معتدل اسلام اور جدید سعودی عرب


سعودی عرب کے طاقتور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ریاض میں منعقد ہونے والی ایک بزنس کانفرنس کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں اسلام کا اعتدال پسند روپ سامنے لایا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی معاشرہ 1979 سے پہلے اعتدال پسند تھا لیکن اس کے بعد بتدریج انتہا پسندی معاشرے کا حصہ بننے لگی۔ اب سعودی عرب نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس انتہا پسندی سے نجات حاصل کی جائے گی تاکہ معاشرہ کو اعتدال پسند اور ایک دوسرے کا احترام کرنے والا بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی سعودی ولی عہد نے 26500 کلومیٹر پر مشتمل ایک نیا شہر آباد کرنے کا اعلان کیا ہے جو مکمل طور سے نجی ملکیت ہوگا۔ یہ شہر بحر احمر کے ساحل سے خلیج عقابہ تک پھیلا ہؤا ہوگا اور بعد میں اس میں مصر اور اردن کے علاقے بھی شامل کئے جائیں گے۔ اس طرح سعودی عرب کے حکمران اپنے ملک کی حدود میں ایک ایسا علاقہ قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں جس پر موجودہ سعودی قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔

یہ منصوبے شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ سعودی عرب کی معیشت کا پیٹرول پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اور اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہی ہے۔ اس سے پہلے سعودی ولی عہد اپنے ملک کے ساحلی علاقوں میں ایسے سیاحتی زون قائم کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں جہاں غیر ملکی اور سعودی سیاحوں کو ہر قسم کی سہولت حاصل ہوگی۔ ان ساحلی علاقوں میں بھی اس وقت سعودی عرب میں مروج سخت قوانین پر عمل نہیں ہوگا بلکہ جدید سیاحت کی تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی جن میں شراب کی فروخت اور نائٹ کلب وغیرہ جیسی سہولتیں بھی شامل ہیں۔ اب اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے شہزادہ محمد نے ’معتدل اسلام‘ متعارف کروانے کی بات کی ہے۔ ایک خبر کے مطابق سعودی حکومت نے اس حوالے سے کام کا آغاز بھی کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا شاہی فرمان بھی اسی سلسہ کی کڑی بتایا جاتا ہے۔

سعودی حکومت احادیث کی نئی اور جدید تشریح کے ایک منصوبے پر بھی کام کررہی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت ان احادیث کی مناسب اور قابل عمل تشریح کی جائے گی جنہیں انتہا پسند عناصر استعمال کرتے ہوئے نوجوان مسلمانوں کو عدم برداشت اور خوں ریزی کا سبق دیتے ہیں۔ ریاض کی بزنس کانفرنس میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی باتوں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے معاشی استحکام اور تجارتی فروغ کے لئے ملک کا موجودہ اسلامی روپ کارگر نہیں ہوگا۔ اس وقت مملکت عام لوگوں کو سخت گیر روایات پر عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے تاہم شہزادہ محمد کے نئے تجارتی ویژن میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سعودی حکومت کو تسلسل سے مذہبی طبقہ کی طاقت کو کم کرکے ملک کے اندر مفاہمانہ اور مصالحانہ رویہ کو فروغ دینا پڑے گا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ شہزادہ محمد اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ انہیں اس راستے پر شاہی خاندان کے علاوہ ملک کے طاقتور مذہبی اشرافیہ کی طرف سے شدید مخالفت و مزاحمت کا سامنا ہوگا۔

سعودی عرب کو انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے علیحدہ شہر آباد کرنے، ان میں نئے قوانین اور رواج کو فروغ دینے سے پہلے اپنے ملک میں سماجی رویہ اور مذہبی قوت برداشت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ موجودہ شدت پسند حکومت ملک کی بڑی شیعہ آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے عقیدہ اور مسلک کو ملک میں اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ ان تنگ نظر روایات کو ختم کئے بغیر ایک مخصوص علاقے کو علیحدہ قوانین کے تحت جدید بنانے کا خواب شاید عملی صورت اختیار نہ کرسکے۔

سعودی حکومت نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران صرف اپنے ملک میں ہی ایک سخت گیر معاشرہ تشکیل دینے میں سرکاری قوت استعمال نہیں کی بلکہ سعودی برانڈ اسلام کو دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں ’برآمد‘ کرنے کے لئے بھی کثیر وسائل صرف کئے ہیں۔ اس کا آغاز پہلی افغان جنگ کے دوران ہؤا تھا تاہم اس طرح سعودی عرب کو مسلمان ملکوں میں جو رسوخ اور مقبولیت حاصل ہوئی اس کی وجہ سے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس طرح سعودی وسائل کے ذریعے قائم ہونے والے گروہ اور مذہبی ادارے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں تبلیغ اور سخت گیر اسلام عام کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ شہزادہ محمد کو سعودی برانڈ اسلام کو پھیلانے کے اس مشن کی روک تھام کے لئے بھی اقدام کرنے ہوں گے۔

ماہرین معیشت سعودی ولی عہد کے پر جوش معاشی منصوبوں کے بارے میں یقین سے کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اگر سعودی حکمران اپنے معاشرہ کو عمومی طور پر انسان دوست بنانے کی کوشش کئے بغیر اپنے ہی ملک میں معاشی جزیرے بنا کر ترقی اور دائمی خوشحالی کا خواب دیکھیں گے تو ان کی تعبیر شاید اتنی سہانی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali