ماں کا دل اور خالی گھونسلہ


دنیا میں‌ تبدیلی کے علاوہ کچھ بھی مستقل نہیں۔ تعلقات اور رشتے ہمیشہ کے لیے نہیں‌ ہوتے۔ لوگ ہماری زندگیوں‌ میں آخرکار چلے جانے کے لیے آتے ہیں۔ میں‌ نے صرف اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے، اپنے بچوں‌ سے اور اپنے مریضوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ایک مرتبہ ایک خاتون آئیں‌ جن کے بچے کو ڈاؤن سنڈروم تھا۔ میں‌ نے ان سے پوچھا کہ ڈاؤن سنڈروم میں‌ ایک بچے کو پالنے میں‌ کیا بات اہم ہے؟ انہوں‌ نے کہا کہ اس کو ہر کام کرنا سکھا دیں اور اس کے بعد وہ اس کے لیے نہ کریں، اس طرح‌ ان میں‌ اعتماد پیدا ہو گا، وہ مضبوط ہوں گے اور دوسروں‌ پر انحصار کرنا چھوڑ دیں گے۔ حالانکہ میرے دونوں‌ بچوں‌ کو ڈاؤن سنڈروم نہیں‌ ہے لیکن پھر بھی میں‌ نے یہی فلسفہ ان دونوں‌ پر آزمایا۔ بالکل کم عمری سے وہ اپنی لانڈری خود کرتے ہیں، اپنا کمرہ خود صاف کرتے ہیں، اپنے لیے خود کھانا پکاتے ہیں اور خود گاڑی چلا کر اسکول جاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں‌ ہماری ہجرت سے اور پھر جس طرح تیزی سے انسانی معلومات بڑھی ہیں، ان کی نسل سوچ سمجھ اور معلومات میں‌ ہماری نسل سے سو سال آگے ہے۔ اسی لحاظ سے میں‌ نے ان کو اپنے ساتھ پیچھے رکھنے کے بجائے خود کو ان کے ساتھ آگے چلانے پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے۔

میرے بیٹے نوید کی چھٹی برتھ ڈے آئی تو ہر سال کی طرح دوستوں اور پڑوسیوں کو بلایا۔ نوید نے کیک کاٹا، سب نے تالیاں‌ بجائیں اور اس کو ہیپی برتھ ڈے کہا۔ جب سب مہمان چلے گئے تو نوید چپ چاپ اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ میں‌ نے اس سے پوچھا کہ بیٹا آپ کو اپنی برتھ ڈے میں‌ مزا نہیں آیا تو اس نے سر اٹھایا اور کہا، “امی آپ نے میرے لیے میری برتھ ڈے پارٹی نہیں کی تھی، آپ نے اپنے لیے میری برتھ ڈے پارٹی کی تھی!” یہ سن کر ایک لمحے کو میں دم بخود رہ گئی تھی۔ اس کے بعد جیسا اس نے کہا، جس کو بلایا، ویسے ہی ہم نے اس کو سپورٹ کیا۔ اس طرح‌ سال گذرتے گئے۔ ایک سال کرکٹ پارٹی ہوئی، ایک سال لیزر ٹیگ اور کچھ گھر میں سلیپ اوور اور کچھ مووی دیکھنے کی۔ اس سال نوید اٹھارہ سال کا ہوگیا۔ اس نے کہا کہ میں‌ پچیس یا تیس ہائی اسکول دوستوں‌ کے ساتھ گھر میں‌ پارٹی کروں‌ گا۔ ہائی اسکول پارٹی! یہ سن کر میرا سر چکرا گیا اور آج تک جو بھی خوفناک ہائی اسکول پارٹیوں‌ کی موویاں دیکھی تھیں، اور مریضوں‌ سے کہانیاں سنی تھیں وہ سب میرے ذہن میں‌ گھوم گئیں۔

میری ایک مریضہ نے مجھے بتایا کہ ان کا پوتا اپنے کمرے میں بہت دیر سے سو رہا تھا، جب انہوں‌ نے جاکر اسے جگانے کی کوشش کی تو وہ کسی چیز کا نشہ کر کے مر چکا تھا۔ ایک مرتبہ ایک خاتون آئیں اور کہتی ہیں کہ میں‌ نے پچھلی اپوائنٹمنٹ مس کی تھی کیونکہ میرا 14 سال کا پوتا کسی پارٹی میں‌ گیا اور وہاں‌ بچے شرط لگا رہے تھے کہ ایک لیٹر واڈکا کون پی سکتا ہے۔ وہ واڈکا پی کر بے ہوش ہوگیا تھا اور صبح مردہ پایا گیا تھا۔ یہ کہانیاں‌ جاننے کی وجہ سے میں‌ سوچنے لگی کہ ٹین ایجرز کا کیا پتا ہے کوئی کہیں سے لے آیا اور ایک لیٹر واڈکا پی کر میرے گھر میں‌ فوت ہوگیا تو وہ بہت مشکل بات بن جائے گی۔ سیکیورٹی گارڈ کو کرائے پر بلائیں؟ کیا کریں؟ کئی لوگوں‌ سے مشورہ کیا۔ سب نے اپنے تجربات کے لحاظ سے مشورے دیے۔ کسی نے کہا کہ کرنے دیں، کچھ نہیں ہوتا اور کچھ نے کہا کہ بالکل پارٹی نہ کرنے دیں۔

18 سال کا ہوجانا کسی بھی بچے کی زندگی میں‌ ایک اہم سنگ میل ہے۔ وہ اب بالغ ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اگلے دن ہوگیا جب امریکن آرمی سے خط آیا کہ وہ ایک بالغ کی طرح‌ اب ان نوجوانوں‌ میں‌ شامل ہے جن کو جنگ کی صورت میں‌ ڈرافٹ کیا جاسکتا ہے۔ ہماری بہت ساری فیملی انڈیا میں‌ ہے، کچھ پاکستان میں ہے، کچھ انگلینڈ میں‌ اور باقی امریکہ میں۔ اگر جنگ ہو تو کون سے ملک کی طرف سے لڑیں؟ اس سوال کا جواب آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں‌ بہت مشکل ہے جس میں‌ سب ایک دوسرے سے ایک پیچیدہ تانے بانے میں‌ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے میں‌ جنگ کے خلاف ہوں، جنگ سے بہتر ہے کہ گفت وشنید اور ڈپلومیسی سے کام لیا جائے۔

بہرحال، اپنے دل پر پتھر رکھ کر میں‌ نے نوید سے کہا کہ ہر سال کی طرح‌ اس سال بھی خود سے پلان بنائے تاکہ اس کو ایک نارمل امریکی ہائی اسکول پارٹی کا تجربہ ہو جس کی یادیں اس کی اور اس کے دوستوں کی زندگی کا حصہ بن جائیں۔ اس نے کہا کہ پرانے جوتے اچھے نہیں ہیں اور مجھے فلاں جوتے اپنی برتھ ڈے کے تحفے کے طور پر دیں۔ میں‌ اسی بات کو ترجیح دیتی ہوں کہ جو پسند ہو تو بتا دیں تاکہ ان بچوں کی طرح‌ تلخ یادیں نہ بنیں جن کی امیدیں کرسمس والے دن تحفہ کھول کر بری طرح‌ ٹوٹ جاتی ہیں اور وہ یا تو رونے لگتے ہیں یا پھر نقلی مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ کہتے ہیں۔

میں‌ نے دیکھا کہ وہ سب خوش ہیں، سارے لڑکے صبح میں‌ گھر میں‌ جھاڑو لگا رہے ہیں، برتن صاف کررہے ہیں اور کوڑا باہر پھینک رہے ہیں۔ نہ کوئی ڈرامہ ہوا نہ کوئی جیل گیا۔ میں‌ تم لوگوں‌ کی مدد کروں؟ کسی کو بھوک لگی ہو تو انڈے بنا دوں؟ لیکن میں‌ نے دیکھا کہ وہ سب اپنے اپنے کام میں‌ مصروف تھے اور کسی کو بھی میری مدد کی کوئی ضرورت نہیں‌ تھی۔ ایک لمحے کو میں‌ نے اپنے گھر کے بیچ میں‌ کھڑے ہوئے خود کو ایک فالتو انسان محسوس کیا جس کے گرد یہ چھوٹے چھوٹے بچے ایکدم سے نوجوان آدمی بن گئے اور وقت میرے ہاتھوں‌ سے پھسل گیا۔ حالانکہ اس لمحے میں‌ مجھے فخر محسوس کرنا چاہئیے تھا کہ ان کو دوسروں پر انحصار نہ کرنے والا انسان بنانے کا میرا خواب پورا ہوگیا لیکن ایکدم میرا دل چاہا کہ نوید پھر سے چھوٹا ہوجائے اور اس کو میری ضرورت ہو۔

اس تجربے سے مجھے کچھ باتیں سمجھ آئیں جن سے اس سے پہلے میں‌ بے خبر تھی۔ “ایمپٹی نیسٹ سنڈروم” یعنی کہ “خالی گھونسلہ سنڈروم” کے بارے میں‌ بہت سنتے ہیں اور مووی “بوائے ہڈ” بھی اسی کے بارے میں ہے لیکن جب تک ہم وہاں‌ نہیں پہنچتے یہ بات سمجھ میں‌ آنا مشکل ہے۔ میرے گھٹنوں میں‌ کوئی تکلیف نہیں، چشمہ لگا کر ٹھیک نظر بھی آ جاتا ہے، نوکری ہے، گھر ہے اور گاڑی بھی۔ اگر مجھ جیسی ماں ایسا محسوس کرسکتی ہے تو ایک ایسی ماں جس کی صحت ٹھیک نہ ہو، جس کا ان بچوں‌ کے علاوہ زندگی میں‌ کوئی کیریر نہ ہو، جو خود اور اس کی دیگر اولاد اس ایک بچے پر معاشی طور پر انحصار کرتی ہوں تو وہ کیسا محسوس کریں‌ گی؟ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ صاف پتا چلتا ہے کہ انسان خود غرض ہوجاتے ہیں اور اسی طرح‌ روایتی رشتوں کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اب ہماری نسل کی خواتین کے ساس بننے کا وقت ہے۔ کیا ہم گذری ہوئی زندگیوں سے سبق سیکھیں گے یا اپنا وزن دوسروں پر پھینکتے ہوئے اس بدسلوکی اور اپنے پیاروں کی شخصی حدود کراس کرنے کے نسل در نسل چلتی ہوئی روایت کو دہرائیں گے؟

 کلینک چلانے کی، پڑھانے کی اور ریسرچ کی مصروفیت بہت ہے لیکن اس کے بعد میں نے اپنے وقت کو مختلف مشغلوں میں‌ صرف کرنا شروع کیا ہے۔ بچپن سے پیانو بجانے کا بہت شوق تھا، زندگی کی چوتھی دہائی میں‌ آکر پہلی دفعہ پیانو کا سبق لینا شروع کیا۔ ہر انسان دنیا بدل دینا چاہتا ہے لیکن خود کو بدلنا سب سے مشکل کام ہے۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ “خود وہ تبدیلی بن جائیں جو آپ دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔” محبت کرنے کا مطلب یہ نہیں‌ ہے کہ ہم جن سے محبت کرتے ہوں‌ ان کی زندگی پر قبضہ کرلیں بلکہ سچی محبت اپنے پیاروں کو آزاد کردینے میں ہے۔ چاہے میرا گھونسلہ آج خالی ہونے کے قریب آگیا ہے لیکن مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ اس میں مضبوط پروں والے انسان بڑے ہوئے ہیں جو آسمان کی وسعت میں‌ پرواز کرکے نئے جہان تلاش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).