معزز لوگوں کو مقروض کر کے خالد درزی مر گیا


ہم صبح ، شام، ویلے کویلے ایک اداس سرگوشی سنتے ہیں کہ’ وہ بھی چل بسا ، یا چل بسی‘، تب ہم میکانکی طریقے سے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور مغفرت کی امید پر ایک وعدہ باری تعالیٰ کو یاد دلا دیتے ہیں جنہیں تیری دنیا کے طاقت وروں نے نہیں بخشا انہیں مولیٰ توُ تو بخش دے۔ رہ گئے پس ماندگان تو ان کے لئے ہمارے پاس سوائے تلقینِ صبر کچھ نہیں۔ اس لئے اگر میں سوشل میڈیا کے چوراہے پر بھی کھڑا ہو کر پکاروں بھی کہ خالد مر گیا ہے تو لوگ اپنے اپنے خالد کو اپنی یادداشت میں ٹٹول کر اور سلامت پا کر ایک دو رسمی لفظ ادا کر کے رہ جائیں گے، اگر کوئی پوچھ بھی لے گا کہ کون خالد؟ اور میں کہوں کہ اسلام آباد کا ایک محنتی، نفیس اور دیانت دار درزی جس کی دکان نہیں تھی، وہ لوگوں کے گھر جا کر ناپ لیتا تھا اور کپڑے سی کر پہنچاتا تھا تو ایک آدھ دوست شاید اپنی مصروفیت پر سے گردن اٹھا کے کہے کہ’ بہت افسوس ہوا‘ مگر شہرِ افسوس میں رہنے والے اس خالد درزی کے درد کا وہ قصہ کہاں جائے گا، جس کا ایک حصہ میں براہِ راست اور دوسرا یا آخری حصہ اپنی بیٹی اور داماد کے ذریعے جانتا ہوں۔

خالد اسلام آباد کے ہر اس بیوروکریٹ، صحافی اورسیاست دان کو جانتا تھا، جو اپنی غیر صحت مند حرکات یا عادات کے سبب صحت مند ہوا تھا اور اپنی توند کو چھپانا چاہتا تھا، چنانچہ خالد شلوار، قمیض،  کوٹ پتلون اور واسکٹ بہت عمدگی کے ساتھ سیتا تھا اور بہت سے من کے میلوں کو اجلا اور بدذوقوں کو خوش پوشاک بنا دیتا تھا مگر اس کی تنگی اورغربت نہیں جاتی تھی جس کے تین بڑے سبب تھے ایک تو ہر چار،  چھ مہینے بعد اس کی خستہ حال موٹر سائیکل کو کوئی بدمست ویگن یا گاڑی ٹکر مارتی تھی،  دوسرے وہ اپنے تینوں زیر تعلیم بچوں کے لئے اپنے خوابوں کی قسطیں ادا کر رہا تھا اور تیسرے بڑے مہذب اور خوشحال لوگ اس کی اجرت کھا جاتے تھے۔ جب میں مقتدرہ قومی زبان میں تھا تو اس نے ایک وزیر گوندل کے بارے میں بتایا جس نے تین واسکٹیں اس سے سلوائی تھیں مگر اجرت لینے جاتا تو اس کا جاں نثار ذاتی اور سرکاری عملہ اسے بھگا دیتا، ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک مستعد افسر کے ذمے یہ کام لگایا اس نے ایک ہفتے کی تحقیق اور کوشش کے بعد وزیر صاحب کی نادہندگی کے آٹھ اسباب چار صفحات پر لکھ کے ایک فائل میں دیئے جو میں نے قومی مفاد میں فوراً داخل دفتر کرا دی اور اس خالد سے جو کڑاکے کی سردی میں تین بڑے سوراخوں والے سوئیٹر کی وجہ سے یا متمول وزیر کی حالت زار کے سبب کپکپا رہا تھا، کہا کہ تم میرے دفتر کے مالیوں، نائب قاصدوں اور ڈرائیوروں کے لئے عید کا ایک ایک جوڑا سی دو اور وزیر محترم کی غربت یا غفلت کو ذوالفقار علی بھٹو کے صدقے معاف کردو۔ جب عید کی چھٹیاں قریب آ گئیں اور خالد نہ آیا تو میں نے اپنے ایک اور مستعد افسر کو رابطہ کرنے کو کہا کہ اس کا موبائل بے صدا جا رہا تھا، یہ افسر بھی اتفاق سے گوندل تھا اور جنرل اسلم بیگ کے ساتھ رہا تھا، اس نے بڑی اچھی انگریزی میں لکھا ’بے شک ادائیگی آپ نے اپنی جیب سے کی ہے، مگر ایسے مشکوک درزیوں کی حوصلہ شکنی کرنی قومی مفاد میں ہے، جن کی دکان ہی نہیں اور گھر بھی جن کا آسانی سے تلاش نہیں کیا جا سکا‘۔

خالد کہا کرتا تھا کہ مجھے میرے مہربان استاد نے میرے ابے کی زاری اور میری خدمت کے صلے میں کٹنگ سکھائی، جس نے میرے سارے عیب چھپا دیئے، جب میں اسے چھیڑا کرتا کہ خالد اچھے کاٹے ہوئے کپڑے کی طرح تم میں عیب تو کوئی بھی نظر نہیں آتا تو وہ کہتا کہ سب عیبوں میں سب سے بڑا تعلیم کی کمی کا ہے، میں دن رات میں اٹھارہ، انیس گھنٹے کام کرتا ہوں، جب مجھے ’انھے وا‘ ویگن چلانے والے ہسپتال بھیج دیتے ہیں، تب بھی میں اپنی مشین ہسپتال میں منگوا لیتا ہوں، صرف اس لئے کہ میری انعم ڈاکٹر بن جائے، دونوں بیٹے بھی پڑھ لکھ کر ایسے افسر بن جائیں کہ کوئی ان کا حق نہ مار سکے اور نہ وہ کسی کا حق ماریں۔ پھر میرے پاس خالد سیالکوٹ آیا، ایک آدھ مرتبہ ملتان بھی اور بتایا کہ اسے کینسر ہو گیا ہے، وہ عمران خان کے ہسپتال کی رحم دلی کی بات بڑے جوش سے کرتا کہ اس کے حالات کی وجہ سے اسے چالیس چالیس ہزار کا ٹیکہ مفت لگایا جا رہا ہے لیکن صاف لگتا تھا کہ وہ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے، میں بھی اسے دلاسہ دیتا کہ چار سے پانچ سال جینے کی ہمت خالد پیدا کر لو تو بیٹی تمہاری ڈاکٹر ہو جائے گی اور بیٹا ایف ایس سی کر کے کسی انجینرنگ کالج میں چلا جائے گا، وہ دوسرے بیٹے کی تعلیمی سرگرمی پر چپ ہو جاتا تھا اور عجیب طریقے سے کہتا تھا کہ غریبوں کے تین بچوں میں سے ایک قسمت کا ماڑا ضرور نکلتا ہے اور یوں وہ خاندان غریبی کے چکر سے نہیں نکل سکتا۔ پھر ایسا ہوا کہ چار ماہ پہلے شوکت خانم نے اسے ڈسچارج کیا کہ کچھ مہینے تم کام کر سکتے ہو۔ اس نے پھر گھر گھر پھر کے کپڑے لانے شروع کئے،  مگرایک گھر سے نکلتے ہوئے اسے ایک اندھی ویگن نے ٹکر ماری، دانا و بینا ایسی ٹکروں کے نتیجے میں زخمی ہوکر، مقروض رہ کر ’علاج‘ کے فریب میں مبتلا ہو کر مر جانے والے غریب لوگوں کے اس ’مقدر‘ کو مشیتَ ایزدی کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں حج کے بعد اب عمرے کے سیزن کی بہار ہے، ہے کوئی درد مند مسلمان جو خالد کی بیوہ اور بچوں کی دستگیری کرے؟ مجھے یا دپڑتا ہے اس نے بتایا تھا کہ اس کی بیٹی نے رفاہ انٹر نیشنل کے پیرا میڈیکل کالج سے DPT (ڈپلومہ ان فزیو تھراپی) کر لیا ہے مگر ملازمت کوئی نہیں۔  یہ ان کی بیوہ (ریحانہ خالد) کا رابطہ نمبر ہے 03325139089 اور شناختی کارڈ نمبر :61101-1829582-8 پتا ہے مکان نمبر 3 سڑیٹ1.B، بلاک ای سوان گارڈن اسلام آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).