لندن میں ہاشمی سرمہ، نلکیاں، تسبیحاں، چنگیر اور لوٹے


لندن وہ لفظ ہے، جو بچپن سے ہی آپ کے ساتھ چپک جاتا ہے۔ ہماری آزادی کی تحریک سے لے کر دنیا کی ایجادات، فیشن، بادشاہت، شاہی خاندان، ملکہ الزبتھ، تعلیم، آکسفورڈ، معیشت، ادب، جیمز بانڈ، ٹاور آف لندن، سینٹ مارگریٹ چرچ، سینٹ پاول کیتھڈرل، کیو گارڈنز، بیکنگھم پیلس، لندن آئی، لندن انڈر گراونڈ، یہ تمام چیزیں مل کر انگلینڈ کے سب سے زیادہ آبادی والے اس شہر کا ایک جادوئی اثر پیدا کر دیتی ہیں۔ میں خاص طور پر جرمنی سے کار چلاتے ہوئے یہاں پہنچا ہوں۔

میرے دوست نے مجھے ساؤتھ ہال لا کر اتارا ہے اور یہ براڈ وے روڈ ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا، میں خوشی اور حیرانی کی کیفیت میں ہوں۔ مجھے ایک دم لگ رہا ہے جیسے میں گوجرانوالہ کے کسی بازار میں آ گیا ہوں۔ فٹ پاتھ کے دائیں جانب اسٹار پلس ٹی وی کا ایک بڑا سا بینر لگا ہے، جس پر لکھا ہے، ’’اس پیار کو کیا نام دوں‘‘ جلد ہی آپ دیکھیں گے سوموار سے جمعے والے دن تک۔

شلوار قمیصیں، ساڑھیاں، دوپٹے، برقعے، لاسٹک سبھی کچھ فٹ پاتھ پر ہے اور ساتھ ہی ساتھ پانوں والی ایک دکان ہے۔ سڑک پر ڈبل ڈیکر بس آئی ہے، یہ بس لندن کی خاص پہچان ہے لیکن اس پر بھی امیتابھ بچن کی فلم کا اشتہار لگا ہوا ہے۔

پاکسانیوں اور سکھوں کی دکانیں ایک ساتھ ہیں اور ان میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ دکانداروں نے اونچی آوازوں میں گانے لگائے ہوئے ہیں۔ کبھی بھنگڑے اور کبھی عطاللہ عیسی خیلوی کی آواز آتی ہے۔ ساتھ ہی فٹ پاتھ پر ایک پنجابی پکوڑے نکال رہا ہے اور دکان میں نصرت فتح علی کا ”میرے رشک قمر“ لگا ہوا ہے۔

کپڑوں اور زیور والی دکانیں مکس ہیں۔ ایک سکھ دکاندار بڑے راز دارانہ انداز میں کہہ رہا ہے، باجی جی، پینتیس پاونڈ کی تو یہ ہماری اپنی خرید ہے۔ “ فٹ پاتھ پر لگے اسٹینڈز میں کھوسے، چپلیں، ہاشمی سرمہ، چنگیر، پاوں سے میل اتارنے والے پاکستانی لال پتھر، لوٹے، مگ سبھی کچھ پڑا ہوا ہے۔ فٹ پاتھ پر ہی سبز چائے کے اسٹال ہیں، وہیں پکوڑے اور سموسے اور جلیبیاں نکالی جا رہی ہیں۔ آلو والے، چیز والے اور قیمے والے نان تازہ مل رہے ہیں۔ میرے منہ میں پانی بھر آیا ہے لیکن میں نے سب سے پہلے قلفی خریدی ہے۔

سڑک پر میں نے بیس گاڑیاں گنی ہیں اور ان میں سے پندرہ گاڑیوں میں سکھ اور باقی میں بھی دیسی ہی تھے۔ مجھے ابھی تک اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ لوگ شلوار قمیصوں میں گھول رہے ہیں، پگڑیاں ہی پگڑیاں ہیں اور نیلے پیلے دوپٹے ہی دوپٹے۔

باجی جی دکان کے اندر آ جائیں، باجی جی میرے مال کی کوالٹی اچھی ہے۔ نلکیاں، تسبیحاں، لیس، پیکو، گول گپے، چنا چاٹ، دہی بھلے۔ ایک سکھ کی دوکان پر مجھے ایک مخصوص ’پنجابی پھل‘ نظر آیا ہے۔ میں اسے کوئی بیس برس بعد دیکھ رہا ہوں اور حیران ہوں کی یہ لندن تک کیسے پہنچ گیا۔ مجھے اردو میں اس کا نام تو نہیں پتا لیکن پنجابی میں ہم اسے ’’چبڑ‘‘ کہتے تھے۔ تربوزوں اور خربوزوں کے کھیت میں یہ بھی ساتھ اگ آتے ہیں۔

میں نے حیران ہو کر پوچھا ہے یار یہ کیا جگہ ہے، اس نے مسکراتے ہوئے کہا ہے، اے ”لندن“ جے جناب۔ اس سے پہلے میرے خواب کرچی کرچی ہوں، اس نے کہا ہے کہ ’دوسرا لندن‘ بھی دکھائے گا۔

مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ پان بھی کھاوں گا، جلیبیاں بھی، پکوڑے بھی اور آلو والے نان بھی۔ اور کیا پتا لوٹا، بھنڈیاں، ٹینڈے اور نرالہ والوں کی مٹھائی بھی خرید کر جرمنی لے جاؤں۔ آخر لندن آیا ہوں، شاپنگ تو بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).