سربت کا بھلا


سکھ دنیا کے جس بھی کونے میں موجود ہو صبح اور شام دو وقت کی مخصوص عبادت کے علاوہ بھی جب عبادت کرے تو وہی دعا کرتا ہے جسے ارداس کہا جاتا ہے۔ ارداس ہمیشہ کھڑے ہوکر اور دونوں ہاتھ جوڑ کر خدا کو حاضر ناظر جان کر کی جاتی ہے اور ارداس پر یقین اتنا ہی پختہ ہوتا ہے جتنا کے خدا کے ہونے پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ بے شک تمام عبادات اور ارداس ایک خدا کے حضور التجا کے طور پر کی جاتی ہیں۔

اسی طرح دنیا بھر میں جب بھی کوئی شخص پاکستان جانے کا نام لے تو اسے ہر ممکن گھناؤنا الزام لگا کر اس کا ارادہ بدلنے کا جہاد لازم سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کہ پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، وہاں کوئی محفوظ نہیں، وہاں طالبانی اڈے ہیں، غربت چوری چکاری بے تحاشا ہے، گئے تو واپس نہیں آؤ گے، اور سب سے اہم غلط فہمی جو بھارت میں مشہورہو چکی ہے کہ پاسپورٹ پر اگر پاکستان کا ویزہ لگ گیا تو کبھی کسی اور دیس کے درشن نہیں ہوں گے۔

لیکن حیرت کی بات ہے ک اتنا ڈرانے کے باوجود بھی تقریبا تین ہزار کے قریب بھارتی سکھ ٹرین بھر کے پاکستان کا رخ بلاناغہ کرتے ہیں اور پوری گنتی میں صحیح سلامت اپنے مکمل ہوش و حواس میں واپس بھی جاتے ہیں۔ ہاں لیکن جاتے ہوئے پاکستانی باشندوں میں مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو روتا ہوا چھوڑ کرجانا اور اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے واپس جانا اب ایک عام رواج ہے۔ کیونکہ سکھ شاید ایسے ہی ہوتے ہیں کہ دنیا کچھ بھی کرے وہ ہمیشہ حق کے راستے پر چلتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جس پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لیے چند عناصر کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے سکھ اپنی ہر ارداس میں جہاں سربت کے بھلے (سب کے بھلے) کی دعا کرتا ہے وہیں پاکستان میں امن اور سلامتی کی عرضی بھی رب کے حضور پیش کرتا ہے۔ اسی پاکستان کے ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب کے درشن دیداروں کی التجا کرتا ہے۔ جو کچھ یوں ہے کہ ”سری ننکانہ صاحب تے پنجہ صاحب تے ہور گوردوارے گوردھام جناں نوں پنتھ توں وچھوڑیا گیا ہے انہاںدے کھلے درشن دیدار تے سیوا سنبھال دا دان خالصہ جی نوں بخشو“ یعنی مختصر کہا جائے تو یہ مسلمان کے مکہ مدینہ جانے اور وہیں کا خادم ہو جانے جیسی درخواست ہے۔

ننکانہ صاحب بابا گورو نانک دیو جی کی جنم بھومی ہے جہاں اب گرودوارہ سری جنم ا ستھان موجود ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی آمد کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر پاکستانیوں کا سکھوں میں باعث عزت ہونے کا سبب بھی یہی ہے۔ درحقیقت روزانہ سینکڑوں مسلمان یہاں حاضری دیتے ہیں وجوہات بے تحاشا ہوتی ہیں لیکن کوئی نہ کوئی کڑی دوسرے ممالک میں مقیم سکھوں سے جا ملتی ہے کوئی پرشاد لینے آیا ہوتا ہے کوئی ارداس کروانے اور اکثر اوقات ویڈیو کال میں دوسری جانب بیٹھا شخص اشک بہا رہا ہوتا ہے جیسے حج کی سعادت حاصل ہو گئی ہو۔

ننکانہ صاحب شہر کی حدود میں کل آٹھ گوردوارے ہیں جو ننکانہ صاحب کو ضلع کا درجہ دیے جانے کے بعد ابھی تک بحال ہو رہے ہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ نے بے شک گوردوارے سنبھالنے کا ذمہ لے رکھا ہے اور ہر سال اینیول رپیئر کے نام پر خاصہ ”چونا“ لگایا جاتا ہے کئی مرتبہ تو چونا میں ٹیکہ بھی شامل کیا جاتا ہے جس کے طریقہ کار کا خلاصہ آئندہ کبھی کیا جائے گا۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ سکھوں کی جانب سے کبھی مانگیں کی جاتی ہیں نہ اعتراضات سامنے آتے ہیں۔

بابا جی کو چاہنے والے اپنی کمائی کا دسواں حصہ راہ حق کے لئے تو مختص کرتے ہی ہیں ساتھ ہی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سیوا بھی کرتے ہیں اس فہرست میں صرف سکھ ہی شامل نہیں۔ گرودوارہ صاحب کی مین فرنٹ بلڈنگ کے رنگ روغن کا کام ڈھیرکی کے ایک نانک نام لیوا پریمی کی جانب سے کروایا گیا جبکہ نگرکیرتن کے لئے ایک مسلمان بھائی ”شاہ جی“ کی جانب سے شہر بھر میں پونے 2 کلومیٹر لمبا قالین بچھایا جا رہا ہے جو خصوصاً ننگے پاؤں یاترا کرنے والے بزرگوں کے لیے سیوا کیا گیا ہے۔ بابا جی کے چاہنے والے ان کے جنم استھان پر یاترا کرنے کے لیے آنے والوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تقیریبات کا سلسلہ تین دن جاری رہتا ہے جس میں آخری دن نگر کیرتن (جلوس) کی شکل میں تمام گورودواروں کی یاترا کی جاتی ہے۔

گورودوارہ وہ واحد جگہ ہے جہاں ہر مذہب رنگ نسل اور جنس کے لوگ بغیر کسی تفریق کے آ کر اپنے رب کو یاد کر سکتے ہیں۔ اس سال بابا جی کا 549 واں جنم دن ننکانہ صاحب میں مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے جس میں یوکے، یو ایس اے اور کینیڈا سے دو ہزار، انڈیا سے تین ہزار، اندرون ملک سے پندرہ ہزار تک یاتری حاضری دیں گے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ تاریخی گوردوارے تو پاکستان میں کافی زیادہ ہیں جن کی حالت زار پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے بے شک اس سے ٹورازم کی بحالی پر بھی گہرا اثر ہوگا اور ساتھ ہی قدیم ورثہ اور تاریخی عمارات کو بھی محفوظ کیا جا سکے گا لیکن فی الوقت سربت دے بھلے کا درس دینے والے شہر کو صاف اور محفوظ رکھنے، آئے مہمانوں کی مہمان نوازی کی قدریں برقرار رکھنے اور آنے والوں کے دل میں اپنی اور پاکستان کی عزت برقرار رکھنے کے لیے ہر پاکستانی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).