کمزور لمحوں کا کفارہ


ہماری مرحومہ والدہ دُعا مانگا کرتی تھیں، ’’یا اللہ ہم کمزور اور تیری آزمائش بہت کڑی۔‘‘ پھر چند لمحوں بعد کہتیں، ’’یا اللہ ہمیں کسی امتحان میں نہ ڈالنا۔ کمزور لمحوں کا کفارہ بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘ بچپن میں یہ دُعا سمجھ نہ آتی۔ زندگی میں تلخ تجربات سے گزرنے پر احساس ہوا کہ کمزور لمحات میں اصول ارزاں ہو جاتے ہیں۔ آزمائش کا طوفان اپنے پیچھے صرف پچھتاوے چھوڑ جاتا ہے اور اہلِ دل ان پچھتائوں کے بوجھ تلے سسکتے رہتے ہیں۔

آزمائش کی گھڑی، انسانوں کے علاوہ اداروں پر بھی آتی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کو کہا جاتا ہے کہ آئین پاکستان کو بھول کر پی سی او کے تحت نیا حلف اٹھائیں۔ اہلِ دل کیلئے یہ عمل سوئی کے ناکے سے نکلنے کے مترادف ہے۔ یہی نازک لمحے آزمائش ٹالنے کی دعا یاد دلاتے ہیں۔ ’’یا اللہ ہم کمزور اور تیری آزمائش کڑی۔‘‘ سب کچھ دائو پر لگ جاتا ہے۔ منصب کا تزک واحتشام، معاشرے میں احترام اور باعزت روزگار، ان سب کو قائم رکھنے کیلئے نظریۂ ضرورت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ دوسری صورت انکار کی ہے۔ یہ مشکل فیصلہ نیک نامی کا باعث بنتا ہے مگر ایک انحطاط پذیر معاشرے میں جلد یا بدیر نیک نامی کی روشنی دھندلی اور زندگی آہستہ آہستہ گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔

عدالتی جواز کے بعد غیر آئینی حکومت اپنے دوام کے طریقے سوچتی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کی نئی آزمائش شروع ہوتی ہے۔ ایک دفعہ پھر حالات کا جبر۔ ’’انسان کمزور اور آزمائش کڑی۔‘‘ مجبوریاں جیت جاتی ہیں اور پھر آئین میں ترمیم، قوانین تبدیل، کبھی ریفرنڈم ہوتا ہے اور کبھی غیر سیاسی انتخابات۔ مستقبل کی پیش بندی کےلئے 58-2B کا نیا ہتھیار اور آئین کے آرٹیکل62 اور63 میں ترمیم، مگر ستم ظریفی کی کوئی حد نہیں۔ اختیارات کی منتقلی اس امر سے مشروط ہوتی ہے کہ نئی اسمبلی پہلے غیر آئینی ترامیم کو قانونی تحفظ دے۔
چند روز پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے آرٹیکل 62(1)(f) کے پس منظر کو کھنگالنے کی ضرورت پر اظہارِ رائے کیا۔ ان کا ارادہ بہت خوش آئند ہے۔ جناب ثاقب نثار نہایت زیرک قانون دان ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں ہمارے ہم عصر تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج میں بھی اپنے بے تکلف مزاج، ہمدرد رویے اور سمجھداری کی بناء پر پہچانے جاتے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اسی بنچ کے ایک اور رکن، جسٹس عمر عطا بندیال کی قابلیت کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھا اور وہ گورننگ بورڈ کے رکن۔ ایک وکیل کی حیثیت سے بھی قانون پر ان کی گرفت اور سوچ کی سچائی سب کو متاثر کرتی تھی۔

طالب علمی کے دوران کھوسہ برادران ہوسٹل میں ہمارے ساتھ تھے۔ ان کی تعلیمی قابلیت کی بہت دھاک تھی۔ طارق کھوسہ نے پولیس سروس اور ناصر کھوسہ نے ڈی ایم جی میں بہت نیک نامی کمائی۔ پاکستان کے اندرونی تحفظ پر طارق کھوسہ کی کتاب”The Faltering State” (لڑکھڑاتی ریاست) چند دن پہلے منظرِ عام پر آئی ہے۔ عارف کھوسہ انجنیئر بنے تو آصف سعید کھوسہ میٹرک، ایف اے اور بی اے میں اول آئے۔ انہوں نے اپنے لئے قانون کا شعبہ منتخب کیا۔ آصف سعید کھوسہ نے جج بننے سے پہلے1988ء کے دوران پاکستان لاء ڈکشنری میں2مارچ 1985ء کو آئین کے آرٹیکل62 اور63 میں کی گئی ترامیم پر ایک مفصل مضمون لکھا۔ نیک نیتی سے لکھا گیا، انتیس (29) سال پرانا مضمون بہت جامع اور پر اثر ہے، مگر قارئین ذیل میں دیئے گئے چند حصے پڑھ کر بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی علمی قابلیت اور قانون پر دسترس کے قائل ہو جائیں گے۔ انہوں نے اس وقت لکھا:
“The amended Article 62 of the constitution uses such pharasiology and terminology which creates confusion in the minds of citizens and may produce nightmares for lawyers and courts.”

(ترمیم شدہ آرٹیکل 62میں ایسی اصطلاحات اور اسلوب بیان شامل ہے جو شہریوں کے دلوں میں الجھن اور غلط فہمی پیدا کرے اور وکیلوں اور عدالتوں کیلئے (اس پر عمل کرنا) ایک ڈرائونا خواب ثابت ہو۔)
الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کےلئے ’’صادق‘‘ اور’’امین‘‘ کی شرط کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے آصف سعید کھوسہ لکھتے ہیں:
“But instead of being idealistic, the constitution of the country should be more practicable. The line of prophethood has been discontinued and now we are left with sinful mortals. The political arena in our country is full of heavy weights, whose social and political credentials outweigh their moral and religious credentials. Even the electorate in our country have also demonstrated their preference for practical wisdom and utility over religious puritanism.”

(آئین، آئیڈیل کی تلاش، کی بجائے عملی ہونا چاہئے۔ نبی آخرالزمان ﷺ کے بعد آئندہ کےلئے نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اب تو گنہگار اور فانی انسان ہی باقی رہ گئے ہیں۔ سیاسی میدان میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو مذہبی بنا پر نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی لحاظ سے قدآور ہیں بلکہ رائے دہندگان نے عملی فہم کو مذہبی طور پر خالص ہونے پر ترجیح دی ہے۔)
ان خیالات کے اظہار کے ساتھ جسٹس آصف کھوسہ مندرجہ ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
“So, why to have such requirements in law, nay the constitution which cannot even be defined, not to talk of proof.”
(اس لئے، قانونی ضابطے،بلکہ آئین میں، (عوامی نمائندگی کے لئے) ایسی شرائط کیوں شامل کی جائیں جن کا ثبوت تو درکنار، وضاحت بھی ممکن نہ ہو۔)

آرٹیکل 62اور 63کے بارے میں جسٹس کھوسہ کے خیالات سے پاکستان تحریک انصاف کے قابل احترام سربراہ جناب عمران خان بھی متفق نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر مشہور ہندوستانی صحافی کرن تھاپر(Karan Thapar) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، جو ایک انگریزی اخبار میں رپورٹ ہوا :
“It was…… ridiculous to invoke Article 62 and 63 of the constitution……. In my opinion, I can take out the entire assembly on Article 62 and 63 becuase you literrally have to be an angel to pass that……”
(آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو لاگو کرنا، ایک احمقانہ قدم ہو گا۔ میرے خیال میں پوری اسمبلی آرٹیکل 62 اور63کی زد میں آسکتی ہے، کیونکہ ایک فرشتہ ہی اس معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔) اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے محترم سینیٹر جناب فرحت اللہ بابر کا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل62 اور 63کو اپنی اصل صورت میں بحال ہونا چاہئے۔

راقم الحروف کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہے۔ نہ میں کوئی آئینی ماہر ہوں اور نہ مجھے اپنی عقل اور فہم پر ناز ہے۔ میری دلچسپی، سیاسی شخصیات یا سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے نہیں بلکہ قومی اداروں اور جمہوری نظام کے استحکام سے جڑی ہے۔ نواز شریف کے بارے میں فیصلہ، تاریخ کا حصہ بن چکا۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کا مقدمہ ابھی زیرِ سماعت ہے۔ پتا نہیں اب کسے نااہلی کا طوق گلے میں ڈال کر، کوچۂ سیاست سے کوچ کرنے کا حکم ملے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آئندہ بھی غیر آئینی حکمران کی لٹکائی ہوئی تلوار سیاسی قیادت کے سر پر اپنا سایہ قائم رکھے گی۔ اسی حوالے، امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جان مارشل کے بارے میں پڑھا۔ جسٹس مارشل، امریکہ کے چوتھے چیف جسٹس تھے۔ کئی مشہور فیصلوں کے ذریعے، مرتب کئے گئے اصول ان کی دائمی شہرت کا باعث بنے۔ انہوں نے Marbury vs Madisonکے فیصلے کے ذریعے یہ اصول مرتب کر دیا کہ پارلیمنٹ سے آئین کی منظوری اور نافذ العمل ہونے کے بعد، آئین کی بنیادی روح سے متصادم، نئی قانون سازی کالعدم قرار پائے گی۔

اس فیصلے کے مضمرات پر غور کرتے میری آنکھ لگ گئی۔ ایک آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ’’یااللہ ہم کمزور بندے اور تیری آزمائش سخت۔ ہمیں کسی امتحان میں نہ ڈالنا۔ ہم کمزور لمحوں کا کفارہ کیسے ادا کریں گے۔‘‘ پھر ایک اور بارعب آواز سنائی دی۔ ’’کفارہ ادا ہو سکتا ہے۔‘‘ شاید جسٹس جان مارشل بول رہے تھے۔ ’’غیر آئینی حکومت کی ترامیم، جن کی توثیق پارلیمنٹ نے دبائو کے تحت، جمہوریت بحالی کےلئے کی تھیں، انہیں کالعدم قرار دیاجاتا ہے۔ وہ ترامیم پارلیمنٹ کو بھیجی جائیں کہ وہ چاہے تو آزاد ماحول میں انہیں دوبارہ منظور کرلے۔‘‘ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر رعب دار آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ ’’کمزور لمحوں کا کفارہ اسی طرح ادا کیا جا سکتا ہے۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood