ہندوستان کے مسلمانو۔۔۔ طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام


​​​​​انگریزی کا ایک محاورہ ہے، ”Opportunity Knocks Your Door Only Once” یعنی مواقع آپ کے در پر بار بار دستک نہیں دیتے۔ یہ محاورہ محض ایک شخص یا شخصیت پر منطبق نہیں ہوتا، بلکہ قوم، گروہ، ملک اور فوج سب ہی کے لیے بولا جاتا ہے، کہ موقع تو ایک بار ہی ملتا ہے جہاں آپ کو دکھانا ہوتا ہے، آپ اس میں کامیاب رہتے ہیں یا ناکام! بعد میں یا پہلے آپ کتنا ہی ڈھنڈورا پیٹ لیں کہ میرے اندر یہ صلاحیت ہے، اور ہم یہ کرسکتے ہیں، اس سے فائدہ نہیں ہو سکتا۔

مواقع والی بات کا ذکر یوں نکلا کہ گزشتہ دِنوں ہندوستان کی ایک معروف تنظیم کی تقسیم کی خبر، ایک ویب پورٹل نے جاری کردی، جو کہ درست نہیں تھی۔ ایک عالم دین کی نگرانی یا سرپرستی والے پورٹل میں ایک غیر مصدقہ یا ماورائے حقیقت خبروں کا جاری کیا جانا بجائے خود کسی بڑے سانحے سے کم نہیں لیکن سچ ہے کہ غیرذمہ دارانہ صحافت کا ایک بدترین نمونہ ہمارے سامنے اِس خبر کی شکل میں نمودارہوا۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں پورٹل نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ لی اور اس خبر کو اپنی ویب سائٹ سے حذف بھی کر دیا، لیکن اس کی وجہ سے خاصی دیر تک لوگ پریشان رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس تنظیم کے کارکنان سمیت بڑی تعداد میں لوگ دن بھرتشویش میں مبتلا رہے۔ اس معاملے میں جہاں خود ان کے اپنے کارکنان حقیقت جاننے کے لیے بے قرار رہے، وہیں صحافی اور صحافت سے وابستہ افراد بھی گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ کچھ لوگوں نے متذکرہ تنظیم کے ذمہ داران اور اس کے میڈیا سیل کے سربراہ سے رابطے کی کوشش بھی کی، جس میں سے ایک راقم بھی تھا۔ فون کی گھنٹیاں بجتی رہیں لیکن کسی نے بھی کال لینے کی زحمت نہیں کی اور ناہی اس بارے میں اس جماعت کی میڈیا سیل کے ذریعے کوئی تردیدی خبر جاری کی گئی۔

بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، لیکن اس کے عواقب اور اثرات پر غور کریں تو بہت چیزیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔ ہندوستان میں عام طور پر مسلمان یہ شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا ان کی خبروں کو جان بوجھ کر نظرانداز کرتا ہے اور یہ کہ مین اسٹریم میڈیا میں چوں کہ ایک خاص ذہنیت سے تعلق رکھنے والے افراد کا قبضہ ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کے معاملے میں عصبیت پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ خیال کسی حد تک درست ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کا رویہ اچھا نہیں ہے، لیکن یہ خیال مکمل طورپر سچ بھی نہیں ، بلکہ ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔

میڈیا میں خبریں مِنٹوں میں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ خبروں کے بننے اور بگڑنے میں متعلقہ افراد کی چستی اور پھرتی نیز سستی اور کاہلی کا بھی کلیدی کردار ہوا کرتا ہے۔ بالفاظ دگر خبروں کے ’یوٹرن‘ لینے کے معاملوں میں صاحبان معاملہ کے رسپانس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اس معاملے میں مسلمان یا مسلم قائدین اتنے ہی غافل یا سست رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو صحافی یا خبر نگار یہ چاہتا بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل یا اس سے متعلق ایشوز پر مسلم قارئین کا ردِعمل سامنے لائے، اُسے اِس مقصد میں اکثر اوقات کامیابی نہیں مل پاتی کیونکہ ہمارے قائدین عین وقت پر دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ یوں اکثر صحافی حضرات یا تو مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا اس حوالے سے جو اسٹوری منظرعام پرآتی بھی ہے، وہ حقیقی صورت احوال کو منعکس نہیں کر پاتی۔

اس کے برعکس دوسری قوموں کے افراد یا تنظیموں کو دیکھیں تو نہ صرف یہ کہ ان کے تعلقات صحافیوں سے بہت اچھے ہوتے ہیں، بلکہ وہ خبروں کے لیے بڑی تعداد میں صحافیوں کو مواد اور وسائل مہیا کرتے ہیں۔ آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات اکٹھا کی جاتی ہیں، صحافیوں سے رابطہ کر کے انھیں مواد فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس کو منظرعام پر لائیں اوردُنیا ان کے معاملوں سے واقف ہو۔ خود اپنے ملک میں کسی ایک عیسائی یا ہندو یہاں تک کہ دلتوں کے ساتھ بھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجاتا ہے، تو وہ بہتر انداز میں میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہم اور ہماری ہر ادا نرالی معلوم پڑتی ہے، کہ ہمارے قائدین حساس مواقع پر بھی گوشۂ عافیت میں آرام کرنے اور میڈیا کے محاذ پر پٹ جانے کو ترجیح دینے کے عادی بن کر رہ گئے ہیں۔

یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی وجہ سے میڈیا ہمیں گھاس نہیں ڈالتا اور پھر ہم رونا روتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ اپنے ملک میں صرف ایک تنظیم یا تحریک کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس معاملے میں ساری تنظیمیں کم و بیش ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ یعنی ہمارے قائدین کا یہ ایک عمومی رویہ ہے، جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ کہنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنھیں فون کیا جا رہا تھا، اس وقت وہ مصروف رہے ہوں گے، کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو اس سے انکار کرے گا، لیکن اپنے آپ میں یہ مسئلہ تب اہم بن جاتا ہے، جب آپ ایک داعی قوم یا ذمہ دار قائد کے موبائل فون کی گھنٹیاں بار بار بجائیں، فون رِسیو نہ ہو اور کال بیک کے ذریعے جواب دینے کی بھی زحمت نہ کی جائے! اخلاقی نہج پر بھی اور قیادت کی ذمہ داری نبھانے کے حوالہ سے بھی یہ نکتہ اہم ہوجاتا ہے۔ میڈیا میں اقلیتی امور سے متعلق بہت عرصے سے خبر نگاری اور احوال کے بارے میں لکھتے رہنے کی وجہ سے بارہا اس کرب سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ جب ملی قائدین کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور تجاہل عارفانہ والا ہوتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی معاملے پر اُمت کے اوپر جب اُفتاد پڑتی ہے اور اس معاملے میں ہمارے قائدین یا تنظیموں کے سربراہان سے رابطے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ میڈیا کے لیے فون پر بھی دستیاب نہیں ہوتے، چہ جائیکہ آپ بہ نفس نفیس اُن سے ملیں اوراُن کا موقف جان سکیں۔ آپ خود سوچیے جہاں میڈیا کی اخلاقیات کو سر عام نیلام کر دیا گیا ہو اور جہاں روزانہ بڑے بڑے میڈیائی ادارے اپنے مفادات کی خاطر خریدے اور فروخت کیے جا رہے ہوں، کس کوکیا ضرورت پڑی ہے کہ آپ کی عدم دل چسپی یا غیر اخلاقی رویے کے باوجود آپ کی بات کو رکھے۔

مختلف مسائل پر مسلم قائدین کے نظریات جاننے کی غرض سے کئی بارعام صحافی مسلم قائدین یا تنظیموں کے سربراہان سے رابطوں کی صورت دریافت کرتے ہیں، جب مسلم تنظیموں سے وابستہ ذمہ داران یا قائدین کے رابطوں کا نمبر دیا جاتا ہے، توصحافیوں کی یہی شکایت رہتی ہے کہ یہ فون کال تو لی نہیں جارہی ہے۔ آپ صحافیوں پر صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کا الزام عائد کرکے کچھ دیر کے لیے جان چھڑا سکتے ہیں، مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ صحافی بھی انسان ہوتا ہے اور جب آپ کا غیر اخلاقی رویہ اسے بار بار دیکھنے کو ملتا ہے تو وہ آپ کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے۔ آخرہم ہندی مسلمان کب تک معجزوں کے انتظار میں اپنے حجروں میں شکایت کرتے رہیں گے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں؟​​

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah