شرمین عبید چنائے کے خاندان میں کیا خاص بات ہے؟


ان دنوں جنسی ہراسانی کا موضوع گرم ہے۔ ہالی ووڈ کے فلم ساز ہاروے وائن سٹائن نے برگد کے پیڑ سے پینگ باندھ دی ہے۔ جو چاہے، اپنے اندر چھپے ٹارزن کو تھپکی دے اور جھولا جھولے۔ محض نام گنوانے سے کوئی قانونی معاملہ طے نہیں پاتا۔ خبر البتہ بنتی ہے۔

جنسی ہراسانی ایک جرم ہے۔۔۔ یہ اصول بغیر کسی شرط کے قبول ہے۔ اور اس الزام کو غیر ذمہ داری سے دائیں بائیں عائد کرنا بھی اتنا ہی سنگین جرم ہے۔ جنس ایک حقیقت ہے اور قانون نے واضح کر رکھا ہے کہ ایسی جنسی پیش قدمی جسے فریق مخالف ناگوار سمجھے، ہراسانی شمار ہوتی ہے۔ یہ جدید معاشرتی حساسیت ہے اور اسے سیکھنے کے لئے ہمیں لمبی مدت درکار ہو گی۔

کروڑوں برس پر پھیلی انسانی تاریخ میں ہماری پہلی نسل ہے جو مانع حمل وسائل کی موجودگی میں پیدا ہوئی۔ ہمارے والدین کی نسل تک غیر مطلوبہ حمل سے کوئی نجات نہیں تھی۔ شادی کے رشتے میں بندھے افراد کے لئے جنسی فعل پر تجدیدی رضا مندی کا تصور نہیں تھا۔ ہماری نسل نے بندھن کے تصور کو فریقن کی باہم رضا مندی کے ایسے معاہدے میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھا جسے ہر جنسی فعل سے قبل تجدید کی ضرورت ہو۔

ابھی بہت سے معاشروں میں اس معاہدے کو دو افراد کے درمیان تعلق سمجھنا بھی باقی ہے۔ دوسرے لفظوں میں میاں بیوی اور ان کے بچوں پر مشتمل خاندان ایک جدید تصور ہے۔ صدیوں سے ہم ایک صحن کے ارد گرد تعمیر کئے گئے ڈربوں کو خاندان قرار دیتے آئے ہیں۔

ابھی ہم نے یہ سبق بھی پوری طرح سے اپنے رویے، قول اور فعل میں جذب نہیں کیا کہ خالص جنسی کشش سے ہٹ کر جنسی سرگرمی کی کوئی بھی صورت جنسی استحصال ہے۔ خواہ اسے رسم و رواج کا نام دیا جائے یا تقدیس کا لبادہ اوڑھایا جائے، خوف، لالچ، دھمکی، دباؤ، ضرورت اور مجبوری میں کیا گیا جنسی فعل انسانی احترام کے منافی ہے۔ اس صورت میں جنسی ہراسانی کا سوال نہایت نازک ہے اور اسے احتیاط سے اٹھانا چاہیے۔

سمجھنا چاہیے کہ محض جنسی ہراسانی پر حساسیت کی تاکید خلا میں قلعہ تعمیر کرنے جیسی خوش فہمی ہے۔ صنفی مساوات کو سیاسی بندوبست میں ڈھالنا ہے۔ یکساں معاشی مواقع اور مساوی کام کے لئے مساوی اجرت کے اصول پر عمل پیرا ہوئے بغیر صنفی اور معاشرتی مساوات ممکن نہیں۔

زبان، نسل، پیشے، عقیدے اور رنگ کی مساوات حاصل کئے بغیر انسانی احترام اور رتبے کی گاڑی کو ایک ہی سمت میں دھکا دیتے رہنا لاحاصل ہے۔ معاشرہ کلی طور پر مساوی رتبے اور ایک جیسے حقوق کا اصول تسلیم نہیں کرتا تو یک نکاتی مساوات کا انجام وہی ہو گا جو سابق نوآبادیوں میں سیاسی آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں کا ہوا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے درجنوں ممالک میں کروڑوں سادھارن انسان غیر ملکی حکمرانوں کے شکنجے سے نکل کر مقامی بدقماشوں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔ انسانی بہتری کے لئے کلیت کے اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ورنہ ہمیں Reductionism کا عفریت آ لے گا۔ اردو لغت میں اس اصطلاح کا ترجمہ تقلیل پسندی یا تخفیف پسندی بتایا گیا ہے لیکن ایسی سوچ سے بحران، مسئلے اور دکھ میں تخفیف نہیں ہوتی بلکہ الٹا پیچیدہ مسائل کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے سادہ شکل دینے سے نئی الجھنیں رونما ہوتی ہیں۔

محترمہ شرمین عبید چنائے نے سوشل میڈیا پر بتایا ہے کہ ان کی ہمشیرہ ایک ہسپتال میں علاج کی غرض سے گئیں لیکن وہاں کے ایک ڈاکٹر نے انہیں فیس بک پر رابطے کی ریکویسٹ بھیج دی۔ یہ یقیناً ایک حساس معاملہ ہے۔ فیس بک جیسا وسیع رسائی رکھنے والا سوشل میڈیا فورم انفرادی خلوت کے تقاضوں سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ میرے علم کے مطابق صارف کو حق ہے کہ رابطے کی کسی درخواست کو منظور یا مسترد کر دے۔ فیس بک پر رابطے کی ریکویسٹ کو جنسی ہراسانی قرار دینا اس قانون کی غیر محتاط تشریح ہو گی اگرچہ اس ضمن میں ڈاکٹر کی پیشہ ورانہ اخلاقیات بھی مدنظر رکھنا ہوں گی۔ تاہم جنسی ہراسانی، صنفی مساوات اور فرد کے احترام کے لئے شرمین عبید چنائے کی حساسیت قابل تحسین ہے۔

یہ تسلیم کرنے کے بعد شرمین عبید چنائے کی ٹویٹ پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک پر ریکویسٹ بھیجنے والے نے غلط خاندان کا انتخاب کیا ہے۔ شرمین عبید چنائے غالباً خاندان کی اصطلاح کا مفہوم نہیں جانتیں۔ خاندان ایک عورت اور ایک مرد کے جنسی ارتباط سے جنم لیتا ہے۔ تمام خاندان یکساں طور پر قابل احترام ہیں۔ شرمین عبید کے خاندان میں کون سے ایسے پھندنے لٹک رہے ہیں کہ اسے دنیا کے اربوں خاندانوں سے مختلف یا افضل سمجھا جائے۔ مساوات کا مطلب برابری ہے۔ رتبے احترام اور حقوق میں کوئی اعلیٰ ہے اور نہ گھٹیا۔ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے خاندان کو کبھی معاشی مشکلات پیش نہ آئی ہوں۔ کسی حملہ آور لشکر کے زور زبردستی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ کسی قدرتی آفت سے واسطہ نہ پڑا ہو، کوئی حادثہ پیش نہ آیا ہو۔ شریف انسان تو ان سب مراحل سے گزرتے ہیں۔ جسے یہ دعویٰ ہو کہ ازل سے اس کا خاندان عرق گلاب میں غسل کرتا رہا ہے، ان کے دہان گلگوں سے شہد بہتا رہا ہے، ان کی سانسوں سے چراغ جلتے رہے ہیں۔ تو ایسا دعویٰ کرنے والا جھوٹ بولتا ہے یا کم علم ہے۔

محترمہ شرمین عبید چنائے نے یہ بھی لکھا ہے کہ فیس بک پر ریکویسٹ بھیجنے والے نے غلط عورتوں کو ہدف بنایا ہے۔ صنفی مساوات کا اصول واضح اعلان کرتا ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ کسی مرد یا عورت کو کسی مفروضہ رتبے یا فعل کی بنیاد پر صحیح یا غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہر انسان حیاتیاتی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی قوتوں کے توازن میں زندگی گزارتا ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ کوئی عورت غلط یا صحیح ہے، بذات خود پیشے، مالی حالت، مفروضہ سماجی رتبے، عقیدے، رنگ، نسل اور جسمانی خدوخال کی بنیاد پر امتیاز کرنے کے مترادف ہے۔

شرمین عبید چنائے کی بہن کا مکمل احترام ہم پر واجب ہے۔ شرمین عبید چنائے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی بہن کو صحیح عورت اور کچھ مفروضہ عورتوں کو غلط عورتیں قرار دے۔ ہم سب چکی کے پاٹ سے پس کر نکلے ہیں۔ ہم سب کا ایک جیسا احترام نہیں ہو گا تو جنسی ہراسانی اور انسانی احترام کے ضابطے دھندلا جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).