فوجی حکومتوں کے شائقین متوجہ ہوں


پاکستان کی سیاسی صورت احوال کا ذکر ہو، تو ایک طرف وہ لوگ ہیں، جو فوجی راج کے آنے کی وجوہ خود سیاست دانوں کے اطوار کو بتاتے ہیں؛ نیز وہ فوجی راج کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جنھیں کسی صورت فوجی راج قبول نہیں۔ بیچ میں ایسے لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ فوجی راج ہو یا سول؛ دونوں ہی عوام کے درد کا مداوا نہیں کرتے، لہاذا ایک ہی راستہ ہے جسے انقلاب کہ کر پکارتے ہیں۔ انقلاب کے لیے کوشش تو کیا کرنا، وہ آسمان سے اترنے والے انقلاب کے منتظر ہیں۔ انقلاب اس مضمون کا موضوع نہیں، کہ ناچیز کا کبھی اس سے واسطہ نہیں پڑا۔ فوجی راج کی حمایت کرنے والوں کے سامنے یہ مقدمہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔

ریاست کے ادارے آئین و قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ آئین میں ہر ادارے کا کردار متعین کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمانی ادارہ ہے، اس کے ارکان کے انتخاب کا ایک طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی ہو، صوبائی اسمبلی، یا سینیٹ اور دیگر شعبے، سبھی ایک قانون کے تحت معرض وجود میں آئے، اور قانون کے تحت چلنے کے پابند ہیں۔ عسکری ادارے ہوں، پولِس، عدلیہ، کسٹم، مواصلاتی ادارے اور سب کے سب؛ یہ آئین و قوانین کے ماتحت ہیں۔ عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوتا ہے، تو منصف اپنے ضمیر کے مطابق نہیں، قانون کے مطابق فیصلہ سناتا ہے۔ کیوں کہ قانون ہی مقدم ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ سیاست دان منتخب ہوکر عوام کی بھلائی کے اقدام کرے گا، اپنے تئیں کرتا بھی ہے؛ بری بھلی تنقید ہوتی ہے، تنقید سننا، تنقید سہنا اس کے فرائض میں شامل ہے۔ وہ غیر قانونی اقدام کرے تو عدالت اس کو سزا دے سکتی ہے۔

ہمارے یہاں یہ رواج چل نکلا ہے، کہ تنقید صرف سیاست دان پر ہو تو حق کہلاتی ہے، کسی اور سرکاری ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا جائے، تو اعتراض اٹھتا ہے؛ دُہرایا جاتا ہے کہ ادارے مقدم ہیں، ان پر تنقید کرنے سے یہ کم زور پڑتے ہیں، چناں چہ تنقید نہ کی جائے۔ سب ادارے یہ نہیں کہتے، مثلا؛ واپڈا، ریل ویز، پولِس، پی آئی اے، اور اس طرح کے دیگر اداروں پر تنقید کی جائے تو تحسین ہوتی ہے، کیوں کہ عام تاثر یہ ہے کہ ان کی بری کارکردگی کے ذمہ دار صرف اور صرف سیاست دان ہیں، ظاہر ہے ان کی اچھی کارکردگی اس ادارے کے افسران کے مرہون منت ہے۔ ریاستی اداروں جیسا کہ عدلیہ اور فوج پر مثبت تنقید پر بھی ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے۔ گویا یہ ادارے پارلیمان سے بھی معزز ہیں، جو انھیں آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تنقید کے بھی قوانین ہیں، اس دائرے میں رہتے تنقید مستحسن ہے۔ بے جا یا بے بنیاد الزام تراشی تنقید نہیں بغض کہلاتا ہے۔ اب خود ہی سوچیے ہم سیاست دانوں پر جو تنقید کرتے ہیں، اس میں سے بغض کا کتنا دخل ہے اور تنقید کے اصول کتنے کارفرما رہے ہیں۔ صرف اخبارات کے کالم اور میڈیا ہاوسز کے پروگرام ملاحظہ ہوں تو دکھائی دیتا ہے، جس ”دیدہ دلیری“ سے سیاست دانوں‌ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، وہ تنقید ہے بغض یا کیا کہلاتا ہے۔

جیسا کہ تاکید اس بات پر ہے کہ ہر ایک کو ریاست کے آئین و قوانین کی پابندی کرنا ہے، جو اس دائرے کو توڑتا ہے، وہ ریاست کی نظر میں مجرم ہے۔ 99ء کی فوجی مداخلت ہی کو دیکھ لیجیے؛ آئینی وزیراعظم اپنے اختیار کا استعمال کرتے، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرتے ہیں، آئینی وزیراعظم کے فیصلے کے ردعمل میں ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جاتا ہے؛ یہ سراسر غیر آئینی اقدام کہلائے گا، خواہ کوئی بھی توضیح پیش کی جائے۔ اگر جنرل مشرف کو لگتا تھا کہ یہ فیصلہ قانون کو نظر انداز کرکے کیا گیا، تو وہ عدالت جاسکتے تھے۔ اپنے حق کے لیے قانونی راستہ منتخب کرسکتے تھے۔ ان کا موقف درست ہوتا تو عدالت ان کے حق میں فیصلہ سناتی۔ دوسری طرف دیکھیے کہ جنرل مشرف، چیف جسٹس کو معطل کرنے کا قانونی حق نہیں رکھتے، انھوں نے افتخار چودھری کو برطرف کیا، اس کے بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے، اور اتنی پرانی بھی نہیں کہ میں یا آپ اس سے واقف نہ ہوں۔

یہاں ”نیک نیتی“ کی آڑھ لی جاتی ہے۔ نیک نیتی کیا ہے یہ خدا جانتا ہے یا نیک نیت شخص بذات خود۔ کہا جاتا ہے کہ مقصد عظیم ہو تو قانون توڑنے میں عار نہیں۔ اب کون سمجھ سکتا ہے کہ قانون توڑنے والے کا مقصد کیا ہے۔ ایک اور طریقہ ہے جس سے کوئی غیر ائینی اقدام آئینی نہیں ہوجاتا، لیکن نیت کی پہچان کی جاسکتی ہے۔ مثلا؛ ایوب خان، یحیی خان، ضیا الحق، پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کے نتیجے میں قوم نے ترقی کی ہو، ان کی پالیسیوں نے شہری کو امن چین، روزگار، عزت نفس، مساوات، تحفظ کا احساس دلایا ہو، تو شہری یہ کہ کر مطمئن ہوسکتے ہیں، کہ ہم قانون اور آئین کی باریکیوں کو کیا سمجھیں، ہم ان حکومتوں میں سکھی رہتے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ نہ مساوات کی صورت پیدا ہوئی، نہ کسی کی عزت نفس محفوظ ہے، نہ تعلیم صحت کے شعبوں میں بہتری ہوئی، نا ہی روزگار کے بہتر مواقع تلاش کیے گئے۔ فوجی حکومتیں آتی رہیں، عوامی نمایندوں یعنی سیاست دانوں کو دھونس دھاندلی دباؤ سے ساتھ ملاتی آئیں، وہی اسمبلیاں آباد کیں، آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کرواتی آئیں۔ جونیجو ہوں یا ظفر اللہ جمالی؛ جس نے فوجی حکمران سے اختلاف کیا، معزول ہوا یا استعفا دینا پڑا۔

اگر سمجھا جائے کہ ریاست کے قوانین شہری کی دادرسی نہیں کرتے، موجودہ سسٹم طاقت ور کو تحفظ دیتا ہے، کم زور سے انصاف نہیں کرتا، تو ان میں اصطلاحات کا سوال اٹھانا چاہیے، ان میں ترامیم کی بات ہونی چاہیے۔ ان قوانین کو توڑ کے برسراقتدار آنا، ان میں ترامیم کرکے اپنی ناجائز حکومت کو جائز قرار دینا ہی کار ٹھیرا، تو نیک نیتی کہاں گئی؟ سیاسی معاملات میں غیرقانونی مداخلت جیسا کہ اصغر خان کیس سے ثابت ہے، خرابیوں کی وجہ ہے۔ بار بار کی فوجی حکومتوں نے شہری کا مزاج ایسا بنادیا ہے، کہ وہ بجلی، گیس چوری کرنا، ٹریفک سگنل توڑنا، جعلی رسیدوں پر سرکار سے میڈیکل الاونس لینا، رشوت لینا دینا اور اس طرح کے غیرقانونی کام پوری نیک نیتی سے سرانجام دیتا ہے۔ ہر بے ایمان ”نیک نیتی“ کا نعرہ لگا کے حرام کو حلال کرسکتا ہے؛ نیک مقاصد کے نام پر آئین و قوانین کو پس پشت ڈالنے کی سوچ نے، ہر بدنیت کو اپنے اعمال کا جواز فراہم کردیا ہے، لیکن ریاست کی نظر میں نیک نیتی کچھ بھی نہیں؛ اگر نیک نیتی کچھ ہے تو آئین و قوانین کی پاس داری ہی نیک نیتی ہے۔ مملکت پاکستان عوام کا اپنے نمایندوں پر بھروسا کرنے سے معرض وجود میں آیا۔ اس کے وارث عوام ہیں، کوئی ایک دو ادارے نہیں؛ عوام کے فیصلوں کی توہین سے بنگلا دیش تو بن سکتا ہے، ملک ٹوٹنے سے نہیں بچایا جاسکتا۔ قائد اعظم کو پاکستان کا مینڈیٹ دینے والے عوام کی توہین دراصل قائد کی توہین ہے، قائد کی توہین عوام کی توہین۔

 

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran