مریم کے خاندان کا فیصلہ اور ڈری سہمی جمہوریت


ہمیشہ بحث اسی بات پر رہی ہے اور ادب کے ساتھ اپنے بہت سے پیاروں سے بھی اختلاف کرلیتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ جس چیز کو ہمارے سامنے جمہوریت کے نام سے پیش کیا جاتا ہے وہ جمہوریت کا ملغوبہ ہے جمہوریت نہیں۔ وجہ یہ کہ نہ ہمیں جمہوریت مافق آتی ہے نہ ہمارے رویے جمہوری ہیں اور نہ ہی ہم جمہوریت سے واقف ہیں۔

جمہوریت کے حق میں ہمیشہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ بوٹوں والوں نے جمہوریت آنے ہی کب دی، یہ جب بھی سنبھلنے لگتی تو اس پر شب خون مارا گیا۔ اگر وقت دیا جائے تو ایک مسلسل پرارتقائی عمل سے گزر کر نہ صرف جمہوریت مضبوط ہو گی بلکہ اس کی خامیاں بھی ساتھ ساتھ درست ہوتی جائیں گی۔ ہماری عرض ہمیشہ یہی رہی ہے کہ جمہوریت سیاستدانوں کے کرتوتوں، وجہ اور خواہش سے ہی پٹڑی سے اترتی رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں اور نہ ہی عوام کو اس کی کوئی خواہش ہے۔ جب تک جمہوری رویے، جمہوری سوچ عوام کے اندر پیدا نہیں ہوگی اتنی دیر تک آپ جتنا مرضی جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھا لیں یہ آگے کا نہیں بلکہ دائرے کا سفر ہی رہے گا۔

عوام اسی طرح کی نیم چڑھی جمہوریت اور خطرہ ایمان قسم کی آمریت کے ملغوبے کو قبول کرچکے ہیں۔ سوائے چند سر پھروں کے جو جمہوریت کو واقعی بہتر سمجھتے ہیں یا ان لوگوں کے جن کے مفادات پر کسی بھی نظام میں ضرب آرہی ہو سسٹم بدلنے کی کسی کو نہ خواہش ہے نہ ضرورت۔ یقین نہیں آتا تو مختلف پارٹیوں میں موجود ان ’’ امیر مقاموں‘‘ کو دیکھ لیجیے جو کل مشرف کی جمہوریت پر بدل وجان فدا تھے اور آج نواز شریف کی جمہوریت کے گن گاتے ہیں کہ ان کو ان کا حصہ کل بھی مل رہا تھا، آج بھی۔ اسی طرح ان ’’شیخ رشیدوں‘‘ پر بھی نظر ڈالیے جن کو حصہ بمطابق جثہ (جثہ جسمانی مراد ہے) نہیں ملا اور وہ پچھلے کئی سالوں سے ہوا کی سائیں سائیں کو بھی بوٹوں کی خوشگوار چاپ سمجھ کر سن اور سنا رہے ہیں۔ ابھی بھی یقین نہیں آیا تو محترمہ مریم نواز کا حالیہ انٹرویو ملاحظہ فرما لیں کہ ’’خاندان کا فیصلہ تھا کہ میں پارٹی سنبھالوں‘‘۔ یہ ہے جمہوریت جو اس ملک میں رائج ہے اور ہے جمہوری کلچرجس کے لئے ہمارے پیارے مخلصِ جمہوریت دوست دن رات خواب دیکھتے ہیں۔ یہی محترمہ ایک دفعہ جے آئی ٹی میں پیشی کے دوران ’’ ہم حکمران خاندان‘‘ کا مژدہ بھی سنا چکی ہیں۔ یہ ہے وہ مستقبل کی قیادت اور ترقی پذیر جمہوری سوچ جو وقت کے ساتھ ساتھ ’’ترقی‘‘ کررہی ہے۔

سونہ جمہوریت آگے بڑھتی ہے نہ ہماری بحث۔ پہلے مرغی یا پہلے انڈا، بحث اسی مدار میں ہے اور نجانے کب تک رہے گی۔

چوہدری نثار ہوں، چوہدری اعتزاز احسن ہوں، خواجہ سعد رفیق ہوں یا کوئی اور وزیر، مشیر انہیں اپنی پسند کی وزارت یا اپنے اختیار سے غرض ہے شخصی آمریت کو وہ بدل وجان قبول کرچکے۔ عوام کا ایک طبقہ آج بھی بھٹو کو زند ہ رکھے بیٹھا ہے اور آج بھی میاں دے نعرے وجن گے سے دل بہلا رہا ہے اس طبقے کی ترجیح قیمے کے نان سے شروع ہو کر تھانے کچہری سے چھوٹ جانے تک محدود ہے۔ دوسرے طبقے کی غرض مرضی کی نوکری، بزنس پرمٹ کے حصول، رشوت ستانی یا ٹیکس فراڈ سے چھوٹ تک ہے۔ اورنام نہاد اشرافیہ کے لئے دونوں طرز حکومت ’’ ایڈونچر ‘‘ ہیں کیونکہ ان کے رشتہ دار، قریبی دوست جرنیل اور بیورکریٹ بھی ہیں اور تمام پارٹیوں کے مرکزی عہدیدار بھی۔ ان کے لئے مشرف کے دور میں بھی ان کی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں اور نواز شریف کے دور میں ان کے سر کڑاہی میں ہوتے ہیں۔

نتیجہ یہ کہ آٹے میں نمک کے برابر کچھ لوگوں کے برخلاف نہ ہمارے رویے جمہوری نہ ہمیں جمہوریت کی کوئی سمجھ نہ ضرورت۔ مریم نواز کا خاندان انہیں پارٹی سربراہ منتخب کرے، ادی فریال ووٹ ڈالنے کا شاہی فرمان جاری کرے، آغا سراج درانی اسی ووٹ پر پیشاب کرے ہماری بلا سے۔ ہم توہر ڈھول پیٹنے والے کے پیچھے مسمرائز ہو کر چل دیتے ہیں اور ابھی چلتے رہیں گے خواہ وہ ڈھول روحانیت کا ہو، آمریت کا ہو یا جمہوریت کا کیونکہ ہمارے خاندانوں نے ہمیں غلام ابن غلام ابن غلام رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).