جاوید احمد غامدی: یاد یار مہرباں


گورنمنٹ کالج لاہور میں (1967) سال اول میں داخل ہوا تو میرا ایک مضمون فلسفہ تھا۔ پروفیسر شاہد حسین صاحب ہمارے اولین استاد تھے۔ کلاس میں دو لڑکے اکٹھے آتے تھے، جن کے قد درمیانے سے کچھ کم تھے۔ دونوں کالج میں زیادہ تر اکٹھے ہی دکھائی دیتے تھے۔ ایک کا نام نعیم درانی تھا جو بلا کا پھکڑ باز اور لطیفہ گو تھا۔ اس کے ایک ایک انداز سے مزاح ٹپک رہا ہوتا تھا۔ ہم اور بھی متاثر ہوئے جب چند ماہ بعد راوی میں اس کا ایک مزاحیہ مضمون شائع ہوا۔ میرے پاس آج تک لطائف کا جو ذخیرہ ہے وہ زیادہ تر اسی کا عطا کردہ ہے۔ تاہم نعیم درانی بھی ان لوگوں سے تھا جو ٹیلنٹ ہونے کے باوجود اس کو ترقی دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ ملال ہے کہ وہ بہت جلد یہ دنیا چھوڑ کر چلا گیا۔

دوسرے طالب علم کا نام شفیق احمد جاوید تھا جو کافی دبلا پتلا تھا مگر انداز سے بہت پڑھاکو اور دانشور دکھائی دیتا تھا۔ ہر وقت ہاتھ میں کوئی موٹی سی کتاب ہوتی تھی۔ اس زمانے میں فیروز سنز والے پاکستان ریویو کے نام سے ایک انگریزی ماہنامہ شائع کیا کرتے تھے۔ ہم پر بہت رعب پڑا جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی نگارشات اس میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں۔ اس طالب علم نے آئندہ چل کر جاوید احمد غامدی کے نام سے معروف و بدنام ہونا تھا۔

ایف اے کے زمانے میں نعیم درانی کے لطائف و ظرائف کی وجہ سے اس کے ساتھ کافی بے تکلفی ہو چکی تھی مگر جاوید صاحب کے ساتھ بس رسمی سی صاحب سلامت ہی تھی۔ یہ سنہ 1970 کی بات ہے۔ اس وقت ہم سال چہارم میں تھے۔ اکتوبر کا آخری ہفتہ تھا۔ دوپہر کے وقت جاوید صاحب نے مجھے کہا کہ آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ ہم اوول کے ٹیرس پر ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ خوشگوار دھوپ چمک رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ذہن میں اسلامی انقلاب کا ایک منصوبہ ہے۔ اس کو بروئے کار لانے کے لیے پہلے ایک درسگاہ قائم کی جائے گی جس میں داخلہ لینے والوں کو اسلامی اور مغربی علوم پر مشتمل ایک ضخیم نصاب پڑھایا جائے گا۔ اس طرح ایسے مردان کار تیار کئے جائیں گے جو جدید علم کے چیلنج کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی انقلاب لانے والوں کے سامنے مولانا مودودی صاحب کی شخصیت ہوتی تھی۔ جاوید صاحب کا خیال تھا کہ مولانا مودودی صاحب کے کامیاب نہ ہونے کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ علمی طور پر مضبوط لوگ تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ خیر اس وقت ان کے دلائل سے کوئی سروکار نہیں۔ اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے میرے دماغ میں بھی یہ کیڑا موجود تھا، اس لیے میں نے بلاتردد ان کا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی اور اس طرح میں ان کا پہلا رفیق سفر بنا۔

اس زمانے میں جاوید صاحب کا ”خیال “کے نام سے ایک پرچہ چھاپنے کا ارادہ تھا۔ اس پرچے میں علم، ادب اور فن تینوں کا امتزاج ہونا تھا۔ اس کا پہلا شمارہ چھاپنے کی وہ تیاری بھی کر چکے تھے۔ لنک میکلوڈ روڈ پر انہوں نے ایک دفتر کرائے پر لیا ہوا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے چند اور دوست بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ ہم شام کے وقت اس دفتر میں جمع ہوتے۔ جاوید صاحب نے ہمیں ابن عربی پر لیکچر دینے شروع کیے۔ اس کی کتاب شجرة الکونین پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ابن عربی کے دیوان ترجمان الاشواق کی کچھ نظموں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ ایک نظم کی آخری دولائنیں تو مجھے آج بھی یاد ہیں: باد شمال بھی جل دے ہی جاتی ہے۔ سنو تو کچھ ہے کہ میرے کان بجتے ہیں۔

کوئی ایک مہینہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ ملک میں عام انتخاب کی، جو سات دسمبر کو ہونا تھے، کمپین جاری تھی ۔ میرے ماموں جان قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ اس لیے میں نے چھٹی لی اور رحیم یار خاں چلا گیا۔ الیکشن کے بعد جب واپسی ہوئی تو جاوید صاحب وہ دفتر چھوڑ چکے تھے۔ ہم ان کے گھر سلطان پورہ میں اکٹھا ہونا شروع ہوئے۔ کچھ دیر بعد قریب ہی ایک علاقے، جناح پارک، میں ایک مکان کرائے پر لے کر دائرة الفکر کا دفتر قائم کیا گیا۔ میں نے ہوسٹل چھوڑ دیا اور وہاں منتقل ہو گیا۔

وہ زمانہ عجیب تھا۔ ہر طرف انقلاب کے نعرے گونج رہے تھے۔ ایک طرف سوشلزم، اسلامی سوشلزم اور مساوات محمدی کے نعرے تھے اور بہت سے نوجوان ان پر فریفتہ تھے۔ کتنے ہی حوصلہ مند تھے جو نتائج و عواقب سے بے پروا کچھ خوابوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ تعلیمی اداروں میں مارکس، لینن اور ماؤزے تنگ کے ناموں کا تذکرہ بہت عام تھا۔ ہم جیسے نوجوان جو مذہبی پس منظر والے گھرانوں سے آئے تھے، سوشلسٹ انقلاب کے مقابلے پر اسلامی انقلاب کا نعرہ بلندکر رہے تھے۔ اسلامی انقلاب کی فکری قیادت بلاشبہ سید مودودی کے ہاتھ میں تھی۔ جاوید صاحب اور میرا مسئلہ یہ تھا کہ ہم مولانا کی علمی سیادت کے تو معترف تھے مگر جماعت اسلامی کی سیاست کچھ زیادہ متاثر نہ کرتی تھی۔ اس لیے ہم بزعم خویش اسلامی انقلاب کا ایک متبادل تصور پیش کرنا چاہ رہے تھے۔

جناح پارک میں قیام کے زمانے کی دو باتیں مجھے یاد ہیں۔ ہمارے دائرة الفکر میں سب سے پہلے جس نامور شخصیت نے قدم رنجہ فرمایا وہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب تھے۔ وہ اس زمانے میں انجنیئرنگ یونیورسٹی کے ایک ہوسٹل میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ میں اس ہوسٹل گیا اور درس قرآن کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہاں لے کر آیا۔ ڈاکٹر صاحب سے کوئی گھنٹہ بھر سے زیادہ نشست رہی۔

ہم نے ادارے کا تعارف کروانے کے لیے الحمرا کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس میں ادارے سے وابستہ لوگوں کی مختصر تحریروں کے علاوہ وہ نصاب بھی شائع کیا تھا جو ہمارے مجوزہ تعلیمی ادارے میں پڑھایا جانا مقصود تھا۔ اس کی قیمت ایک روپیہ تھی۔

اس زمانے میں ہم دونوں کا ایک کام یہ ہوتا تھا کہ گھیر گھار کر کچھ دوستوں اور دیگر طالب علموں کو لے کر آتے تھے اور دائرة الفکر کا رکن بناتے تھے، وہ کچھ دن تو ساتھ نبھاتے اور پھر چلے جاتے۔ دوسرا کام تھا معاشرے کے مختلف سربرآوردہ لوگوں سے مل کر ان تک اپنا پیغام پہنچانا۔ ہم دو سائکلیں کرائے پر لیتے اور سلطان پورہ سے ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ تک مختلف لوگوں سے ملتے ملاتے رہتے۔

جاوید صاحب نے تو خود کو کالج سے تقریباً فارغ ہی کر لیا تھا۔ بہت کم کلاسیں اٹینڈ کرتے تھے، مگر میری کالج کی مصرفیات جاری تھیں۔ بس فلسفے کی کلاس کے علاوہ باقی باقاعدگی سے اٹینڈ کرتا تھا۔ پھر مجھے کالج کے ہفت روزہ گزٹ کے اردو سیکشن کی ادارت بھی مل گئی۔ جس کی وجہ سے قلم میں کچھ روانی آ گئی۔

چند ماہ بعد جاوید صاحب کو یہ خیال آیا کہ ہمیں کسی زیادہ بہتر جگہ پر شفٹ ہونا چاہیے مگر ہمارے پاس وسائل بالکل نہیں تھے۔ اس وقت میرے ماموں جان نے ابتدائی رقم فراہم کی اور ہم نے جے بلاک ماڈل ٹاؤن میں ایک کوٹھی کرائے پر لے لی۔اوقاف کے اس زمانے کے ایڈمنسٹریٹر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اس ادارے کے لیے فنڈ فراہم کرنے کا انتظام کریں گے۔تقریباً ایک سال بعد پتہ چلا فنڈ فراہم کرنے کا ان کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔

 اس اثنا میں چوہدری الیاس اور شیخ افضال احمد بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ الیاس گورنمنٹ کالج میں میرا کلاس فیلو تھا، جب کہ افضال ایک سال جونیر مگر دونوں ہوسٹل فیلو تھے۔ الیاس ٹائفائڈ میں مبتلا ہونے کی بنا پر ایف اے کا امتحان نہ دے سکا تھا، بعد میں امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے ایف سی کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔

اب ایک طرف ہماری تگ و دو جاری تھی، دوسری طرف بی اے کے امتحان سر پر آ گئے۔ ان دنوں انقلاب کا بھوت اس طرح سر پر سوار تھا کہ سوچا چلو اس برس امتحان نہیں دیتے۔ شکر ہے اس فیصلے پر عمل درآمد کی نوبت نہ آئی وگرنہ میری حد تک اس کے نتائج بہت سنگین ہو سکتے تھے۔ تاہم ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اس سال کالج والوں نے یہ فیصلہ کیا جن طالب علموں کے لیکچر کم ہوں گے ان کا داخلہ نہیں بھیجا جائے گا۔ ہم دونوں کے فلسفے میں لیکچر کم تھے۔ ہمارے استاد محترم بھی پریشان تھے، کیونکہ ان کا ہم دونوں کے بارے میں گمان تھا کہ ضرورپاس ہو جائیں گے۔ انہوں نے ہمیں پروفیسر سعید شیخ صاحب سے، جو اس وقت صدر شعبہ تھے، مل کر اپنا مسئلہ بیان کرنے کا کہا۔ ہم پروفیسر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ ان دنوں اقبال پر انگریزی میں ایک مجموعہ ءمضامین مرتب کر رہے تھے۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کی ایک فہرست ہمارے حوالے کی ان کے حوالے تلاش کرکے لاؤ۔ میں نے دو تین دن لگا کرحوالے درج کرکے وہ لسٹ استاد محترم کے حوالے کی اور اس طرح ہمارا بی اے کا داخلہ بھیج دیا گیا۔

بی اے کے امتحان کے بعد ہماری سرگرمیاں حسب معمول جاری تھیں۔ اس زمانے میں گڑھی شاہو کے علاقے میں ہمیں کچھ لوگوں کی معاونت میسر آ گئی۔ وہاں جاوید صاحب اتوار کی صبح کسی مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ مگر کچھ ماہ گزرنے کے بعد مسجد کے امام صاحب کو ان کے عقائد پر شبہ ہونے لگتا تھا اور وہ مسجد چھن جاتی تھی۔ پھر کسی اور مسجد میں منتقل ہو جاتے۔ اسی زمانے میں گلبرگ میں بھی ایک مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعض دفعہ رانا اللہ داد خاں، جو جماعت اسلامی کے رکن تھے، کی کوٹھی پر بھی درس ہوتا تھا۔

گرمیوں کی ایک صبح ، سورج نکلنے سے پہلے، ڈاکٹر اسرار صاحب ماڈل ٹاؤن تشریف لائے۔ انہوں نے جاوید صاحب کو جماعت اسلامی میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مولانا مودودی صاحب کے بعد جماعت اسلامی میں قیادت کا خلا پیدا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے مجھے یہ تاثر ملا کہ اگرچہ وہ خود کو اس منصب کا اہل سمجھتے تھے ،مگر ان کا خیال تھا کہ وہ اتنے متنازع ہو چکے تھے کہ جماعت والے اب انہیں قبول نہیں کریں گے۔

بی اے کا نتیجہ آنے کے بعد گورنمنٹ کالج میں ایم اے میں میرا شعبہ فلسفہ میں اور جاوید صاحب کا انگریزی میں داخلہ ہوا مگر انہوں نے تعلیم جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس عرصے میں جاوید صاحب سے عربی پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تاہم ادارے کو وسائل کے بغیر چلانا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ سال ششم میں پہنچ کر مجھے ایک اور آزمائش سے دوچار ہونا پڑا۔ بغیر کسی ارادے اور خواہش کے مجھے کالج یونین کی صدارت کا الیکشن لڑنا پڑ گیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد میں نیو ہوسٹل میں شفٹ ہو گیا اور جاوید صاحب ماڈل ٹاؤن چھوڑ کر چوہدری الیاس کے گاؤں منتقل ہو گئے۔

میرا ایک سال کالج یونین کی نذر ہوا، جب ایم اے کا امتحان دے کر فارغ ہوا تو اس وقت تک جاوید صاحب لاہور واپس آ گئے تھے۔ گارڈن ٹاؤن کے احمد بلاک میں ایک مکان کرائے پر لے کر دوبارہ کام کا آغاز کیا۔ اس وقت الیاس اور افضال کے علاوہ ڈاکٹر منصور الحمید، مستنصر میر، ملک اشرف اور چوہدری رفیق ساتھ شامل ہو چکے تھے۔

آئندہ چار برس تک ہم لشٹم پشٹم اس ادارے کو چلانے کی سعی کرتے رہے لیکن بالآخر اپریل 1978 کے بعدوہ اولین گروپ منتشر ہو گیا۔ سبب کوئی خاص نہیں تھا؛ وسائل نایاب تھے اور کام چلانا مشکل ہو رہا تھا۔اسی کی دہائی میں ان سے بہت قریبی ربط رہا۔ میری فکری کج روی کے باوجود وہ مجھے اپنے منصوبوں میں شریک رکھتے تھے۔ اسی زمانے میں ہم نے الاعلام کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا جس کے نو شمارے شائع ہوئے تھے۔ میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر چکا تھا۔ جاوید صاحب کی ہی تجویز پر میں نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب عبقات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جاوید صاحب سے میں نے عبقات سبقاً سبقاً پڑھی، اس کے علاوہ شہرستانی کی الملل و النحل کے بہت سے ابواب پڑھے۔ زمخشری کی نحو پر کتاب المفصل بھی پڑھی۔

جاوید صاحب سے ملاقات اور دوستی کے سفر کا عرصہ اب نصف صدی پر محیط ہے۔مقام افسوس ہے کہ اس ملک کی عدم روادی سے مسموم فضا کی بنا پر انھیں غریب الوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اب ملاقات میں بہت سے فاصلے حائل ہو چکے ہیں۔ ایک بار ملاقات کے لیے مجھے دوبئی کا سفر کرنا پڑا، دوسری بار ناروے کے شہر اوسلو میں ملاقات کی سبیل پید اہو گئی۔ کبھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملاقات ہو جاتی ہے جو نصف ملاقات سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔دوری کے دکھ کے ساتھ یہ خوشی ہے کہ انھیں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ایک زیادہ فراخ دنیا میسر آ گئی ہے۔ وہ وطن سے دور رہتے ہوئے وطن کو بہت یاد کرتے ہیں۔ اور مجھے اپنے عزیز دوست باصر سلطان کاظمی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:

دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).