خدا کرے سعودی عورت کو کوئی چھرا نہ گھونپ دے!


سعودی ولی عہد کا بیان سامنے آیا کہ ہم اپنی زندگی کے اگلے تیس برس تباہ کن خیالات سے نمٹنے میں نہیں لگائیں گے بلکہ ہم انہیں آج ہی تباہ کر دیں گے۔ ہم اپنی اصل کی طرف پلٹ رہے ہیں، یعنی ایک ایسا معتدل ملک جو دنیا کے تمام مذاہب کے لئے کشادہ دلی رکھتا ہو!
(عدنان خان کاکڑ کے آرٹیکل سے)

1975ء میں شاہ فیصل کے قتل کے بعد 20 نومبر 1979 میں جہیمان العتیبی اور اس کے ساتھ کا انتہا پسند گروہ خانہِ کعبہ پر جو مطالبات لے کر حملہ آور ہوا تھا، وہ سعودی عرب کو گویا بظاہر اسلام کے نام پر مگر دراصل قبل اسلام کے دور میں لے جانا چاہتا تھا۔ جہیمان اپنے اکثر ساتھیوں سمیت سزائے موت کے ذریعے اپنے انجام کو تو پہنچا مگر جس خارجی بیج کو وہ شاہ فیصل کے بعد تر و تازہ کر گیا اسی سے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے انتہا پسندوں نے جنم لیا۔ اب اس انتہا پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اور مغربی ممالک کے مسلسل دباؤ اور مشکل ہوتے معاشی حالات اور نئے اور جدید معاشی وسائل کی تلاش اور جدید دنیا کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے سعودی حکومت ایسے اقدامات کرنے جا رہی ہے جو شاہ فیصل کے دور میں اپنا راستہ بناتے بناتے کسی اور رُخ پر مڑ گئے۔

پہلا اقدام خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت کی صورت میں سامنے لایا گیا ہے۔ اس کے لیے خود سعودی خواتین اور خاص طور پر نئی نسل کی نوجوان لڑکیوں کی ایک خاموش کوشش بھی مطالبے کی صورت نظر آتی رہی ہے۔

مگر اندرونی منظر ایسا بھی نہیں ہے جیسا باہر بیٹھے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں یا جیسا مغرب بتا رہا ہے۔ اندر ہی اندر سعودی سماج جس تبدیلی سے گزرتا رہا ہے اور جتنا سفر طے کر آیا ہے، وہ بیج دراصل کسی اور کا بویا ہوا ہے۔

میری اپنی زندگی سعودی سماج کو بھی اتنا ہی قریب سے دیکھتے ہوئے گزری ہے، جتنا قریب سے میں نے پاکستانی سماج کو دیکھا ہے۔

پچھلے دنوں سعودی خواتین کے لیے ڈرائیونگ کے اجازت نامے کے ساتھ ہی مجھے بے اختیار عفت الثنیان یاد آ گئیں۔بچپن سے عفت الثنیان میرے لاشعور میں کہیں رچا بسا رہ گیا آئیڈیل کردار رہا ہے۔

1965 اور 1975 کے بیچ کی دہائی میں سعودی عرب کے سماج کو قریب سے دیکھتے ہوئے میرے کم عمر ذہن کا اس نام سے تعارف یوں تھا کہ عفت شاہ فیصل کی بیوی ہیں۔ سعودی عرب کے بااثر مولوی جو لڑکیوں کی تعلیم کے شدید مخالف ہیں، عفت ان کے سامنے ڈٹ گئی ہیں کہ سعودی عرب میں لڑکیوں کے اسکول اور کالج ضرور کھلیں گے۔ اس کے بعد جب سعودی عرب میں ٹیلی ویژن شروع کرنے کا معاملہ آیا تو بااثر مولویوں نے اس کے حرام ہونے کے فتوے جاری کیے۔ مگر عفت اس بار بھی ڈٹ گئیں کہ سعودی عرب میں ٹیلی ویژن ضرور آئے گا اور بلآخر ٹیلی ویژن لا کر چھوڑا۔

