موت کے ہاتھ میں قوت فیصلہ؟


\"dr.

حضرت علیؓ کی زرہ چوری ہوئی اور ایک یہودی سے مل گئی۔ اس وقت آپ سے معتبر شخص کوئی تھا؟ نہیں۔
لیکن آپ نے ڈائریکٹ جا کے یہودی سے زرہ چھینی؟ نہیں۔
آپ نے خود کوئی اقدام کرنے کی بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے بڑے جب کوئی بات وجہ نزاع بنتی تھی تو قانون اور عدالتوں کو اپنی ذاتی رائے پہ فوقیت دے دیتے تھے اور اس میں حکمت بھی تھی کہ فیصلہ اگر عدالت سے ہو تو دوسری پارٹی کو کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہیں ملے گا۔
اور آج کسی شخص نے چوری کی یا نہیں، فراڈ کیا یا نہیں، اس بات کا فیصلہ ھم عدالت سے کرواتے ہیں اور یہ نسبتاً چھوٹے جرائم ہیں، انکی کی سزا موت نہیں ہے۔
دوسری طرف گستاخی رسول ہمارے ہاں بہت بڑا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔
سلمان تاثیر نے گستاخی کی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا بھی عدالت کا کام تھا۔
کوئی شخص گستاخ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ میں یا آپ کریں گے؟
اور آپ کیا چاہتے ہیں کہ فیصلہ محلے کے مولوی کے ہاتھ میں دے دیا جائے؟ اچھا اگر ایسا ہے تو یاد رکھیے کہ ہر فرقے کا مولوی دوسرے فرقے کو واجب القتل سمجھتا ہے۔ میری بات کا یقین نہیں آتا تو یو ٹیوب پہ دیکھ لیجیے کتنے مولوی جنید جمشید کو واجب القتل قرار دے چکے ہیں۔ قتل کے فتوؤں کی اتنی ویڈیوز ھیں ایک دوسرے کے خلاف کہ آپ گنتے گنتے تھک جائیں گے پر یہ ویڈیوز ختم نہیں ہوں گی۔
گلی محلے کے ان مولویوں کی ذہنی استعداد یہ ہے کہ جناب ان کی نظر میں ایک وقت میں قینچی چپل، لاؤڈ سپیکر، ٹی وی بھی حرام تھے۔
ہاں یہ درست ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں بے تحاشا خامیاں اور خرابیاں ہیں اور ان خامیوں کے دور کرنے پہ کام ضرور ہونا چاہیے لیکن ان تمام کمیوں کے باوجود ہر گلی کے مولوی کے ہاتھوں میں قوت فیصلہ تو پھر انجام نری تباہی ہے۔
اور پھر دوبارہ آخر میں کون گستاخ ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت کے پاس ہے اور کسی کے پاس نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments