زرداری صاحب، سولر پاور اور شعلے کا گبر سنگھ


\"rashid-ahmad-2w\"

گزشتہ آٹھ سال سے سندھ پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے قبلہ آصف علی زرداری صاحب نے سندھ کی ترقی کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر جو گل افشانی فرمائی ہے وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ لوگ تو خواہ مخواہ موصوف کے پیچھے لٹھ لیکر پڑے رہتے ہیں جبکہ آنجناب نے تو خاموشی سے سندھ میں سو فی صد امن وامان قائم کردیا ہے۔ جی ہاں سو فی صد! یہ قبلہ زرداری صاحب کے اپنے الفاظ ہیں کہ سندھ میں ہم نے سو فی صد امن قائم کردیا ہے، اگر کوئی رات کے تین بجے بھی سفر پر نکلے تو بلا کسی خوف کے گھومتا پھرتا رہے، کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ سابق صدر صاحب نے مزید حکمت کے موتی بکھیرتے ہوئے سندھ میں ہونے والی ترقی کی مثال میں ضلع سانگھڑ کے ایک چھوٹے سے قصبے کھپرو کی ایسی مثال دی کہ جس کو سن کر اہل نظر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ فرمایا ہم نے لوگوں کو یہاں سولرپلیٹیں اور بیٹریاں دی ہیں تاکہ وہ اپنے گھر روشن کر سکیں۔ یہ روشنیاں ہندوستان سے بھی نظر آتی ہیں۔ اللہ اللہ کیا دور اندیشی ہے۔ کیا ویژن ہے۔ کیا ترقی ہے۔ سولر لائٹیں اور وہ بھی تین سو کلومیٹر کے فاصلے سے نظرآتی ہیں۔ دنیا میں ترقی کی کوئی ایک بھی ایسی مثال ہے تو دکھائیں وگرنہ آئندہ سے پیپلزپارٹی پر تنقید سے قبل گوگل پر کھپرو کو سرچ کریں اور واہ واہ کریں۔

تقریبا ً آٹھ سو ارب روپے کا سالانہ بجٹ رکھنے والی سند ھ حکومت کی ترقیاتی کاوشیں اور کوششیں ملاحظہ ہوں کہ دو بڑے شہروں میرپورخاص اور سانگھڑ کے درمیان آباد اس قصبہ میں ابھی تک سولر لائٹیں ہی تقسیم ہورہی ہیں۔ نہ بجلی نہ صاف پانی نہ گیس اور نہ ہی صحت وتعلیم کی بنیادی سہولیات مگر ترقی کا ڈھنڈورا یوں پیٹا جارہا ہے کہ ہماری مہیا کردہ روشنیاں دشمن ملک سے نظر آتی ہیں۔

جہاں تک سندھ میں سو فی صد امن قائم کرنے کی بات ہے تو اس سے بڑا لطیفہ بھی شاید ہی حال میں کسی دوسرے سیاسی رہنما نے سنایا ہو۔ راقم کا تعلق چونکہ سندھ سے ہے اس لیے یہاں کے حالات میرے سامنے ہیں۔ آئے دن چوری و ڈکیتی کی متعدد وارداتیں سرعام ہوتی ہیں اور مجرم مزے سے گھوم پھر رہے ہیں۔ غریب کی کمائی چوک چوراہے میں لوٹ لی جاتی ہے۔ ڈکیتی کی وارداتیں اتنی عام ہیں کہ گھر سے نکلیں تو بقول فراز عزت سادات بھی طاق میں رکھ کر جائیں۔ دور نہیں جاتا اخبار کی مثالیں بھی آپ کے سامنے نہیں رکھتا۔ مقامی سندھی چینلز کی رپورٹیں بھی آپ کے گوش گزار نہیں کرتا۔ آپ بیتی میں سے تین واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں، خود اندازہ لگائیے کہ کیا امن وامان قائم ہوا ہے یا نہیں؟ میڈیا صرف زرداری صاحب اینڈ کمپنی کو بدنام کرنے کے سازشی نظریئے پر عمل پیرا ہے۔

یہ فقیر پنجاب سے واپس جا رہا تھا تو گاؤں جانے کے لئے بجائے رکشہ کے انتظار کرنے کے والد صاحب کو زحمت دی کہ موٹر سائیکل پر مجھے گھر لے جائیں۔ والد صاحب بوقت عصر گاؤں سے قریبی شہر آرہے تھے کہ راستے میں دو ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل چھینی اور فرار ہوگئے۔ دن دیہاڑے اور مصروف شاہراہ پر یہ واقعہ ہوا اور لٹیرے آرام سے اپنی کاروائی مکمل کرکے ساتھ والے کسی رئیس کے گاؤں میں جا چھپے جہاں جاتے ہوئے سندھ پولیس کے پر جلتے ہیں اس لیے یہ کہہ کر معذرتیں کرتی رہی کہ سائیں ہم آپ سے زیادہ مجبور ہیں ، ہمیں زحمت نہ دیں تاوان کی رقم دیں اور اپنی موٹر سائیکل واپس لے جائیں۔ دس ہزار دے کر موٹر سائیکل واپس لی گئی اور یہ چوری واپس کروانے میں یہاں کے ایم این اے کے صاحبزادے کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اشارہ ہی کافی سمجھیں۔ اب آپ ہی بتائیں اس قدر امن وامان کے ہوتے ہوئے زرداری صاحب سو فی صد امن کا دعوی نہ کریں تو کیا کریں۔

چند دن قبل اس خاکسار کے چھوٹے بھائی ساتھ والے گاؤں سے کرکٹ کھیل کر واپس آرہے تھے تو راستے میں وہی لٹیرے کسی شکار کے انتظار میں تھے۔ دو نہتے بچوں کو دیکھ کر نہ صرف موبائل اور پیسے چھین لئے بلکہ زدوکوب بھی کیا۔ یہ بھی مغرب سے پہلے کی بات ہے اور جس سڑ ک پر یہ واقعہ ہوا اس کے دونوں سروں پر پولیس تھانے ہیں مگر سندھ پولیس عوام سے زیادہ لٹیروں کی خدمت پر مامور ہے اس لیے لٹیرے پیادہ پا آتے ہیں موٹر سائیکل چھینتے ہیں اور اس پر واپس جاتے ہیں مگر مجال ہے جو پولیس کوئی کاروائی کرجائے۔

تیسری مثال زیادہ ہی اندوہناک ہے۔ یہ واقعہ بھی اسی جگہ اور اسی وقت ہوا۔ دو مزدور بیچارے اپنی گدھا گاڑی پر ساتھ والے شہر سے مزدوری کرکے واپس آرہے تھے۔ راستے میں کھڑے انہی درندوں کے ہتھے چڑھ گئے اور چند ہزار روپے جو بیچاروں نے خون پسینے کی کمائی سے کمائے تھے بچانے کی خاطر ان ظالموں کی کلہاڑیوں کا نشانہ بن گئے۔ دونوں کے سر کلہاڑیوں سے چیر دیئے گئے اور اورنیم مردہ حالت میں انہیں اس گدھا گاڑی پر ڈال کر گاؤں کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

اگر تو آپ نے مشہور فلم ’’ شعلے‘‘ دیکھی ہے تو اس کا وہ سین آپ کو یاد ہوگا جس میں گبر سنگھ گاؤں والوں پر اپنا ودبدبہ قائم کرنے کے لئے امام مسجد کے بیٹے کو قتل کرکے اس کی لاش گدھے پر رکھ کر واپس گاؤں بھیج دیتا ہے۔ سند ھ حکومت کے زیر سایہ بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ دوبیچارے اور نہتے مزدوروں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا اور یہ تو صرف ایک چھوٹے سے گاؤں کی داستان ہے۔ اندورون سندھ حالات اس سے کئی گنا ابتر ہیں، جبکہ زرداری صاحب ہندستان سے نظر آنے والی روشنیوں پر ہی شادیانے بجا رہے ہیں۔ جمہوریت کا انتقام بہتیرے گھروں کے دیئے بجھا چکا۔ دیکھئے آگے یہ سیلاب بلا کیا چاند چڑھاتا ہے۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments