ہم سب کے اندر چھپی۔۔۔ سیکرٹ سپر ستارہ


باوجود اس کے کہ ہماری اردو کچھ ایسی اچھی نہیں، رہتے بھی ایک نیم انگریز ملک میں ہیں جہاں زیادہ تر اپنے ہم وطن بھی انگریزی زبان کو ہی فوقیت دیتے ہیں، یہ بلاگ بھی ہمیشہ کی طرح رومن اردو میں ہی لکھ رہے ہیں کہ خیالات کا بہاؤ اسی میں آسان لگتا ہے بہ نسبت ڈائریکٹ اردو اسکرپٹ کے، دیسی لباس بھی بسس کسی خاص موقعے کے لئے ہی رکھ رکھا ہے کہ کون اس کے ناز نخرے اٹھائے۔ ۔ ۔ لیکن وہ کیا ہے کہ اپنے اندر کا دیسی وہیں کا وہیں کھڑا ہے، اپنا آپ پوری ان بان سے دکھاتا۔ یہ دل آج بھی کھل کر ہنستا امان اللہ کی جگتوں پر ہی ہے۔ یہ دل آج بھی دھیمی آنچ پر پکے آلو گوشت اور یخنی پولو کے لئے ہی دھک دھک کرتا ہے۔ یہ دل آج بھی خود کو بالی وڈ کی فلموں کا کردار ہی سمجھتا ہے۔ شاہ رخ خان کو آج بھی دیکھ کر کچھ کچھ ہوتا ہے۔ سموسے کھاتے ہوئے دیسی پکچر دیکھنے سے بڑی تفریح کیا ہے؟

ہمارا ذوق خاصا ٹیپیکل فلمی قسم کا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ جو بھی فلم دیکھیں اس میں رنگین آنچل لہراتے ہوئے ہی نظر آیئں۔ یورپ کے برفیلے پہاڑوں میں سرخ شفون کی ساڑھی پہنے ادا سے اٹھلاتی پری چہرہ نازک اندام مادھوری ڈکشٹ دکھے ، ہر نوخیز دوشیزہ اور ادھیڑ عمر عورت کے سپنوں کا راج کمار شاہ رخ خان راج کے نام سے اپنے گالوں کے ڈمپل سے ہمارے دل لوٹ لے، گانے ایسے ہوں جو کم سے کم ایک سال تو ہر مہندی پر ڈانس کی پلے لسٹ کا ایشو ہی ختم ہو جائے، کسی ہونے والی دلہن کو نہ ہی اپنی شادی کا جوڑا اور نہ ہی شادی کے بعد کی زندگی کے سپنے بننے میں دقّت ہو۔ زندگی گلزار ہو بس۔ ٹکٹ کے پیسے پورے ہوں۔

اس قدر شوقین مزاج ہونے کے باوجود ہمیں عامر خان کے سنیما سے بھی شغف ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے جی بوجھل تھا۔ دل نہیں تھا کوئی غیر فلمی فلم دیکھنے کا۔ بہرحال ایک ہی تو اپنی ٹائپ کی سہیلی ہے یہاں۔ دن گیارہ بجے فون آیا ‘پکچر دیکھنے چلو گی؟’۔ اور ہم آمین کی مصداق پر نام پوچھے بغیر ہی سنیما گھر کے صدر دروازے پر بوتل کے جن کی طرح حاضر۔ لیکن وہ ظالم ہم سے بھی پہلے کھڑی گھڑی دیکھ رہی تھی.

‘لیٹ ہو رہے ہیں۔ جلدی بھاگو.’

‘ارے بابا، ایسی بھی کیا آفت ٹوٹ پڑی۔ ریلیکس کرو۔ پانچ دس منٹ سے کیا ہو جائے گا ‘

ہمیں ویسے بھی کوئی خاص دلچسپی تو تھی نہیں ‘سیکرٹ سپر ستارہ” سے۔ یہ نہیں جانتے تھے کہ واقعی پانچ، دس منٹ سے بہت کچھ ہو جائے گا۔

تو صاحب بھاگم بھاگ پاپ کارن اور جوس سنبھالتے سنیما ہال میں پہنچے۔ فلم شروع ہو چکی تھی۔ ٹرین میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاتی بجاتی بھولی بحالی روشن چہرے اور کشادہ آنکھوں والی انسیہ، اپنی آنکھ پر لگے تشدد کے نشان کو چشمے کے پیچھے بیٹی سے چھپتی انسیہ کی امی نجمہ، انسیہ کی ہر خواہش کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے والا ننھا چنتن، ذرا ذرا سی بات پر سیخ پا ہونے والے انسیہ کا ابو، اپنی گول گول آنکھوں میں ماں اور بہن کے لئے صرف پیر سمیٹے بھرا بھرا سا گڈو۔۔۔ اور بظاھر لفنگا پر دل کا ستھرا بدنام زمانہ موسیقار شکتی کمار۔۔۔

اس کے آگے کی داستان کیا ہے ؟ مجھے خود نہیں معلوم۔ سب کچھ جذبات کے دھارے میں بہ نکلا۔ کچھ یاد نہیں.

 .خدا لگتی کہوں تو اس بلاگ کے لئے یہ فلم دہراتے ہوئے مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں لکھ کیا رہی ہوں۔ یوں تو کبھی بھی الفاظ میری منشا کے پابند نہیں رہے لیکن آج تو کچھ اور ہی معاملہ ہے۔ آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ جب بھی ہم کسی اور کی تکلیف پر روتے ہیں تو درحقیقت اپنے آپ کو ہی رو رہے ہوتے ہیں۔ کسی کسی اور کی آڑ میں اپنا غم ہلکا کر رہے ہوتے ہیں۔ شاید یہی ہوا یہاں بھی۔

‘سیکرٹ سپر اسٹار کہانی ہے ایک قدامت پسند گھرانے کی کوئل سی سریلی بچی انسیہ کی یا شاید اس کی امی کی جنہوں نے ہر قسم کے نامساعد حالات کے باوجود اپنی بیٹی کے خواب کو پروان چڑھایا۔ اسے پنپنے کا موقع میسر کیا۔ انسیہ کی امی نجمہ بظاھر نادان اور بھولی بھالی سی ہیں۔ انسیہ کو بھی تو یہی گلہ ہے ان سے۔ دن رات اپنے جلاد شوہر سے دن رات پٹتی ہیں، کبھی سالن میں نمک کم ہونے پر اور کبھی بغیر بتائے اپنے جہیز کا ہار بیچنے پر۔ ابو نے انسیہ کا خواب تو کیا سینچنا تھا الٹا اس کا گٹار اور لیپ ٹاپ بھی توڑ ڈالتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ سب فضول کے شوق ہیں۔ ان کو تو بس گڈو ہی دکھائی دیتا ہے۔ خدا کا شکر کہ گڈو ان پر نہیں گیا۔ ۔

امی اپنے جہیز کا ہار بیچ کر انسیہ کو بتائے بغیر اس کے لئے ایک نیا لیپ ٹاپ لے آتی ہیں۔ گڈو ، انسیہ اور امی تینوں مل کے خوب مزہ کرتے ہیں لیپ ٹاپ پر۔ ۔ یہیں سے ایک آئیڈیا آتا ہے کہ کیوں نہ انسیہ بھی اپنا یو ٹیوب چنیل بنائے اور پوری دنیا تک اپنی آواز کا جادو پہنچائے ۔ لیکن اگر ابو کو پتا چل گیا تو بہت آفت ٹوٹے گی۔ کیا کیا جائے؟ ایسے میں امی کےذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ انسیہ برقعے کا سہارا لے۔ آخر کو مقصد تو پوری دنیا میں آواز پہنچانا ہے نہ کہ سراپا۔ انسیہ ذرا ناک بھوں تو چڑھاتی ہے پر مان جاتی ہے۔ ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے؟چلو یہ بھی سہی

خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ انسیہ کا گانا اور ویڈیو وائرل ہو جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس کی دھوم مچ جاتی ہے۔ فینز کی تعداد لاکھوں کروڑوں کو چھونے لگتی ہے۔ شکتی کمار جیسا بڑا موسیقار بھی اس سے رابطہ کرتا ہے ۔ اس کے بعد کیا کیا ہوا۔۔ ہنگام جنوں یہ نہیں معلوم…

ان ماں بیٹی کا یہ سفر بہت خاص ہے اور سب دیکھنے والوں کو گاہے بگاہے جھنجھوڑتا بھی ہے۔ انسان چاہے تو کیا پہاڑ نہیں سر کر سکتا۔ یقین جب ایمان میں بدل جائے تو کیسے کیسے معجزے نہیں کرتا. کیسی کیسی مہمات سخر نہیں کر لیتا۔  بس شرط اول ہے خود پر بھروسے کی، ہر طاقت کے خلاف کھڑے ہونے کی، اپنا سپنا پورا کرنے کے لئے پوری دنیا سے لڑ جانے کی، جذبے کی، جنوں کی.

اداکار عامر خان اس وقت جس منج پر بیٹھے ہیں یہ مقام پانے میں لوگوں کو عمریں بیت جاتی ہیں۔ ہندی سنیما کے تین خان صاحبان میں سے ایک یہ ہیں۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہو گا کہ اگر آج ہندی سنیما کی تاریخ مرتب کی جائے تو ان کا باب خاص ضخیم نکلے گا۔ خیر یہ کوئی واحد اور آخری سپر سٹار تو ہیں نہیں۔ بہت سے ہیں۔ بہت سے گزرے بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مقام پر پہنچنے کے بعد کتنے مہان کلاکاروں نے معاشرے کی طرف اپنی ذمےداری کو سمجھا اور نبھایا؟ کتنے اسٹارز نے صرف دولت اور شہرت کمانے پر ہی فوکس نہیں رکھا؟ نتائج کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں۔ یہ وہی عامر خان ہیں جو کبھی ‘تارے زمین پر’ جیسی فلم سے ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ ہر بچہ خاص ہے تو کبھی ‘تھری ایڈیٹس’ جیسی فلم سے ہمارے دماغوں میں بھرے اس خناس کو صاف کرتے ہیں جس کے نزدیک صرف چند مخصوص پیشے ہی معتبر ہیں، جس کے تحت بچے کی تعلیم کا فیصلہ اس کے ماں باپ کی منشا اور خوابوں کا ہی مرہون منت ہے، کبھی ‘ ‘ جیسی فلم کے ذریعے مذہبی ناخداؤں کے بت توڑتے ہیں تو کبھی ‘دنگل کی مدد سے ہمیں یہ آئینہ دکھا دیتے ہیں کہ بیٹیاں اکھاڑے بھی فتح کر سکتی ہیں اور باقی کی دنیا بھی۔ اور آج یہی عامر خان ‘سیکرٹ سپر اسٹار کے ذریعے ہم سب کمزور پڑ جانے والی عورتوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ اگر منزل چن لی تو راستے مل ہی جائیں گے۔ عورت کسی طور پر کمتر نہیں اور اگر چاہے تو کسی کی ہمت نہیں کہ اس کا بال بھی بیکا کر سکے۔ سلامت رہئے خان صیب اور اگر ممکن ہو تو باقی انڈسٹری میں بھی اپنی روح پھونک دیجئے۔ نوازش ہو گی۔

آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ یہ فلم دیکھنا ہر مرد و زن پر لازم ہے، بلا تفریق ذات پات مذہب رنگ نسل۔ لیکن یہ بھی گزارش ہے کہ بس ایک بار ہی دیکھئے گا۔ بار بار دل فگار کرنے کی ہمت ہم میں تو نہیں۔ آپ میں بہت ہے تو سو بسم الله۔ ہم سے گلہ مت کیجئے گا۔ یہ بلاگ لکھتے ہوئے بھی شاید آنکھ میں کچھ پڑ گیا۔ بس ابھی آئی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).