خدا کرے سعودی عورت کو کوئی چھرا نہ گھونپ دے!  (2)


برسوں پہلے میری ایک سعودی دوست کی شادی تھی اور وہ 1980 کی دہائی تھی۔ تب پتہ چلا کہ لڑکی کو قاضی کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور حلفیہ بتانا پڑتا ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی نہیں ہو رہی۔ اور یہ کہ اس نے لڑکے کو دیکھا بھی ہے اور پسند بھی کیا ہے۔

سعودی سماج میں بوڑھی اور بیوہ عورت کا کسی سے بھی نکاح کرنا معیوب بات نہیں سمجھی جاتی اور اکثر اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، جنہیں ان عورتوں کی اولاد بھی قبول کرتی ہے اور اس بات کو ان کا شرعی حق سمجھتی ہے۔

مغرب جہاں مسلمان عورت کی آزادی کو بکنی کے ساتھ مشروط کر رہا ہے کہ جب تک وہ بکنی نہیں پہنے گی تب تک آزاد نہیں سمجھی جائے گی اور خود ہم لبرلز بھی اکثر لفظ بکنی بظاہر حذف کرکے ان کے ہم آواز ہو جاتے ہیں مگر جب انھی سعودی لڑکیوں سے برقع پر بات کرو تو وہ اپنے قرآنی اور تہذیبی دلائل کے ساتھ اپنے برقعے کا تحفظ کرتی ہیں۔

گو کہ بہت سی سعودی عرب سے باہر برقع چھوڑ کر گاؤن اور حجاب لے لیتی ہیں اور کئی ایسی بھی ہیں جو سعودی عرب سے باہر برقع یا عبا یا گاؤن بھی نہیں لیتیں۔

مگر یہ برقع یا عبا اپنی جگہ، سعودی عورتوں اور لڑکیوں کا لباس مکمل طور پر مغربی انداز کا ہے۔ یورپ اور امریکہ سے ہی درآمد شدہ ہے۔ بہت ہی بیباک لباس بھی عام ہے۔ عمومًا پیرس کا فیشن اپناتی ہیں اور فیشن سے متعلق الفاظ فرانسیسی زبان سے عربی لہجے میں مستعار لیے ہوئے ہوتے ہیں۔

منی اسکرٹ اور ٹائٹ پینٹس off shoulder، low neck اور backless dresses کے ساتھ ساتھ سلیوِلیس بلاؤز اور گھر میں ایک نفیس سی نائٹی ان کا معمول کا لباس ہے۔ گو کہ اس لباس کا استعمال گھر میں بھی اور خواتین کی محفلوں میں بھی عام ہے مگر اس کے لیے گھروں میں ایک خوبصورت رواج ہمیشہ سے قائم ہے جو اس طرح کا لباس اپنانے سے بھی پہلے کا ہے۔

گھر میں اگر صرف شوہر اور بیوی ہیں تو پھر کوئی حدبندی نہیں، لیکن اگر گھر میں بیٹیاں جوان ہیں اور جوان بھائی بھی ہیں تو کوئی بھی مرد اپنے ہی گھر میں بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتا۔ جب داخل ہوتا ہے تو اپنے کمرے تک جاتے ہوئے یا گھر کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے اونچی آواز میں یااللہ یااللہ یااللہ کہتا ہوا جائے گا تاکہ گھر کی خواتین اپنی پرائیویسی کا خیال رکھ سکیں۔ بھائیوں اور باپ کے سامنے آتی ہیں تو پھر یا تو لباس بدل لیں گی یا پھر وہی عبا اس لباس پر اوڑھ کر ان کے سامنے آئیں گی۔

اسی پرائیویسی کے خیال سے سعودی عرب کے ہر طبقے میں اس کی مالی اسطاعت کے مطابق لازم ہے کہ شادی سے پہلے ہی لڑکا اپنے لیے علیحدہ گھر کا انتظام کرے جہاں آنے والی دلہن کو مکمل پرائیویسی میسر ہو۔ اس لیے وہاں اپارٹمنٹ سسٹم بہت زیادہ ہے۔ مالی طور پر مستحکم لوگ گھر عمارت کی صورت بنواتے ہیں جس کے ہر فلور پر ہر ایک بیٹے کا علیحدہ گھر ہوتا ہے۔ والدین عموماً نچلی منزل پر رہتے ہیں۔

شادی سے پہلے لڑکے کو اپنا گھر خود سجانا اور بھرنا ہوتا ہے۔ لڑکی جہیز میں فرنیچر اور گھر کا سامان نہیں لاتی۔ لڑکے کی طرف سے پہلے سے ہی معجل مہر ادا کر دیا جاتا ہے۔ عموماً غریب والدین بیٹی کو اسی میں سے کچھ نہ کچھ بنا کر دیتے ہیں۔

مرد کی کثرت سے شادیوں کا معاملہ بھی اپنی جگہ موجود ہے مگر میرے لیے یہ بات بہت دلچسپ ہو جاتی ہے جب کسی کی پہلی بیوی شوہر کی دوسری بیوی کے شرعی حق کی بات کرتی ہے اور اگر شوہر کسی بیوہ سے شادی کرے تو وہ اس بیوہ کے حق کی محافظ بنی دکھتی ہے۔

معاشرہ اب اس جگہ کھڑا ہے جہاں ساس اپنی بہو کے معاملات میں دخل اندازی کا سماجی حق نہیں رکھتی۔ ساس نچلی منزل پر علیحدہ گھر میں رہتی ہے مگر ماں کی خدمت بیٹے کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ماں کے معاملے میں سماج بہت حساس ہے اور مذہبی طور پر حساس ہے۔

شادی کی محفل میں زنان خانہ الگ اور مردان خانہ الگ ہوتا ہے۔ آج تو بڑی بڑی اور جدید قسم کی مارکیاں اور شادی ہال بنے ہوئے ہیں۔ زنان خانے میں ہمارے ملک کی طرح ہی موسیقی کی محفل سجتی ہے جس میں مغربی انداز میں ملبوس رشتہ دار لڑکیاں اور سہیلیاں بیلی ڈانس وغیرہ بھی پوری آزادی سے کرتی ہیں۔ شادی بھی مغربی انداز کی ہوتی ہے۔ لڑکی مغربی طرز کا سفید لباس پہنتی ہے۔ چہرے پر اسی طرح سفید باریک جالی کا نقاب ہوتا ہے۔ وہی اس کا گاؤن پیچھے سے تھامے ہوئے سفید خوبصورت فراک میں ملبوس بچیاں۔ وہی سفید پھول۔ ایک بڑا سا کیک جسے دونوں نے سب کے بیچ کاٹنا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو کھلانا ہوتا ہے۔

دولہا روایتی سعودی لباس پہنتا ہے۔ دولہا بھائیوں اور باپ کے ساتھ اندر آتا ہے۔ ان کے آنے کے اعلان کے ساتھ ہی شادی میں شریک لڑکیاں اور خواتین اپنے عبا اوڑھ کر ایک طرف ہو جائیں گی اور صرف دونوں طرف کے گھر کی خواتین سامنے رہیں گی۔ گو کہ وہ بھی خود کو عبا سے ڈھانپ چکی ہوں گی۔

پردے کی وجہ سے ہی سعودی عرب میں لڑکیوں کا فوٹوگرافی کے پروفیشن میں بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ وہی زنان خانے کی فوٹوگرافی کرتی ہیں اور ان کی وڈیوز اور البم بناتی ہیں۔ ہاں دولہا دلہن کے پوز بھی وہی لیتی ہیں، جس کے لیے ظاہر ہے کہ انہیں دولہا لے سامنے کھلے منہ ہی کھڑے ہونا ہوتا ہے۔ خواتین نے گھروں میں بیوٹی پارلرز کھول رکھے ہیں۔ مگر دلہن کا لباس جو انتہائی مہنگا ہوتا ہے، بہت سے لوگ وہ لباس صرف ایک رات کے لیے کرائے پر بھی لیتے ہیں، کیونکہ وہ صرف ایک رات کا لباس ہوتا ہے۔

انگریزی زبان بھی اب بہت زیادہ بولی جاتی ہے۔ ہر طبقے کی لڑکیوں میں نوکری کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ بلکہ فارغ بیٹھی لڑکی کو کچھ زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ محفل کی گفتگو اکثر یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ پڑھتی کیا ہو اور کام کیا کرتی ہو؟ لڑکیوں کی مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے جدہ اور ریاض جیسے بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں بہت ہی اعلیٰ معیار پر بورڈنگ کا انتظام رکھا گیا ہے، جن کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

امیر سعودی خواتین میں بہت رجحان ہے کہ وہ ان یونیورسٹیوں میں متوسط اور غریب طبقے کی ان لڑکیوں کے تعلیمی اور تعلیم کے دوران زاتی اخراجات برداشت کرتی ہیں جو اپنا اچھا تعلیمی رکارڈ رکھتی ہوں۔ اس کے لیے ایسی امیر خواتین خود یونیورسٹی اور کالج جا کر انتظامیہ سے بات کرتی ہیں اور انتظامیہ انہیں ایسی لڑکیوں کے نام دیتی ہے۔

میں نے ایسی لڑکیوں سے یہ بھی سنا کہ انہیں خود نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے اخراجات ادا کرنے والی خاتون کون ہے کہ وہ اس کا شکریہ ادا کریں۔ بس انتظامیہ بتا دیتی ہے کہ آپ کے اخراجات کوئی اور خاتون ادا کر رہی ہیں۔ باقی کا معاملہ خاتون اور انتظامیہ کے بیچ ہوتا ہے۔

مگر بیرون ملک کی اسکالرشپ اکثر حکومت دیتی ہے۔ یہاں حکومت ایک رخنہ ڈالتی ہے کہ لڑکی کے ساتھ بھائی یا شوہر بھی جائے۔ لڑکی کی خاطر اس بھائی یا شوہر کے بھی اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ عموماً وہ بھی اپنے لیے مزید تعلیم کا انتظام کر لیتے ہیں۔

وہاں بھی لو میرج ہوتی ہے۔ عشق اور رومانس ہر دور اور ہر سماج میں اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اب تو رابطے بہت ہی آسان ہیں۔ یہ بتانا بھی معیوب نہیں کہ ہماری لو میرج ہے۔

سعودی ٹیلی ویژن گو کہ خود ڈرامہ وغیرہ کے فن میں زیادہ آگے نہیں جا سکا مگر ترکی، مصری اور لبنانی ڈرامے باقاعدہ دکھائے جاتے ہیں جو خاصے رومینٹک ہوتے ہیں۔  ہم نے جن ترکی ڈراموں کو پہلی بار خوشگوار حیرت سے دیکھا تھا، سعودی عرب ہم سے پہلے دیکھ چکا تھا۔ وہاں بھی یہ ڈرامے بس اتنا ہی سینسر ہوتے ہیں، جتنے ہمارے ہاں۔

گو کہ ہمارے یہاں کے سوشل میڈیا پر سعودیوں کی اپنی غیر ملکی ملازماؤں پر ظلم و ستم کی کہانیاں اکثر پڑھنے کو ملتی ہیں مگر مجھے اس سماج کا ایک منظر بہت ہی پسند ہے کہ امیر و کبیر سعودی خواتین کے ساتھ ان کی حبشی اور غیر ملکی ملازماؤں کو ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا دیکھتی ہوں۔ ایک ہی گلاس میں پانی پیتا دیکھتی ہوں۔

اس سماج کا ایک اور رواج بہت خوبصورت ہے کہ جب امیر خواتین سونے کی خریداری کرتی ہیں تو اپنی ملازمہ کو سونے کا کچھ نہ کچھ دلاتی ہیں کہ حکم ہے کہ جو پہنو ویسا ہی نوکر کو پہناؤ۔ جو کھاؤ وہی اسے کھلاؤ۔

عبا میں ڈھکا ہوا سعودی سماج کبھی کبھی مجھے اپنے سماج سے بہتر دکھتا ہے۔ زنا کی سزا سنگسار تو ہے مگر اس طرح کے واقعات دکھتے نہیں۔ لڑکیاں زندہ جلائی نہیں جا رہیں ابھی۔ اور مائیں ابھی بے گھر ہو کر سڑکوں کی خاک چھانتی ہوئی نہیں دکھتیں۔ جان چھڑانے کے لیے طلاق کا دروازہ کھلا ہے مگر نوبیاہتا بیوی کا گلا گھونٹنا نہیں پڑتا۔ طلاق کے کیس میں عورت برسوں عدالت کے دروازے نہیں کھٹکھٹاتی۔ کئی جرائم ہوتے بھی ہیں مگر لڑکی اغوا نہیں ہوتی۔ گینگ ریپ نہیں ہوتی۔ ہاں عرب مرد دل لگی ضرور کرتا ہے۔ ایسا دل لگی کا ایک واقعہ بہت برس پہلے میں نے جدہ ائرپورٹ پر دیکھا تھا۔ ہم بس میں لاؤنج سے جہاز کی طرف جا رہے تھے۔ ایک بوڑھا عرب ایک عرب لڑکی کو للچائی نظروں سے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ لڑکی کا چہرہ شیفون کے نقاب سے دکھ رہا تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں بڈھے کو ایک تھپڑ دے ماروں۔

بلآخر وہ لوگوں کے بیچ میں لڑکی سے مخاطب ہوا کہ مجھ سے شادی کرو گی؟
لڑکی نے بڑے سکون سے انکار میں سر ہلا کر کہا کہ نہیں۔
بوڑھے نے کہا میرے پاس بہت دولت ہے۔
لڑکی نے کہا میرا رشتہ ہو چکا ہے۔
بوڑھے نے مایوسی کے ساتھ اچھا کہا اور نظر پھیر لی۔

میرا دل تھا کہ بوڑھے کو کہوں کہ تیری بیٹی نہیں ہے؟
مگر لڑکی نے نہیں کہا تو میں کیا کہتی۔

میں نے اپنی ایک عرب دوست سے جب اس بات کا ذکر کیا تو اس نے بڑے آرام سے کہہ دیا کہ اس نے رشتے کی بات کی تھی نا۔ یہ تو کوئی گناہ نہ ہوا۔

ایک اور واقعہ مجھے اکثر یاد آتا رہا ہے۔ مسجد نبوی کے دروازے کا ایک بدّو دربان تھا جس کے ساتھ میں پورا بچپن کھیلتی رہی تھی۔ پھر وہ کہیں چلا گیا۔ دوبارہ جب ملا تو میں جوان ہو چکی تھی۔ مسجد نبوی کے سامنے سڑک پر ایک دن اس نے مجھے دیکھ لیا۔ مجھے آوازیں دیتا، دوڑتا ہوا آیا اور خوشی سے کھلتے ہوئے میری اور اماں اور بابا کی خیر و عافیت پوچھنے لگا۔ اچانک ایک پولیس والا کہیں سے آ گیا۔ عبدل کو اس نے بازو سے دبوچ کر پوچھا کہ اس لڑکی سے کیوں بات کر رہے ہو؟

عبدل گھبرا گیا۔
میں نے کہا کہ میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ آج بہت سالوں بعد اس نے مجھے دیکھا ہے اس لیے ہم بات کر رہے ہیں۔

پولیس والے نے کہا کہ قسم کھاؤ کہ تم اسے جانتی ہو۔ کیونکہ یہ بدّو ہے اور تم پاکستانی۔
میں نے کہا واللہ میں اسے جانتی ہوں۔
پولیس والے نے عبدل کا بازو چھوڑ دیا اور چلا گیا۔

آج سوچ رہی ہوں کہ خدا کرے اب جب سعودی لڑکیاں اپنی اپنی گاڑیاں لے کر سڑکوں پر آئیں گی تو کوئی راستے میں انہیں روک کر چھرا نہ گھونپ دے!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments