کریم، اوبر ہمارے ڈرائیورز ہیں، بوائے فرینڈز نہیں


انسان فطری طور پر آزاد پیدا ہوا ہے۔ عورت اور مرد برابر ہیں۔ مگر بہت ساری فرسودہ روایات کے قصے اور کہانیاں جوڑ کر مردوں کی حکمرانی کو قائم و دائم رکھا گیا ہے تاکہ عورت اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہوئے مرد کی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ وقت کے ساتھ خواتین نے ان فرسودہ روایات کے من گھڑت قصوں کو جھوٹا ثابت کر کے اپنے نام کا لوہا منوایا ہے کہ عورت کسی بھی لحاظ سے مردوں سے کم نہیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود خواتیں مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ گھر داری کی ذمہ داری بھی بخوبی نبھا رہی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں زیادہ تر خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو مردوں کے ثوابدید میں شامل ہیں۔ جیسا کہ جائیداد میں اکثر خواتین کو اپنے حصے سے محروم کیا جاتا ہے۔ اور اسی طرح سیکڑوں گھروں میں ابھی بھی بہن پر بھائی کی حکمرانی قائم ہے۔ اگر بھائی دوسری لڑکیوں سے بات کرے تو کوئی بات نہیں مگر بہن کرے تو وہ آوارہ اور بد کردار تصور کی جاتی ہے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کی طالبات کا ہے جن کے لیے آئے روز انتطامیہ کی طرف سے نئے نئے ہدایت نامے جارے کیے جاتے ہیِں، جیسا کہ ایک کمبل میں دو لڑکیاں نہیں سو سکتی، اور ان کے بیڈ بھی فاصلے کے ساتھ رکھے جاتے ہیں اور جینز، کیپری، شارٹ شرٹ، جیولری کا استعمال ممنوع ہے۔ وہ صرف (اسلامی لباس؟) شلوار قمیص پہن سکتی ہیں۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی وہ یونیورسٹی ہے جہاں پر لڑکیوں کا کیمپس الگ ہے اور لڑکوں کا الگ، ہاسٹل الگ، کھانا پینا الگ، لائیبریری کے اوقات الگ، تقریبات کا انعقاد الگ، یونیورسٹی کی بسیں الگ سب کچھ الگ مگر اس کے باوجود لڑکیوں کو بھی باہر جانے پر سو طرح کی پابندیاں جس کی وجہ سے آئے روز سیکیورٹی گارڈز لڑکیوں کے ساتھ بد تمیزی کرتے پائے جاتے ہیں۔ روز بروز لڑکیوں کو پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے ان کی ہر چیز پر پابندی۔ اگر کوئی لڑکی ٹیکسی سروس اوبر یا کریم کا استعمال کرے تو اس کی بدچلنی کے اشتہار لگ جاتے ہیں۔ چند روز پہلے ان صنفی امتیازات سے تنگ آکر اسلامک یونیورسٹی کی طالبات نے گرلز کیمپس سے سیکورٹی آفس تک اجتجاجی مارچ کیا اور یونیورسٹی کی شاہراہ کو بلاک کیا۔ ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ اوبر اور کریم والے ہمارے ڈرائیورز ہیں بوائے فرینڈز نہیں۔ اور لڑکیوں نے انتظامیہ سے پر زور اپیل کی کہ اس رجعت پسندی پر مبنی صنفی امتیازات کو روکا جائے۔

اسلامک یونی ورسٹی کے آئے روز آنے والے یہ نوٹیفیکیشنز میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں مگر تمام تر تنقید اور احتجاج کے باوجود یونی ورسٹی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور اسلامک یونیورسٹی کی طالبات کی کردار کشی جاری ہے یقیناً اس طرح کے نوٹیفکیشنز سے لڑکیوں کے والدین اور دیگر لوگوں کے ذہنوں میں سوال تو اٹھتے ہوں گے کہ ایسا کیا ہو رہا ہے انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی میں جو انتظامیہ لڑکیوں کے اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے پر پابندی لگا رہی ہے۔ دنیا کی یونیورسٹیاں تحقیق اور تمدن کی اونچائیوں کو چھو رہی ہیں اور ہم ابھی بھی رجعت پسند ذہن کے ساتھ اپنے مستقبل کے معماروں کے ساتھ سختی،دھونس اور صنفی امتیاز کر رہے ہیں اور دوسری طرف درس دے رہے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔

https://tribune.com.pk/story/1539575/1-iiui-female-students-stage-protest-unnecessary-restrictions/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).