کپتان اب اگلا وزیراعظم ہے


ستانوے کا الیکشن قریب تھا مردان کے ایک صنعتکار کو نوازشریف میں وہ سب خوبیاں دکھائی دے گئیں جن کا میاں صاحب کو خود بھی نہیں پتہ تھا۔ ان صاحب نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ بڑی مشکل سے منت سماجت سے انہیں اے این پی کی جانب روانہ کیا گیا کہ الیکشن اس کے ٹکٹ پر لڑیں۔

دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں پھر ایک کاروباری خاندان کو میاں صاحب میں ایک مدبر دکھائی دینے لگ گیا۔ یہ ساری فیملی جب نون لیگ میں شامل ہونے کو تل ہی گئی تو اسفندیار خان کے مسلم لیگی کزن سر انجام خان کام آئے۔ انہوں نے اس فیملی کو بریک لگا کر بڑی محنت سے مسلم لیگ نون میں شامل ہونے سے روکا۔ اب یہ خاندان کپتان کے نئے پاکستان کی اینٹیں لگا رہا ہے۔

مسلم لیگ نون میں پشاور ویلی کے پانچوں اضلاع سے کچھ بڑے خان ہزار سال سے آرام فرما رہے ہیں۔ ان خان حضرات کا اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کہ کہیں مسلم لیگ نون اچانک کہیں سے جیت نہ جائے۔ نوے کی دہائی تک اے این پی اور نون لیگ کا اتحاد کے پی میں فیصلہ کن برتری حاصل کیا کرتا تھا۔ اے این پی نون لیگ کا اتحاد بہت ہی آئیڈیل اورفطری تھا۔ دونوں جماعتوں کا حلقہ اثر مختلف تھا۔ جب یہ آپس میں اتحاد کرتی تھیں تو ایک دوسرے کو فائدہ ہوتا تھا۔ پشاور ویلی اے این پی کے ہاتھ رہتی۔ جنوبی اضلاع مالاکنڈ ڈویژن میں نون لیگ کو سیٹیں مل جایا کرتی تھیں۔ ہزارہ میں صرف مسلم لیگ ہی ہوتی تھی اسی کا آپس میں مقابلہ ہوتا تھا۔

اس مثالی اتحاد میں پیر صابر شاہ اے این پی کی قیادت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے صابر شاہ کی مادری زبان پشتو ہے۔ وہ جب پشاور ویلی میں پشتو خطاب کرتے تو اے این پی کے راہنماؤں کے ماتھے پر بل پڑ جایا کرتے تھے۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں نون لیگ باقاعدہ مفلوک الحال تھی۔ اے این پی نے پشاور ویلی میں پی پی سے اتحاد کیا۔ دونوں جماعتوں کا حلقہ اثر یہی علاقہ تھا۔ دونوں یہاں روایتی حریف رہی تھیں اتحاد ہوا تو کارکن ہضم نہ کر سکے ووٹر ایم ایم اے کی جانب چلا گیا۔

 دو ہزار دو میں ایم ایم اے کے ٹکٹ سے ہی امیر مقام پہلی بار قومی اسمبلی پہنچے تھے۔ انجنیر امیر مقام ایک کامیاب ٹھیکے دار ہیں، اپنےکاروبار کی شروعات بھی انہوں نے دفاعی اداروں کے ساتھ کام کر کے ہی کی تھی۔ پنڈی کی مزاج شناسی میں امیر مقام اگر چوھدری نثار سے زیادہ نہیں ہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ اب اس پر سوچتے رہیں کہ نوازشریف پس پردہ قوتوں سے ہوائی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ امیر مقام نوازشریف کے اس صوبے میں اہم ترین لیڈر ہیں جہاں انہیں پنجاب سے باہر چار ووٹ مل جاتے ہیں۔

امیر مقام کو سیاست میں پیر محمد خان لائے تھے۔ پیر محمد جماعت اسلامی میں رہے خود کش دھماکے میں اپنی وفات تک وہ ہمیشہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے۔ ان کا صاحبزادہ فضل اللہ ایک بار منتخب ہونے کے بعد پچھلا الیکشن ہار گیا تھا۔ یہ اب بھی امیر مقام گروپ میں شامل اور ان کا طاقتور اتحادی ہے۔

امیر مقام کسی نہ کسی طرح یہ جان گئے ہیں کہ کے پی کی پختون بیلٹ میں مسلم لیگ کا ایک بڑا ووٹ مستقل موجود ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پی پی اے این پی کی جانب سے وہ کبھی وزیراعلی نہیں بن سکتے۔ اس صوبے میں کوئی مذہبی جماعت اگر اکثریت لیتی ہے تو بھی امیر مقام اس میں شامل ہو کر وزیراعلی نہیں بن سکتے۔ ان کا مستقبل مسلم لیگ میں ہی ہے تو وہ بھی بیٹھے ہیں پھر یہیں۔ وہ نظریاتی سیاست کے جھمیلوں کی بجائے پریکٹکل پر یقین رکھتے ہیں ۔ مجھے کام بتاؤ جو کرانا ہے ووٹ کتنے ملیں گے ۔صوبے کی وزارت اعلی کا روٹ پشاور ویلی کی پختون بیلٹ سے ہو کر جاتا ہے اور امیر مقام روانی سے پشتو بولتے ہیں۔

این اے فور میں امیر مقام نے پہلا الیکشن دو ہزار آٹھ میں لڑا تھا۔ چوتھے نمبر پر رہے تھے اٹھارہ ہزار ووٹ لیے تھے۔ دو ہزار تیرہ میں اپنی جگہ ناصر موسی زئی کو نون لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا کیا جنہوں نے بیس ہزار ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ ضمنی الیکشن میں ناصر موسی زئ سو ووٹ کے فرق سے تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ امیر مقام نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی ہے پرویز خٹک پر دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ سیانے بندے ہیں الزامات جن پر لگانے تھے ان کو چھیڑنے کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔

وہ معمولی باتیں ہیں جن کا شور مچایا جا رہا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی بس کہانیاں ہوتی ہیں۔ جیت ایک ووٹ سے بھی ہو تو جیت ہی ہے۔ ارباب عامر ایوب جیتے ہیں اپنے زور بازو سے جیتے ہیں۔ اس حلقے میں ان کی زمینداری ہی اتنی ہے کہ وہ گھر سے ہزاروں ووٹ لے کر نکلتے ہیں۔ پرویز خٹک کے سیاسی ذہن نے اچھی حکمت عملی بنائی جو کامیاب ہوئی۔ سادہ سی حکمت عملی تھی کہ کپتان کے چاہنے والوں کے جنون کو اپنا پکا ووٹ رکھنے والے امیدوار کے ساتھ مکس کر کے فتح سمیٹی جائے۔ پرویز خٹک نے پشاور کی چاروں سیٹ پر ایسے ہی نئے امیدوار ڈھونڈ لیے ہیں۔ چاروں ہی جیتنے والے ہیں، چاروں ہی جیت جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئے کسی کو۔

امیر مقام اپنی ہار کا ملزم اپنی پارٹی میں تلاش کریں۔ جب پشاور سے پی ایف آٹھ کی سیٹ خالی ہوئی تو مسلم لیگ نون دوبارہ وہ سیٹ جیت گئی تھی۔ یہ سیٹ این اے تھری کے نیچے آتی ہے جہاں سے اقبال ظفر جھگڑا الیکشن لڑتے ہیں۔ یہ سیٹ مسلم لیگ نون ہر گز جیت نہ پاتی اگر امیر مقام اپنے ایم این اے بھائی ڈاکٹر عباد اللہ کو حلقے میں نہ بھجوا دیتے۔ ڈاکٹر عباد نے دو ہفتے اس صوبائی سیٹ پر مہم چلائی الیکشن جیت کر ہی لوٹے۔ این اے فور کی ہار نے بھی ڈاکٹر عباد اللہ کی صورت مسلم لیگ نون کو ایک اہم سیاسی دماغ فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر عباد نے لاہور میں کلثوم نواز کی جیت یقینی بنانے کے لیے بھی خاموشی سے بہت کام کیا۔ بارہ پندرہ ہزار پختون ووٹر کو نون لیگ کے لیے ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔

امیر مقام صاحب اپنی قیادت کو صرف یہ بتا دیں کہ ارباب عامر ایوب کو نون لیگ میں شمولیت سے کس نے کیسے روکا تھا۔ عبدالستار خان جھگڑا صاحب کے رائٹ ہینڈ ہوتے ہوئے کیسے پی ٹی آئی میں چلے گئے جن کی این اے فور اور ٹو میں خاصی حمایت ہے۔ جھگڑا صاحب کے اپنے گاؤں کے آس پاس مسلم لیگ نون کیوں ووٹ نہ لے سکی۔ سب سے بڑھ کر گورنر ہوتے ہوئے بھی آفریدیوں کا ووٹ وہ مسلم لیگ نون کو کیسے نہ دلوا سکے۔

یہ سب تو مسلم لیگ نون والے جانیں۔ کپتان کے لیے بہت ساری اچھی خبریں ہیں۔ لبیک پارٹی کا امیدوار جس طرح نون لیگ کے ووٹر کو ہر ہر حلقے میں آگ لگا رہا ہے اس کا فائدہ کپتان کو ہی ہونے جا رہا ہے۔ کے پی میں کپتان کی حمایت برقرار ہے۔ یہ ان کے لئے بہت پرکشش پیغام ہے جو کپتان کی حمایت کرنے کے سوال پر سوچ رہے ہیں۔ پرویز خٹک کی جنون اور پکی سیٹ والے امیدواروں کو ملا کر جتوانے والی حکمت عملی کامیاب لگ رہی ہے۔ اب پنجاب سے سندھ سے پکی سیٹ والے ضمیر کی آواز پر نعرے مارتے کپتان کے پیچھے صفیں باندھتے دکھائی دیں گے۔ کپتان اب اگلا وزیر اعظم بنے گا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi