ننھی بچیوں کے ساتھ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات


چھوٹی ردا کو ماں نے نزدیکی دکان سے ماچس لانے کے لئے بھیجا جو اس وقت تین سال کی تھی بچی خوشی خوشی چاکلیٹ لینے کی خوشی میں ماں سے پیسے لے کر روانہ ہوئی کیوں کہ اسے چاکلیٹ کے لئے بھی رقم ملی تھی اور بچوں کو چاکلیٹ کتنے پسند ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کے والدین ہی جان سکتے ہیں یا جن کے گھر میں چھوٹے بچے موجود ہوں انہیں پتہ ہوتا ہے، معصوم ردا گھر سے نکلی اور دکان جانے سے پہلے ہی محلے کے اوباش نوجوانوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ انہوں نے چاکلیٹ دکھائے اور ننھی ردا انسان کے بھیس میں جانوروں کو نہ پہچان سکی اور چاکلیٹ لے لئے اور پھر ایک نے معصوم کو گود میں اٹھا لیا اور نزدیکی خالی مکان میں لے گئے اس کے بعد میرا قلم لکھنے سے عاری ہے جب شیطانی کھیل مکمل ہوچکا تو اسے بے دردی سے مار ڈالا گیا اور یوں بے چاری ننھی پری حیوانیت کا شکار ہوگئی، اس کی ماں پر کیا بیتی ہوگی اس کے والد پر کیا بیتی ہوگی اس کے گھر کے دیگر مکینوں پر کیا بیتی ہوگی یہ سوچ ان ظالمان سے دور تھی ان پر تو شیطان سوار تھا، بعد میں ملز مان پکڑے گئے سزا بھی دی گئی مگر اس معصوم کی جان تو واپس نہیں آسکتی تھی۔

سلمی ایک نابینہ شخص کی 12 سالہ بیٹی تھی جس کا اور کوئی نہیں تھا اسے دن دھاڑے اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں حالت غیر ہونے پر قبرستان کے قریب پھینک دیا گیا تین سالہ بچی شمائلہ بھی ہنستی کھیلتی گھر سے نکلی اور ایک بھڑیے کے ہاتھ چڑھ گئی۔ پھر اْس کی لاش ایک خالی مکان کے واش روم سے ملی 20 سالہ لڑکی کو رافعہ بھی ایک لڑکی تھی جسے جنسی درندوں نے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا اور اسے قتل کر کے اس کے گلے میں پھندا ڈال کر اس کی لاش درخت کیساتھ باندھ دی گئی۔

اس جیسے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے میں رونما ہور ہے ہیں جو پہلے ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تھے درندگی کا نشانہ بننے والی لاشیں معاشرے کے ہر فرد سے یہ سوال کرتی ہیں۔ کہ ہمارا قصور کیا تھا؟ ہمیں کیوں درندگی کا نشانہ نبایا گیا؟ ہماری لاشوں کو کیوں عبرت کا نشان بنایا گیا ہے؟ لیکن انہیں کیا پتہ کہ درندہ صفت انسانوں کی پیاس اس سے بجھتی ہے آئے روز چھوٹی عمر کی کمزور، معصوم اور نہتی بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ ہوس کی پیاس بجھا کر منہ کالا کیا جاتا ہے۔ جنسی درندے محض اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ پہچاننے جانے کے ڈر سے ان کا گلہ دبا کر قتل کردیتے ہیں۔ لاش یا تو گندے نالے میں پھینک دی جاتی ہے۔ یا درخت کیساتھ لٹکا دی جاتی ہے۔ ایک اندونہاک واردات سامنے آتی ہے۔ چند روز میڈیا شور کرتا ہے۔ مختلف قسم کے تجزیے تبصرے ہوتے ہیں۔ پولیس حرکت میں آتی ہے۔ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے عزم کا اظہار ہوتاہے۔ انکوائری کمیٹی تشکیل پاتی ہے۔ بیانات ریکارڈ ہوتے ہیں۔ کچھ روز کی رسمی کارروائی عمل میں آتی ہے۔ اور پھر تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔

پھر میڈیا کے ہاتھ کوئی اور خبر آجاتی ہے۔ میڈیا کی نظر سے اوجھل ہونے کے بعد اس طرح کی کیسز میں پولیس کی دلچسپی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ جوں جوں پولیس کی دلچسپی ختم ہوتی ہے بدمعاشوں کے حوصلے بلند ہوتے جاتے ہیں۔ اور وہ متاثرہ خاندان کو ہراساں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہر حربہ اور ہر کوشش کی جاتی ہے کہ مخالفین کو کیس سے دستبردار کیا جائے۔ دھونس دھمکی سے کام چلایا جاتا ہے۔ غنڈوں بدمعاشوں کے ذریعے لڑکی اور اس کے گھر والوں بہن بھائیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان سے بھی کام نہ چلے تو مختلف ہمدرد متاثرین کے گھر آنا شروع کر دیتے ہیں۔ لڑکی کے گھر والوں کو کیس کی دستبرداری کا مخلص مشورہ دیا جاتا ہے۔ دوسری پارٹی کے اثر و رسوخ اور اوپر تک پہنچ کا پیغام دیا جاتا ہے۔ اگر انسان اکیلا ہو تو مقدمات کا سامنا بھی کرے۔ عدالت بھی پہنچ جائے۔ ہراساں کرنے والوں، ہوس کا نشانہ بنانیوالوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کر لے۔ اور اگر عدالت جانے پر وہ موت کی سزا بھی دیں تو قبول کر لے۔

ویسے تو زنا ہر شکل میں ناقابل قبول اور قابل مذمت ہے۔ مگر چھوٹی اور معصوم بچیوں کیساتھ ہونے والی یہ حرکت بہت قابل مذمت بھی ہے اور حد سے زیادہ تشویش نا ک بھی، جس کے لئے سخت سے سخت قانون بنانے کی ضرور ت ہے۔ اس کے محرکات کی جانب اگر نظردوڑائی جائے تو انٹرنیٹ سامنے آجاتا ہے جس سے ہر قسم کا قابل اعتراض مواد باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ موبائل فون نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ اب ہر طرح کے مواد تک نوجوان نسل کی با آسانی رسائی ممکن ہے۔ غیر ملکی چینلز کی بھرمار نے فحاشی اور عریانی کی تمام حدود کو پار کردیا ہے۔ ان چینلز کی دیکھا دیکھی مقامی میڈیا بھی فخاشی اور عریانی کی تمام حدیں پھلانگ رہا ہے۔ یہ فحش چینلز اور قابل اعتراض مواد نوجوان نسل کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہا ہے میڈیا کی بے جا آزادی اور پیار وعشق کے ڈراموں نے لڑکے اور لڑکیوں کو ماحول بنا دیا ہے اب محبتیں پردوں میں نہیں ہوتیں بلکہ سب کے سامنے ڈنکے کے چھوٹ پر ہوتی ہیں اور والدین بھی خوشی سے بتاتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں دوسری جانب مارکیٹ میں ایسا لٹریچر بھی موجود ہے جسے کسی طور پر بھی نوجوانوں کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے۔ لیکن ایسا لٹریچر بیچنے والے اور چھاپنے والے سرعام ایسا کررہے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی ادارہ انہیں روک سکے، پوچھنے کی جرات کر سکے۔ یہ تمام قابل اعتراض مواد، لٹریچر، اور ٹی وی چینلز نوجوان نسل خاص طور پر کچے ذہنوں پر اپنے اثرات چھوڑ رہے ہیں دوسری وجہ حدسے زیادہ اختلاط بھی ہے گھروں میں نامحر موں پر اندھا اعتماداور ہر کسی کو گھر میں داخلے کی اجازت نے بھی اس گھناؤنے کام کے لئے راہیں کھول دی ہیں اسی ماحو ل کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے جس نے ملک بھر میں جا بجا پھیلتے ہوئے ریپ کیسز کا تانتا باندھ دیا ہے جسمیں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ اب معصوم بچیوں کو بھی نشانہ بنا یا جا نے لگا ہے

سوچتا ہوں کہ انسانیت کے پیروکار پختون، پنجابی، سندھی اور بلوچی سب سے بڑھکر مسلمان کس طرح ریپ کے واقعات میں انوالو ہوگئے ہیں وہ بھی ایسے کیسز میں جن کو سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسے تین سال کی کمسن کلیوں کو مسلا جا رہا ہے جن کی عمریں سکول جانے کی بھی نہیں ہوتی۔ درندے ان سے اپنی جنسی بھوک کی تشنگی مٹاتے ہیں اور بعد میں ایک خوف کے ڈر سے ان معصوم کلیوں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں گزشتہ کچھ مہینوں میں بہت سے دلخراش واقعات رونما ہوئے جس میں بلوچستان میں مسجد کے پیش امام کے کے ہاتھوں چھ سالہ مقدس کی قسمت تاراج ہوئی تو نوشہرہ میں درندوں نے ایک معصوم کو ہوس کا نشانہ بنایا تو میاں چنوں، لاڑکانہ، میانوالی، گجرات، گوجرانوالہ، ملتان، مظفر گڑھ، لیہ، بھکر، صوابی، کرک، پشاور، پاکپتن میں چھوٹی بچیوں تو مانسہرہ میں مختلف واقعات میں ایک پولیس کانسٹیبل کے ہاتھوں لڑکی عزت گنوا بیٹھی تو دوسرے واقعے میں ایک مولوی نے دوستوں کے ساتھ ملکر ایک لڑکی کی عزت کا جنازہ نکال دیا۔

گزشتہ سال کے واقعات اٹھا کر دیکھ لیں تو توبہ کو ہاتھ اٹھ جاتے ہیں کہ ہم بحیثیت مسلمان اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اب ریپ جیسے واقعات بھی ہمارے معاشرے کا عمومی حصہ بن گئے ہیں ہماری عورتیں تو غیر محفوظ تھیں اب معصوم بچیاں بھی جو ٹافیاں لینے باہر جاتی ہیں وہ بھی کسی درندے کی بھینٹ چڑھ کر موت کوگلے لگا لیتی ہے ہم مسلمان کتنے بے حس ہوگئے ہیں ہم سے تو جانور بھی اچھے ہیں زبردستی وہ جنسی عمل بھی نہیں کرتے اور ہم ذی شعور بنی نوع انسا ن کا لقب پانے والے اللہ کے بندے اپنے اللہ کے احکامات کو بھلا کر غیر انسانی اطوار کو اپنا چکے ہیں یورپ میں بھی کمسن لڑکیوں کے ساتھ زبردستی کرنا سب سے سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے اور اگر کوئی نابالغ لڑکی کے ساتھ زیادتی کے کیس میں پکڑا جاتا ہے تو اس کی ضمانت مشکل سے ہوتی ہے ان کو پیڈو فائل کہا جاتا ہے ان کی نگرانی کی جاتی ہے کہ یہ اور بچیوں کو نقصان نہ پہنچادیں مگر ہمارے ہاں اللہ کا قانون موجود ہے ملک کا قانون موجود ہے مگرہمیں شرم نہیں آتی اور ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).