غامدی سے سیکھا “البطیخ”


 ساجد، الیاس اور میں گورنمنٹ کالج کے اقبال ہوسٹل میں اکٹھے تھے۔ ساجد الیاس کا دوست تھا، الیاس میرا دوست تھا لیکن منطق کی رو سے ساجد میرا دوست نہیں تھا البتہ ہیلو ہائے رہتی تھی۔ ساجد بڑی لمبی سی “ہوں” کرکے، لب چڑھا کے، اکثر سنجیدگی سے اور کبھی کبھار تمسخر بھری ہنسی کے ساتھ بات کیا کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ الیاس اسے فلاسفر کہتا تھا یعنی “او فلاسفرا”۔ الیاس میرا گوڑھا دوست تھا۔ فلمیں اکٹھے دیکھنے جانا، الیاس کے پنڈ چلے جانا۔ الیاس کی بے بے میری بھی بے بے تھیں اور الیاس کے باؤجی یعنی بھائی میرے بھائی جان۔ میں پری میڈیکل کا طالبعلم تھا اور الیاس و ساجد آرٹس کے۔

الیاس امتحان کے دوران بیمار پڑ گیا۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے ٹیگ سسٹم کے تحت نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخل ہونا پڑا۔ الیاس بعد میں بی اے کرنے کو ایف سی کالج میں داخل ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد، غالباً دسمبر میں میں الیاس سے ملنے لاہور اس کے ایف سی کالج کے ہوسٹل پہنچا۔ شام کو الیاس نے مجھ سے کہا،”یار میں پہلے تمہیں جینیس سمجھتا تھا لیکن مجھے اب ایک اور جینیس ملا ہے۔ چلو میں تمہیں اس سے ملا کر لاؤں”۔ میں نے کہا چلو۔ ہم نے رکشا پکڑا اور ماڈل ٹاؤن کی ایک کوٹھی میں جا کر اترے۔ ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ چھوٹے سے کمرے میں، جس میں قالین بچھا ہوا تھا۔ الماری میں چمکتے لفظوں سے مزین جلدوں والی کتابں ترتیب سے رکھی تھیں۔ دیوار کے ساتھ رکھے کاؤچ پر دو نوجوان بیٹھے تھے۔ ہم دونوں جب داخل ہوئے تو سامنے رکھی میز کے پیچھے دھری گھومنے والی کرسی پر بیٹھا نوجوان نیچے جھکا ہوا تھا، اس نے سر اٹھایا۔ ہاتھ میں نیچے سے اٹھائی ایک کتاب میز پر رکھتے ہوئے کہا،” اور دنیا مجھے زبانوں کا بادشاہ کہتی ہے”۔ اس نے پتہ نہیں کس حوالے سے یہ بات کہی تھی مگر مجھے لگا کہ اس شخص نے مجھ پر رعب گانٹھنے کو یہ بات کہی ہے۔ میں الیاس کے گلے پڑ گیا۔ مجھے یاد ہے، میں نے کہا تھا،” تم مجھے لیبارٹری میں لے کر آئے ہو، اس طرح میرا برین واش نہیں ہو سکتا” اسی طرح کے دو ایک فقرے اور کہے۔ پھر کہا میں جا رہا ہوں اور نکل گیا۔ تیز تیز چل رہا تھا۔ پیچھے سے الیاس یہ کہتا ہوا کہ “بات تو سنو، بات تو سنو” آ رہا تھا۔ بالآخر اس نے مجھے آ لیا۔ میری تلخ و ترش سننے کے بعد رسان سے بولا چلو واپس چلتے ہیں۔ رکشا پکڑا اور ہوسٹل کو روانہ ہو گئے۔

ان دنوں سپیڈ بریکر نئے نئے بننے لگے تھے۔ ہوسٹل کے نزدیک ایسا ہی ایک سپیڈ بریکر دکھائی نہ دیا تو رکشے کو جھٹکا لگنے سے میں اتنا اونچا اچھلا کہ چھت کا ایک پائپ میری ناک کے بانسے سے ٹکرا گیا اور خون بہنے لگا۔ میں نے الیاس سے کہا کسی میڈیکل سٹور پر چلو۔ اسی رکشے پر ہم مین مارکیٹ گلبرگ کے ایک میڈیکل سٹور پہنچے۔ اس سے پہلے کہ دوا لگانے اور پٹی کرنے کو کہتے میں نے آئینہ مانگ لیا۔ آئینہ کی وہ طرف تھی جس میں چہرہ حجم سے دوگنا تگنا لگتا ہے۔ میں گھبرا گیا کہ اتنا بڑا زخم۔ میں نے آئینہ پھینکا اور کہا، ہسپتال چلو ٹانکے لگانے پڑیں گے۔ سروسز ہسپتال چلے گئے۔ ڈاکٹر نے تسلی دی اور ٹانکا لگائے بنا پٹی کی اور کہا،” یہ زخم تتلی کی طرح اڑ جائے گا”۔۔۔۔ اس کا نشان آج تک ہے جو میں شناختی نشان کے طور پر درج کرتا ہوں، “ناک کے بانسے پر زخم کا نشان”۔۔ جو نوجوان شخص، اپنے آپ کو یا نجانے کس کو زبانوں کابادشاہ کہہ رہاتھا وہ جاوید احمد تھا جو بہت بعد میں غامدی بنا۔

میں جیسا کیسا آزاد منش تھا مگر تھا ایک مذہبی گھرانے سے۔ رات بھر یہ سوچ سوچ کر نیند نہیں آئی کہ میں اس اللہ کا بندے کا بلا وجہ دل دکھا آیا تھا اس لیے مجھے چوٹ لگنے کی سزا ملی۔ صبح صبح الیاس کے جاگنے سے پہلے میں اٹھا اور رکشا لے کر وہیں جا پہنچا جہاں سے رات کو روٹھ کر بھاگا تھا۔

چھوٹے سے لان میں رکھی پلاسٹک کی سفید کرسی پر گرم چادر اوڑھے جاوید احمد بیٹھے تھے، ایک کرسی خالی دھری تھی۔ مجھے دیکھ کر اٹھے، مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا،” مجھے یقین تھا، آپ ضرور آئیں گے”۔ میں مزید متاثر ہو گیا کہ بھئی واقعی اللہ کا بندہ ہے۔ مزیدار بات یہ کہ میں ان دنوں وجود خدا سے نیا نیا منکر ہوا تھا۔ پہلے میں نے رات کے رویے پر معذرت کی۔ ان سے معافی مانگی۔ انہوں نے کوئی آدھ پون گھنٹہ مجھے وجود خدا کے دلائل دیے جن کی نفی کے لیے میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا تاہم میں نے کہا،” آپ کی ساری باتیں درست مگر جب تک میں خود تحقیق نہ کر لوں میں اپ کے دلائل نہیں مانتا”۔ جاوید احمد کو یہ بات اچھی لگی۔

دو سال گذر گئے۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ سوچا کچھ روز الیاس کے ساتھ گذار لیے جائیں۔ لاہور پہنچ کر الیاس سے رابطہ کیا تو وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گاؤں کوٹ نذیر لے گیا۔ وہاں غامدی صاحب اور ان کے چند چیلے الیاس وغیرہ کی باہر آلی کوٹھی یعنی ڈیرے میں ایک یونیورسٹی بنائے ڈٹے ہوئے تھے۔ جاوید صاحب اپنے ان دوست شاگردوں کو عربی سکھا رہے تھے۔ میں بھی اس چوکڑی میں شامل ہو گیا۔ روز کاپیاں پنسلیں پکڑ کر صوفے کرسیوں پر بیٹھے عربی زبان کے اسباق لیا کرتے تھے۔ پندرہ بیس روز میں میں جو سیکھ سکا تھا اس میں سے اب تک صرف ایک لفظ “البطیخ” یعنی تربوز ہی یاد رہ گیا ہے۔

1975 آن پہنچا۔ ایم بی بی ایس فائنل کے امتحان دے چکا تھا۔ میرے گھر پر ہوتے پہلی بار رمضان کا مہینہ قریب لگنے لگا تو میری ماں نے مجھے کہا کہ بے روزہ میرے گھر میں نہیں رہ سکتا، اس لیے جہاں نکلنا ہے، نکل جاؤ۔ میں نے پھر لاہور کی راہ لی۔ اس بار الیاس نے مجھے اچھرہ میں جماعت اسلامی پنجاب کے دفتر کی پہلی منزل پر ٹھہرایا تھا، جہاں ایک چھوٹے کمرے میں جاوید احمد مقیم تھے۔

تب تک میں راسخ دہریہ تھا۔ جاوید چھوڑ کوئی بھی مجھے مذہب کی جانب راغب نہیں کر سکتا تھا۔ کھانا گلی سے باہر نکلتے ہی مرزا صاحب کے پردے لگے ریستوران سے کھاتا تھا۔ مرزا صاحب نفیس آدمی تھے اور نظافت کے قائل۔ نماز روزہ تو مجھ سے تھا ہی دور۔ جماعت اسلامی والے کبھی کبھار اوپر آتے تھے تو نماز روزے کا پوچھتے تھے۔ میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ ان کے منہ بن جاتے مگر جاوید صاحب ہونٹ بند کیے مسکراتے تھے یعنی مجھ سے محبت کرتے تھے۔

ایک روز میں نے کہا، مجھے مولانا مودودی سے ملنا ہے۔ انہوں نے کہا کل میرے ساتھ عصر کی نماز کے لیے چلنا، ملوا دیں گے۔ میں جماعت اسلامی کے دفتر چلا گیا۔ لان میں جماعت ہونے کو تھی۔ میں لان سے باہر دھری کرسی پر بیٹھا تھا۔ ایک دو نے نماز پڑھنے کا پوچھا تو میں نے بحث سے بچنے کو کہا کہ میں رام لال ہوں، مولانا سے ملنا چاہتا ہوں۔ خیر ان دنوں مولانا کے گھٹنوں میں درد تھا۔ وہ جاوید احمد کا ہی سہارا لے کر اٹھے تھے۔ جاوید صاحب نے مجھے دیکھا تھا جس کا مطلب تھا، ساتھ چلے آؤ۔ میں ان دونوں کے پیچھے مولانا کے دفتر میں داخل ہو گیا تھا۔ مولانا نے اپنے ہاتھ سے بنا کر چائے پلائی تھی۔ ان دنوں جاوید صاحب جماعت اسلامی کے کم عمر ترین رکن تھے۔ مولانا نے انہیں کہا تھا کہ لوگ باتیں کرتے ہیں اس لیے آپ رکنیت سے مستعفی ہو جائیں۔ جاوید احمد نے کہا تھا،” مولانا آپ مجھے نکال دیں تاکہ لوگ مجھ سے جواب طلب نہ کریں کہ جماعت کیوں چھوڑی”۔

میں 1979 میں لاہور منتقل ہو گیا تھا۔ میری طرح جاوید احمد بھی بیوی والے ہو چکے تھے چنانچہ میں اور میری بیوی ہفتے عشرے کے بعد ان سے ملنے ضرور جایا کرتے تھے۔ یقین جانیں جاوید احمد نے مجھے کبھی اپنے خیالات تبدیل کرنے کو نہیں کہا۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کر لیتے تھے اور بس۔ ان کے علم کے سبب میں نے انہیں کبھی جاوید نہیں کہا ہمیشہ جاوید صاحب ہی کہا۔ انہوں نے بھی مجھے آپ سے ہی مخاطب کیا۔

میں 1991 میں روس چلا گیا۔ ایک دو بار پاکستان آنے پر الیاس نے علامہ صاحب سے ملایا، الیاس انہیں علامہ ہی پکارتا ہے۔ پھر وہ ٹی وی پر آنے لگے تو پتہ چلا کہ وہ غامدی ہو گئے ہیں۔ ایک ملاقات میں پوچھ لیا کہ جناب یہ غامدی کیا ہے۔ ہنس کے بولے عربی میں نہ گ ہے نہ ڑ، بس یوں سمجھیں یہ گھامڑ سے مشتق ہے، یعنی حس مزاح بھی خوب پائی ہے موصوف نے۔

انہوں نے میرے لیے دعا کی اور اللہ نے مجھے ہدایت دے دی۔ اس تبدیلی پر وہ بہت خوش ہوئے۔ اللہ انہیں زندگی دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).