عفت الثنیان کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ میں نے اپنے بچپن میں مکہ مدینہ اور جدہ میں محلّے محلّے، قریہ قریہ لڑکیوں کے اسکول کھلتے دیکھے۔ ہر عمر کی لڑکیوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا جو اپنے اسکولوں کی طرف غول در غول جا رہا ہوتا تھا۔ گرے رنگ کے لمبے اسکرٹ، بالوں میں سُرخ ربن۔ دس سال کی عمر تک کی لڑکیاں عبا بھی نہیں پہنتی تھیں۔ بس سر پر سیاہ شیفون کا اسکارف کھلے کھلے انداز میں لپٹا ہوتا تھا۔ بہت چھوٹی لڑکیوں کے وہ بھی نہیں ہوتا تھا۔

دس سال سے بڑی لڑکیاں سیاہ گاؤن پہنتی تھیں اور بڑی لڑکیاں عبا پہنتی تھیں۔ مگر سب کے چہرے نقاب میں چھپے نہیں ہوتے تھے۔ بہت سے چہرے کھلے بھی ہوتے تھے۔ زرد رنگ کی اسکول بسیں دور کے گھروں سے لڑکیاں اٹھاتی تھیں۔ اسکول لگنے اور چھٹی کے اوقات میں ہر طرف یہ لڑکیاں گروپس کی صورت میں دکھتی تھیں۔ ایسا دکھتا تھا جیسے شہر بھر کی لڑکیاں سڑکوں پر نکل آئی ہوں۔ لڑکیوں کے ان گروپس کے پیچھے کوئی مولوی یا پہریدار بھی نہ دکھتا تھا۔

وہ تمام لڑکیاں اتنی خوبصورتی سے، اجلے اجلے کپڑوں میں ملبوس، بالوں میں سُرخ ربن کے ساتھ تیار ہوئی ہوتی تھیں جیسے ان سب کو ایک ہی سگھڑ ماں نے تیار کیا ہو! اور وہ ایک ہی سگھڑ ماں تھی شاہ فیصل کی پہلی بیوی عفت الثنیان۔ سنا تھا کہ طالبات کا یونیفارم بھی انھوں نے ہی ڈزائین کیا تھا۔

صرف لڑکیاں ہی نہیں، خواتین کے لیے تعلیمِ بالغان کی کلاسز ہوتی تھیں اور ہماری کئی جاننے والی خواتین وہاں پڑھنے جایا کرتی تھیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد غریب اور حبشی خواتین کی تھی۔ ان سب کے تعلیمی اخراجات بمع کتابیں، اسٹیشنری، یونیفارم، اسکول بیگ اور کھانے کے اوقات میں ناشتہ اور لنچ تک حکومت برداشت کرتی تھی۔ بلکہ تعلیم بالغان کی کلاسز میں پڑھنے والی خواتین کو معاوضہ بھی دیا جاتا تھا۔ میرے بچپن میں سعودی عرب کے لوگوں میں عفت کے زکر نے اسے میری زندگی کی پہلی رول ماڈل عورت بنا دیا۔

ایک ایسی عورت جو اپنے وقت کے ان علماء کے آگے ڈٹ گئی جن سے حکومت بھی ڈرتی تھی۔ ان دنوں کی سعودی لڑکیاں اور خواتین عفت سے بہت پیار کرتی تھیں۔ بہت سی عورتوں اور لڑکیوں نے انہیں دیکھا بھی تھا۔ کیونکہ وہ اکثر گرلز اسکولوں اور کالجوں کی غیرنصابی سرگرمیوں میں شریک ہوتی تھیں۔ گریجویشن کی تقریبات میں تو ان کی شرکت بہت ہی لازم ہوتی تھی۔ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں ان کی براہِ راست دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ وہ اس کے لیے پورا سعودی عرب گھومتی تھیں اور ہر شہر اور قصبے کا اسکول وزٹ کرتی تھیں۔

میں بھی سنا کرتی تھی کہ وہ ایسی باوقار دکھتی ہیں! ایسے بولتی ہیں۔ طالبات کی کامیابی پر کس طرح خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔ کس طرح ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ کیسے ترکی لہجے میں عربی بولتی ہیں۔ فرینچ زبان بھی فر فر بولتی ہیں اور لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ تب سعودی عرب میں انگریزی سے زیادہ فرینچ زبان کی اہمیت تھی۔ اسکولوں میں فرینچ لازمی طور پر پڑھائی جا رہی تھی۔

عفت 1916 میں ترکی میں پیدا ہوئیں اور ترک ماں باپ کی اولاد تھیں۔

ان کے والد عثمانی فوج میں شامل تھے۔ عفت نے استنبول ہی میں تعلیم حاصل کی۔ باپ فوجی خدمات کے دوران مارا گیا اور عفت کی پرورش انتہائی غربت میں ہوئی۔ ایسی غربت کہ طالبات کو اپنی تقریروں میں خود بتاتی تھیں کہ وہ پھٹے اور چبھتے جوتوں میں کاغذ بھر کر اسکول پہن کر جاتی تھیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد استنبول کے کسی اسکول میں پڑھانے لگیں۔

سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مکہ آ گئیں۔ عفت کے پردادا عثمانیہ دور میں ریاض کے گورنر رہے تھے۔ مکہ آئیں تو پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے عفت کو مکہ میں حاجیوں کے معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اسی دوران سعودی عرب کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ فیصل سے عفت کی ملاقات ہوئی جو فوری طور پر شادی کے بندھن کا سبب بنی۔ یقیناً وہ ایک نظر میں متاثر کرنے والی شخصیت کی مالک ہوں گی!

عفت کے بیٹوں نے harvard، cranwell اور princeton جیسی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور بیٹی کو اس نے سوئزرلینڈ سے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔

1943  میں عفت الثنیان طائف میں انھی آلِ سعود کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بورڈنگ اسکول کی بنیاد ڈال چکی تھیں جس کا مقصد دراصل آلِ سعود کے بیٹوں اور بیٹیوں کو دورِ جدید کی تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ آج یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکمرانوں کے بچوں کا جدید دور کی تعلیم سے آشنا ہونا خود ان کے ملک کی فلاح کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے!

موجود معلومات کے مطابق 1967 میں ریاض میں انہوں نے باصلاحیت خواتین کی سوسائٹی کی بنیاد ڈالی جو Saudi Renaissance Movement  کہلائی گئی، جس کے پلیٹ فارم سے سعودی عرب کی عام عورت کے لیے صحت اور تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی جاتی تھیں۔ 1960 کی دہائی میں ہی عفت نے جدہ اور ریاض میں women’s welfare  association  کی بنیاد ڈالی۔

1955 میں عفت نے ذاتی طور پر سعودی عرب کا پہلا پرائیویٹ گرلز اسکول دارالحنان جدہ میں کھولا اور اپنی بیٹی کو بھی اس میں داخل کروایا تاکہ عام لوگ اپنی بچیوں کو اعتماد کے ساتھ اسکول بھیجیں۔ دارالحنان میرے بچپن کی یادوں میں آج تک بسا ہوا ہے۔ دار الحنان میں یتیم لڑکیوں کے لیے خاص طور پر تعلیم اور بورڈنگ کا انتظام کیا گیا تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ یہ اسکول جو عفت کی اپنی بیٹی سمیت 15 طالبات کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، 1999 میں عفت الثنیان کی وفات سے کچھ پہلے یونیورسٹی کے درجے تک پہنچ چکا تھا اور آج بھی ایک بڑی یونیورسٹی کی صورت میں جامعہ عفت کے نام سے موجود ہے۔

60 کی دہائی میں ہی عفت نے ریاض میں پہلا گرلز کالج شروع کیا۔ ریاض سے ہی انہوں تعلیمِ بالغان کے پروگرام کے تحت ان پڑھ عورتوں کی تعلیم کا کام شروع کیا۔ ریاض سے ہی خواتین کے لیے کمیونٹی کالجز کی ابتدا کی اور پہلا کمیونٹی کالج کھولا۔
17 فروری 2000 میں عفت ایک آپریشن کے بعد انتقال کر گئیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah