مارچ کو مغرب زدہ این جی اوز کا یجنڈا، صیہونی سازش، غیر ملکی امداد اکٹھا کرنے کی مہم اور ہماری اخلاقی اور مذہبی اقدار پر حملہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ میری اس بات طنز سمجھ رہے ہیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ میں گزشتہ دو دن سے پوری نیک نیتی کے ساتھ عورت مارچ کے خلاف دلائل اکٹھے کر رہا ہوں۔

اس حوالے سے ٹویٹر پر عورت مارچ کے خلاف جو ’رجحانات‘ (trends) بنائے گئے ، ان سے مجھے خاصی مدد ملی، سو اب تک جو دلائل میں اکٹھے کر پایا ہوں، ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

عورت مارچ والا لبرل طبقہ ہماری اخلاقی اور مذہبی اقدار پر حملہ کر کے ملک میں فحاشی اور عریانی کو فروغ دینا چاہتا ہے، انہیں اس کام کے لیے مغرب سے فنڈنگ ہوتی ہے، یہ فیمینزم کی ماری عورتیں برابری نہیں مادر پدر آزادی چاہتی ہیں، عورت مارچ میں بیہودہ نعرے لگائے جاتے ہیں جو ہماری روایات او ر اخلاقیات کے سراسر منافی ہیں، عورت کو اصل تحفظ مضبوط خاندان میں ملتا ہے جبکہ یہ موم بتی مافیا والی خواتین شخصی آزادی میں یقین رکھتی ہیں، یہ چاہتی ہیں کہ کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ ہو اور یہ اپنی مرضی سے جہاں جی چاہے آئیں جائیں اور ان کاباپ، بھائی، شوہر کچھ نہ پوچھے۔

دنیا کا کوئی سماج یا ریاست ایسی نہیں جو کسی نظم کے تابع نہ ہو لہٰذا عورت مارچ کا ’میرا جسم میری مرضی‘ والا نعرہ نہ صرف اخلاق باختہ بلکہ غیر منطقی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سوشل میڈیا کھاتوں پر یہ قول بھی پڑھنے کو ملا کہ ’میں عورت ہوں اور مجھے اچھا لگتا ہے اپنے شوہر سے ایک قدم پیچھے چلنا، اس سے مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔‘ ایٹسیٹرا، ایٹسیٹرا۔

خدا کو جان دینی ہے، یقین کریں کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود میں خود کو ان دلائل سے قائل نہیں کر پایا۔ سب سے پہلے تو کسی بھی تحریک کے بارے میں جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس کا منشور اور مطالبات کی فہرست پڑھیں۔ مثلاً اگر ہمیں کمیونزم کے بارے میں جاننا ہو تو کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کا بنایا ہوا کمیونسٹ منشور پڑھیں گے نہ کہ امریکیوں کے گھڑے ہوئے لطیفے پڑھ کر کمیونزم کے خلاف رائے بنائیں گے۔ عورت مارچ کا منشور میں نے پڑھا ہے، جو مطالبات اس میں درج ہیں ان میں سے کوئی بھی مطالبہ ہماری سماجی، اخلاقی یا مذہبی اقدار کے خلاف ہے اور نہ ایسا ہے جسے فحاشی یا عریانی کی حمایت میں استعمال کیا جا سکے۔ کہیں یہ نہیں لکھا کہ عورتوں کو ایسی آزادی چاہیے جو کسی نظم اور قانون کے تابع نہ ہو اور نہ ہی ان کا منشور ہمارے خاندانی نظام کے خلاف کوئی چارج شیٹ ہے۔

اس منشور میں معاشی اور سماجی انصاف مانگا گیا ہے، ہر قسم کے تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور خواتین، اقلیتوں اور سماج کے پسے ہوئے طبقات کے لیے حقوق مانگے گئے ہیں۔ جو شخص اسے غیر ملکی ایجنڈا کہتا ہے وہ مجھے سمجھا دے کہ پھر پاکستانی ایجنڈا کیا ہو گا؟ ویسے یہ غیر ملکی فنڈنگ والی بات بھی خوب ہے، یوں تو اس مبینہ فنڈنگ کا ثبوت دینے کی زحمت کوئی نہیں کر رہا لیکن اگر کسی کو قانونی طریقے سے غیر ملکی امداد ملتی بھی ہو تو اس میں کیا حرج ہے؟ پورا ملک ہی آئی ایم ایف، عالمی بنک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بنک اور بین الاقوامی این جی اوز امدادسے چل رہا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست پاکستان غیر ملکی ایجنڈا پر عمل پیرا ہے؟

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے مقابلے میں مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی واک کا اہتمام کیا۔ اس واک میں خواتین نے جو نعرے لکھ رکھے تھے وہ کچھ یوں تھے :میرا گھر میری جنت، نیک بیوی بہترین متاع، مضبوط خاندان میرا سائبان، تعلیم اور صحت میرا حق۔ یہ تمام باتیں درست ہیں۔ تعلیم اور صحت کا حق کس کو نہیں چاہیے، بے شک نیک بیوی نعمت ہے اور مضبوط خاندان بھی ضروری ہے۔ مدعا صرف اتنا ہے کہ نیک بیوی کو اگر خبیث شوہر مل جائے تو وہ کیا کرے؟

مضبوط خاندان سائبان ضرور ہوتا ہے مگر کیا مضبوط عورت ہونا زیادہ بہتر نہیں جسے کسی سائبان کی ضرورت ہی نہ پڑے؟ عورت کا گھر بے شک اس کی جنت ہے مگر ایسا گھر جہاں وہ مالک و مختار ہو نہ کہ مجبور جسے مرد جب چاہے نکال باہر کرے۔ عورت کی مرضی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے ایک قدم پیچھے چلے، برابر چلے یا آگے چلے، لیکن اگر وہ یہ سوچ کر ایک قدم پیچھے چلتی ہے کہ اس سے تحفظ کا احساس ہوتا ہے تو میرا سوال ہو گا کہ وہ خود کو کس سے محفوظ کرنا چاہتی ہے؟ یقیناً غیر مردوں سے۔ تو پھر ایسا معاشرہ کیوں نہ تخلیق کیا جائے جہاں کوئی مرد اسے بلا اجازت چھونے یا گھورنے کی ہمت ہی نہ کرے۔ اس معاشرے میں عورت کو اپنے مرد سے ایک قدم پیچھے چلنے کی یہ توجیہہ بیان نہیں کرنی پڑے گی اور وہ اس کے شانہ بہ شانہ چل سکے گی۔

ایک اعتراض قدرے معقول ہے کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ والا نعرہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ خواتین ہر قسم کے نظم، قانون اور سماج کے ضابطوں سے آزادی چاہتی ہیں جو دنیا میں کہیں ممکن نہیں۔ بظاہر اس دلیل میں وزن ہے مگر اصل میں یہ بات یہاں فرض کر لی گئی ہے کہ یہ عورتیں ہر قسم کے قانون اور اخلاقی ضابطوں سے ماورا ہونا چاہتی ہیں۔ ایسی بات نہیں۔ جدید دنیا کی کوئی بھی ریاست قانون کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ان خواتین کا یہ مطالبہ نہیں کہ ان پر کسی قسم کے قانون اور اخلاقی ضابطوں کا اطلاق نہ کیا جائے۔

یہ نعرہ دراصل اس ظلم کے خلاف بغاوت ہے جو عورتوں پر روا رکھے جاتے ہیں۔ اس نعرے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بطور عورت میں اپنے جسم کو جب چاہوں جیسے چاہوں بے لباس کر دوں۔ اصل میں ہم مردوں کی ذہنیت ہی ایسی ہے اس لیے ہم بے لباسی سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایک لمحے کے لیے کسی ایسے نوجوان لڑکے کا تصور کریں جو چوراہے میں ’میرا جسم میری مرضی‘ کا پلے کارڈ لے کر کھڑا ہو، کوئی اسے نہیں کہے گا کہ میاں تم کیوں یہ فحاشی پھیلا رہے ہو، اس لیے کہ ہمارے دماغ صرف عورت کے حوالے سے فحش ٹیون ہوئے ہیں، مردوں کو ہم انسان ہی سمجھتے ہیں۔ جس دن ہم نے عورتوں کو بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا ، اس دن اس نعرے پر اعتراض ختم ہو جائے گا۔

ایک دلیل یہ بھی دی گئی کہ ہمارا معاشرہ ابھی ایسے باغیانہ نعروں کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ برس تک میں بھی اس بات کا قائل تھا مگر اب میرا خیال ہے کہ معاشرے کو اسی طرح جھنجھوڑا جا سکتا ہے۔ اگر فرعون کے دور میں غلامی کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا جاتا تو غلامی کے خلاف نعرے لگا کر ہی کیا جاتا نہ کہ فرعون کی شان میں قصیدے پڑھ کر اس سے غلامی کی آزادی مانگی جاتی۔

اس مرتبہ عورت مارچ پرایک لطیفہ بھی ہوا۔ کسی ستم ظریف نے ’میرا جسم میری مرضی‘ والا نعرہ تبدیل کر کے یوں لکھا کہ ’میرا جسد عنصری، میرا اختیار کامل (اب ٹھیک ہے )‘ ۔ یہ نعرہ اگر پہلے سال ہی یوں لکھ دیا جاتا تو ننانوے فیصد پاکستانی مردوں کو سمجھ ہی نہیں آنا تھا، اس سے ہم مردوں کی قابلیت کا اندازہ لگا لیں۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عورت کو تحفظ چاہیے جو اسے مرد سے ملتا ہے اور مرد کو عقل چاہیے جو اسے عورت سے ملتی ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments