سیاسی لوگوں کو کیا پریشانی ہے


اب پھر ایک سفر درپیش ہے۔ مجھے ملک سے باہر جانا ہے۔ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ ہمارے پرانے وزیراعظم حضرت نوازشریف بھی آج کل بہت سفر کرتے نظرآرہے ہیں۔ چند ماہ میں انہوں نے لندن کا کئی بارسفر کیا۔ ان کی بیگم علیل ہیں۔ پھر پاکستان میں ان کو عدالتوں کا سامنا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے لیے عدالت ایک اہم جگہ ہوتی ہے۔ پہلے میاں نوازشریف عدالت لگایا کرتے تھے، اب عدالت کا سامنا ہے۔ کئی سال پہلے میاں نوازشریف کالا کوٹ پہن کرعدالت گئے تھے۔ اس وقت ان کا مقصد عدالت کی توقیر میں اضافہ کرنا تھا۔ اب تو ان پر الزامات کی یلغار ہے۔ ہمار ے ہاں تو مقدمات برسوں چلتے ہیں اور اس ہی سے تو ہمارا نظام چلتا ہے۔ ہمارا نظام بھی خوب ہے جس میں بدانتظامی کا بڑا ساتھ ہے۔ بدانتظامی میں پاکستانی نوکرشاہی کا بھی جواب نہیں اور یہ نوکر شاہی عوام کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتی۔

آج کل پاکستان میں دو باتو ں پر بہت غورہورہا ہے۔ ایک مکتبہ فکر کو تشویش ہے کہ ہماری معیشت بڑی خرابی سے دوچار ہے۔ ان سب کی بنیادی دلیل ملک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ قرضے کسی ملک کی معیشت میں اہم حیثیت رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں قرضوں کا استعمال نوکرشاہی کے ذریعے ہوتا ہے اور خرابی اور بدانتظامی کی وجہ سے قرضوں کا استعمال مشکوک نظرآتا ہے۔ پاکستان اب تک جتنے قرضے لے چکا ہے۔ اس کے بعد معیشت کی حالت کو بہتر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ ملک میں بجلی کا بحران ختم ہونے کی نوید دی جارہی ہے مگر بجلی قیمتوں میں اضافہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

مجھے سفر کے لیے زرمبادلہ کی ضرورت ہے۔ اب زرمبادلہ بیرونی ملک کی کرنسی میں دستیاب ہوتا ہے۔ پہلے تو ہمارے وزیرخزانہ جناب اتفاق ڈار ڈالر پر نظر رکھتے تھے۔ آج کل ان کو بھی عدالتوں کا سامنا ہے اور دیگر کام بھی تو کرنے ہیں اب ڈالر کو دوبارہ سے پَر لگ رہے ہیں۔ صرف ایک ہفتہ میں اس کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پھر بازار میں ڈالر کی قلت بھی ہے اور سرکاری طور پرسرکار کے خزانہ میں بھی ڈالر کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ پھر ترقی کے منصوبوں اور ہمارے دوست چین کی مروت اور مہربانی سے سی پیک کا منصوبہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے بھی ڈالر کی کمی نظر آرہی ہے۔ تارکین وطن کے ڈالر بھی کچھ کم ہوگئے ہیں۔ نوکرشاہی کی ناقص منصوبہ بندی سے ہر چیز باہر سے منگوائی جارہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے قومی آمدنی میں اضافہ کے لیے درآمدی اشیاءکی بڑی تعداد پر ٹیکس لگایا گیا ہے مگر اندرون ملک کی اشیاء پر توجہ نہیں ہے اس لیے ڈالر کی قیمت پرکنٹرول ضروری ہے۔ ہمارے وزیرخزانہ اگر ڈالر پر توجہ دیں تو اس کی قدر کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔

میاں نوازشریف آج کل سعودی عرب میں اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ پھر ان کی عبادت اور ریاضت پاکستان کے لیے بھی تو ہے۔ ہمارے سابق وزیراعظم کو پاکستان کی بہت فکر ہے اور آج کل امریکی ہمارے معاملات میں خصوصی توجہ دیتے نظرآرہے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ولی عہد بڑی تبدیلیاں کرتے نظر آرہے ہیں وہاں پر بھی میاں نوازشریف اہم سعودی لوگوں سے میل ملاقات کررہے ہیں۔ امریکی دوست سعودی عرب کے ذریعے ہماری سیاست اور ریاست کے معاملات کے لیے توجہ دیتے نظرآرہے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف کی مصروفیات بہت اہم جارہی ہیں۔ پاکستان کی ایک اور قدآور شخصیت اور سابق کمان دار پاک افواج جنرل راحیل بھی سعودی حکومت میں اہم حیثیت کے حامل ہیں اور پاکستان کے لیے مشاورت میں ان کا کردار بھی سابق وزیراعظم کی طرح اہم لگتا ہے۔ ابھی تک دونوں کی ملاقات کی خبر نہیں آئی مگر دونوں سابق اہم پاکستانی لیڈر بہتر پاکستان کے لیے سوچتے تو ضرور ہوں گے۔

ہمارے سیاسی لیڈر اوراشرافیہ آج کل جو زبان استعمال کررہی ہے وہ ان کے قول اور قرار کو مشکوک بنا رہی ہے۔ تحریک ا نصاف کے لیڈر اور کپتان نے ایک اچھا فیصلہ کرہی لیا۔ اس کی کافی عرصہ سے پاکستان الیکشن کمیشن سے مقدمے بازی چل رہی تھی۔ وہ بھی جوش جذبات میں بات کا خیال نہیں کرتے اور اس ہی وجہ سے الیکشن کمیشن نے اپنی عدالت کی توہین کرنے پر ان کو طلب کررکھا تھا۔ یہ معاملہ کافی عرصہ سے چل رہا تھا۔ پھر کپتان نے معاملہ فہمی کی اور الیکشن کمیشن سے معافی مانگ لی۔ الیکشن کمیشن نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کپتان کو معاف کرہی دیا مگر اب ریاست کے دوسرے اہم لوگ اس معاملہ پر بھی سیاست کرتے نظرآرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے راکھیل اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اس معافی کو بھی پسند نہیں کیا اور جعلی نیازی کا نام دے کر کوئی اچھا تاثر نہیں دیا۔

اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں پیپلزپارٹی نظر آرہی ہے۔ سندھ میں ان کی حکومت ہے مگر معاملات ان کے کنٹرول سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ بلاول پر ان کا اعتماد مشکوک ہے۔ اب سنا ہے کہ وہ بے نظیر کی بیٹی کو میدانِ سیاست میں لا رہے ہیں۔ بڑی دیر کے بعد خیال آیا مگرخیال اچھا ہے۔

مسلم لیگ نواز بھی اب انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے مگراہم سوال ہے کہ ملک کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور سب سیاسی لوگ اس جنگ کو جمہوریت کی جنگ کہہ رہے ہیں اور ان سب کے لڑنے کا انداز اور طریقہ غیر جمہوری ہے۔ جمہوریت تو برداشت کا نام ہے۔ ہمارے سیاسی لوگوں اور اشرافیہ میں برداشت ختم ہوچکی ہے۔ ان کا روزمرہ کا بیان ہی جمہوریت دشمن نظرآتا ہے۔ اس جمہوری جنگ میں پاکستان کمزور ہورہا ہے۔ ایک دوسرے پرشک اور سازش کا گمان سیاسی لوگوں کو بھی پریشان کررہا ہے۔ سیاسی لوگوں کی پریشانی آئندہ انتخابات کے حوالہ سے تشویش ناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).