عمران خان کی ناکام شادیاں


عمران خان کو ہماری جینیریشن بچپن سے جانتی ہے۔ وہ عالمی سطح کے ایک فاسٹ باؤلر اور کامیاب کرکٹر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک خوبصورت انسان بھی ہیں جس کی وجہ سے خواتین میں‌ بھی انتہائی مقبول رہے ہیں۔ یہ ان کی بہادری ہے کہ وہ اپنی خوبیوں‌ اور خامیوں کے ساتھ ملک سدھارنے کے ارادے کے ساتھ سیاسی میدان میں‌ اترے۔ عمران خان کو ایک بوسیدہ سیاسی نظام میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح‌ قبولیت ملی اور ان کی پارٹی نے جلد ہی اپنی جگہ بنالی۔ اوکلاہوما میں‌ بھی ان کی پارٹی کو سپورٹ کرنے کے لیے چند سال پہلے ایک پروگرام ہوا تھا جس میں ہم نے بھی ٹکٹ لے کر شرکت کی تاکہ پاکستان کے حالات بہتر بنانے کے لیے جتنا ہوسکے دور سے ہی تھوڑی سی مدد کریں۔ پاکستان میں‌ لوگ بہتر لیڈر چنیں‌ گے تو اس کی عوام کی تعلیمی سطح اور معاشی حالات بہتر ہونے سے پڑوسی ملکوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ عمران خان صاحب نے جس طرح‌ کینسر کے علاج کے لیے ہسپتال بنائے وہ ایک قابل تعریف کامیابی ہے۔ بلکہ شوکت خانم ہسپتال میں‌ میں‌ نے انٹرنیٹ پر ایک سال پڑھایا بھی ہے جہاں‌ ان کے اسٹوڈنٹس بہت اچھے سوال کرتے تھے۔ آج کا مضمون حقیقت حال کا تجزیہ کرنے کے لیے لکھا گیا ہے تاکہ ہم سب اس سے کچھ سیکھیں۔

عمران خان صاحب نے دو شادیاں کیں جن میں پہلی شادی جمائمہ خان اور دوسری ریحام خان سے تھی۔ عمران خان صاحب کی دونوں بیویاں بہت خوبصورت اور اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ ہیں جن کی دنیا میں‌ اپنی ایک شخصیت، پہچان اور جگہ ہے۔ ان کی طرح‌ کی خواتین کے ساتھ شادی کرنا کسی بھی انسان کی خوش نصیبی ہوگی۔ جس طرح‌ جمائمہ خان نے انسانی حالت بہتر بنانے کے لیے مقامی سوشل مسائل پر آواز اٹھائی اور کام کیا، پاکستان کی طرح کے ملک میں‌ جہاں‌ اس مقام کی خواتین پانچ فیصد سے بھی کم ہیں، ان کو ایک قومی اثاثہ تصور کیا جانا چاہئیے۔ اسی طرح ریحام خان بھی اپنے معاشرے کے لیے ایک گھریلو خاتون کے کردار سے آگے بڑھ کر کچھ کام کرنا چاہتی ہیں۔ زیادہ تفصیلات معلوم نہیں‌ لیکن دور سے ایسا سمجھ آتا ہے کہ لوگ اپنی حدود سے نکل کر ان کی ذاتی زندگی میں‌ مداخلت کرنے لگے تھے۔ ان خواتین کو ایک اسپیس فراہم کرنے کی ضرورت تھی جس میں‌ وہ اپنا کام جاری رکھ سکتیں۔ ان کو باقی پچانوے فیصد خواتین میں‌ تبدیل کرنے کی کوشش غلط ہے۔ وہ بالغ ہیں اور ان کو اپنی مرضی سے پہننے، اوڑھنے، کھانے پینے، سفر کرنے اور اپنی زندگی کے لیے ہر آنے والے دن کے ساتھ نئے اور بلند مقاصد حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

ایک روایتی ساؤتھ ایشین شادی تاریخی لحاظ سے ایسا کانٹریکٹ رہا ہے جس میں‌ کردار پہلے سے طے شدہ ہیں اور جہاں‌ شادی اور محبت دو الگ چیزیں ہیں۔ پچھلے سو سالوں‌ میں‌ خواتین نے جس تیزی سے ہر میدان میں‌ ترقی کی ہے، وہ دنیا کے نقشے پر ایک نئی تحریک ہے جس میں‌ باپ کے باہر جاکر کمانے اور ماں کے گھر سنبھالنے کے کردار بدل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی دنیا میں ہم جنس شادیوں‌ کو قانونی حیثیت مل جانے کے بعد روایتی مرد اور عورت کی شادی ایک ایسا ادارہ بن گئی ہے جس کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ عمران خان چونکہ خود ایک عالمی سطح کے کامیاب آدمی ہیں، تعلیم یافتہ ہیں‌ جنہوں‌ نے کچھ کتابیں‌ بھی لکھی ہیں وہ ہر انسان کی طرح‌ اسی طرح‌ کے لوگوں‌ کے ساتھ ملنا جلنا اور بات چیت کرنا پسند کریں‌ گے جن کی تعلیم اور سوچ ان کے برابر ہو۔ کرکٹ ہو، باسکٹ بال یا ہاکی، باہر سے شاید محض ایک کھیل دکھائی دیتے ہوں لیکن وہ انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں جس میں ٹیم ورک، لیڈرشپ، ہار برداشت کرنا، انصاف سے کھیلنا اور سیاست شامل ہیں۔

انہوں‌ نے ایسی خواتین کو شادی کے لیے چنا جو ذہنی طور پر ان کے برابر یا ان سے بہتر تھیں۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں‌ نے یہ فراموش کردیا کہ جن گھروں، معاشرے، ملک اور مذہب میں‌ ان کی طرح کے نوجوان پلے بڑھے ہیں وہ اس برابر کے تعلق کو نہیں سمجھتا۔ کئی نفسیات دان یہ بات کہتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر تک ایک انسان بنیادی طور پر بن چکا ہوتا ہے۔ نسل در نسل چلتے ہوئے جنسی تعصب کو اس طرح‌ ایک آگے نکل جانے والا انسان اپنے لاشعور سے یا اپنے گھر سے نہیں نکال سکتا۔ اگر وہ خود نکال بھی دے تو پھر بھی ہر لمحہ ہر سمت سے اس کو دباؤ کا سامنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا کلچر ہے جس میں‌ شوہر اپنی عزت نفس اپنے مہمانوں‌ کے سامنے اپنی بیوی کے اسکرٹ کی لمبائی اور گلے کی گہرائی سے ناپتے ہیں۔ وہ اس بات سے شدید کوفت محسوس کرتے ہیں‌ کہ ان کی بیوی کے خیالات ان سے مختلف ہوں۔ پدرانہ معاشرے کے صدیوں سے بنے نظام میں‌ وہ ایسی بیوی کے ساتھ ہی رہنا جانتے ہیں جو ایک پتلی ہو جس کی ڈوری ان کے ہاتھ میں رہے جبکہ اصلی زندگی میں‌ اور خاص طور پر ایک برابر کے رشتے میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ایک چلتے ہوئے گھر میں ہر ایک دن میں‌ پچاس فیصلے کرنے ہوتے ہیں جن میں فرنیچر اور وال پیپر کے رنگ کے چناؤ سے لے کر، بچوں کے اسکول، مشغلے اور دوست اور رشتہ دار شامل ہیں۔

یہ محض عمران خان کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ بہت سارے نوجوانوں‌ کا ہے۔ یہ نوجوان ایسے گاؤں یا شہروں‌ میں‌ پلے بڑھے ہیں جہاں‌ ان کی مائیں‌ یا تو بالکل ان پڑھ تھیں یا تھوڑا بہت پڑھی لکھی تھیں‌ لیکن ان میں‌ سے زیادہ تر گھروں‌ میں‌ رہتی تھیں اور ان کی زندگی کھانا پکانے، گھر صاف کرنے، بچے پالنے، شوہر کے کپڑے استری کرنے، اس کے جوتے صاف کرنے اور شام میں‌ ٹی وی دیکھنے کے گرد گھومتی تھی۔ ان کی اپنے شوہروں سے توقعات انتہائی کم تھیں۔ ان کے اسٹینڈرڈ کے مطابق ایسا شوہر جو نشہ، مارپیٹ نہ کرے اور بل دیتا رہے تو کافی ہے۔

جب شادی ایک معاشی کانٹریکٹ نہ رہی اور خواتین اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے لائق ہوئیں تو ان کی توقعات بھی اسی لحاظ سے بڑھیں۔ اب وہ محبت خوشی اور وقت کا مطالبہ کرنے لگیں اور جب وہ انہیں‌ ملتا نظر نہیں‌ آیا تو انہوں‌ نے اپنی بقایا زندگی اس طرح گذارنے کے بجائے ان رشتوں کو ختم کرنے کا راستہ چنا۔ نئی نسل کے نوجوان جب خود کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں اور پڑھی لکھی صاف ستھری خواتین سے ملتے ہیں‌ جن میں‌ سے آلو گوبھی کی خوشبو نہیں‌ آتی، وہ اخبار پڑھ سکتی ہیں اور ان کا ذاتی کیریر ہوتا ہے تو وہ اپنے لیے ایسی زندگی کا خواب دیکھنے لگتے ہیں‌ جس میں وہ ایک ماڈرن زندگی گذاریں، کم بچے پیدا کریں اور ہمیشہ کے لیے ہنسی خوشی رہیں۔

لیکن شادی کے فوراً بعد ان کی امیدوں‌ پر پانی پھر جاتا ہے کیونکہ ہنی مون فیز کے بعد جب اصلی زندگی شروع ہوتی ہے تو ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں‌ اجنبی ہیں۔ ایک کہانی میں‌ ایک آدمی جب صبح اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ ایک کاکروچ ہے۔ یہ اس کے لیے ایک تکلیف دہ لمحہ تھا۔ وقت نے ان کو ایک ایسے کردار میں‌ پھینک دیا جس کی مثال ان کی پچھلی نسلوں‌ میں‌ نہیں‌ ملتی۔ کئی افراد میں‌ یہ شعوری احساس کہ وہ ایک برابر کے شخص کے ساتھ رہ رہے ہیں پیدا نہیں‌ ہوپاتا۔ وہ اپنی بیوی کو اپنی ماں اور خود کو اپنا باپ سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے والدین کی زندگی کو ان کی اپنی زندگی پر لاگو نہیں‌ کیا جاسکتا۔ اگر اس بات کو سادہ الفاظ میں‌ ان افراد کے سامنے پیش کیا جائے اور اس کا حل بھی بتا دیا جائے تو وہ اس کو اپنی تذلیل محسوس کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں‌ وہ اتنے خاص ہیں کہ ان کے لیے ان ماڈرن اور کامیاب خواتین کو ان کی ماں‌ کی طرح ہوناچاہئیے۔ حالانکہ ایک ہی وقت میں‌ ایک انسان لمبا بھی ہو اور چھوٹا بھی ہو، تعلیم یافتہ بھی ہو اور ان پڑھ بھی ہو، طاقت ور بھی ہو اور کمزور بھی ہو اور مضبوط خیالات کے ساتھ لیڈر بھی ہو اور چپ چاپ پیچھے چلنے والا بھی ہو تو ایسا ناممکن ہے۔

عمران خان کی طرح کے نوجوانوں کو دو میں‌ ایک راستہ اپنے لیے چننا ہوگا۔ یا تو وہ محبت اور شادی کو الگ رکھنا سیکھ لیں یا پھر وقت کے ساتھ خود کو بدل دیں۔ یا تو وہ ایک کم پڑھی لکھی گھریلو کم عمر لڑکی سے شادی کریں جو گھر سنبھال کر بیٹھی رہے اور وہ باہر دنیا میں‌ اپنا کام اور کیریر جاری رکھیں۔ وہ جہاں‌ سے بھی گھوم پھر کر آجائیں گے یہ خواتین ان کے بچے اور گھر جوڑ کر بیٹھی رہیں گی۔ ان کی کوئی بلند توقعات نہیں‌ ہوں‌ گی۔ وہ اسی بات پر خوش رہیں‌ گی کہ ان کے گھر میں مار پیٹ نہیں چل رہی، بل دے دیے گئے ہیں اور بچوں کے اسکول کی فیس چلی گئی ہے۔

اگر عمران خان کی طرح‌ کے کامیاب انسان واقعی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے برابر کے ساتھی کے ساتھ ایک خوش و خرم زندگی گذار سکیں تو اس کے لیے ان کو خود پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔ سب سے پہلے ان کو یہ توقع کرنا چھوڑ دینا ہوگی کہ گوری میم شادی کے بعد گاؤں کی گوری بن جائے گی، وہ ان کے لیے شادی کے بعد اپنے چھوٹے بال لمبے کرے گی یا اس کا پہناوا اور زندگی گزارنے کا طور اور طریقہ بدل جائے گا۔ وہ اسی کو ووٹ ڈالے گی جس کو وہ یا وہ ان کے ہر خیال سے اتفاق کرے گی۔ ان کو یہ سمجھ لینا ہوگا کہ ان کی بیوی بچے کٹھ پتلیاں نہیں بلکہ جدا شخصیت کے حامل انسان ہیں‌ جن کو اپنی مرضی سے جینے کا پورا حق حاصل ہے۔ ان آدمیوں‌ کو ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ دینا ہوگی اور ریموٹ کنٹرول بھی واپس دے دینا ہوگا۔ خود کو ساری دنیا اور اپنی فیملی کا مرکز سمجھنا چھوڑ دینا ہو گا۔ ہر بچہ اور بالغ اپنی دنیا کا خود مرکز ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی آج کی ماڈرن فیملی کی زندگی میں‌ امید کی کرن آسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).