سریش چندر چٹوپادھیا نے قرار داد مقاصد کے بارے میں کیا کہا؟


\"05TH_JINNAH_1477294f\"(12 مارچ1949 ءکو دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد کے بارے میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف سریش چندر چٹوپادھیا کی تقریر کا متن ’ہم سب‘ کے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔)

جناب صدر ! میں نے سوچا تھا کہ اب جبکہ میرے خاص دوست بھوپندر کمار دتہ کانگریس پارٹی کی طرف سے دو ترامیم پر بات کر چکے ہیں، میں اِس بحث میں حصہ نہیں لوں گا۔ اُنھوں نے اپیلوں اور دلیلوں کے ذریعے کانگریس کا موقف پوری طرح واضح کیا، لیکن جب میں نے اکثریتی جماعت یعنی مسلم لیگ کی جانب سے چند مقررین کو سُنا اور اُنھوں نے جس انداز میں مذکورہ قرارداد کی تعبیر کرنے کی کوشش کی تو میرے لیے بھی اِس بحث میں حصہ لینا لازم ہو گیا۔

میں نے ڈاکٹر ملک (عمر حیات ملک) کو بات کرتے ہوئے سُنا ہے اور میں اُن کے نقطہ نظر کی تحسین کرتا ہوں۔ اُنھوں نے کہا کہ ”ہم نے پاکستان ایک مسلم ریاست کے قیام کی خاطر حاصل کیا تھا اور مسلمانوں نے اِس کی خاطر بہت سی تکالیف اُٹھائی تھیں لہٰذا کسی کا اِس کے خلاف بات کرنا قطعاً پسندیدہ اَمر نہیں“۔ میں اُن سے بہت حد تک اتفاق کرتا ہوں۔ اُنھوں نے فرمایا ”اگر ہم ایک مسلم ریاست قائم کر لیتے ہیں اور اگر ہمارا طرز عمل شدید ردعمل پر مبنی بھی ہو جاتا ہے تو اِس کے خلاف بولنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟“ یہ ایسا نقطہ نظر ہے جسے میں بخوبی سمجھتا ہوں لیکن یہاں کچھ مشکل بھی درپیش ہے۔ ہم نے بھی ملک کے اُس حصے میں آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ہم نے پورے برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ جب ہمارے سابق حکمران یعنی انگریز ملک چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے تو ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصہ پاکستان بن گیا جبکہ دوسرا ہندوستان ہی کہلایا۔ اگر ریاست پاکستان میں صرف مسلمان ہی آباد ہوتے تو پھر معاملہ دوسرا تھا مگر پاکستان میں غیر مسلم بھی آباد تھے اور جب مسلمان تقسیم کا مطالبہ کر رہے تھے تو آبادی کے تبادلے کی کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ اگر آبادی کا تبادلہ بھی زیر بحث آیا ہوتا تو پھر معاملہ طے ہو جاتا اور ڈاکٹر ملک پاکستان کو اپنے مَن چاہے طریقے میں ڈھال لیتے اور اپنی مرضی کا آئین مرتب کر لیتے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ پاکستان کے جس حصے میں ڈاکٹر ملک مقیم ہیں، غیر مسلموں سے خالی کیا جا چکا ہے۔ یہ ایک اَمر واضح ہے۔

ڈاکٹر عمر حیات ملک : (نقطہ¿ اعتراض پر) میں نے ایسا نہیں کہا تھا۔ وہ میری بات بالکل غلط سمجھے ہیں۔

\"images\"سرِیش چندرچٹوپادھیائے : یہ میں نے کہا ہے کہ ملک کے جس حصے میں ڈاکٹر ملک مقیم ہیں ، غیر مسلموں سے خالی کیا جا چکا ہے۔ میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ڈاکٹر ملک کے کہنے کے مطابق پاکستان غیر مسلموں سے خالی کیا جا چکا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔ مگر ہمارا تعلق مشرقی بنگال سے ہے جس کی ایک چوتھائی آبادی اب بھی غیر مسلموں پر مشتمل ہے اِس لیے جو بھی آئین تشکیل دیا جائے گا تو اِس اَمر کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری بنتا ہے کہ ہمارے مفادات کو پیش نظر رکھا جا رہا ہے۔ ہم مشرقی بنگال کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہے۔ یہ ہماری مادر وطن ہے، ہم یہاں نقل مکانی کر کے نہیں آئے تھے۔ میرے آباﺅ اجداد یعنی ہمارے خاندان کے بانی اُس وقت کے بنگال کے بادشاہ کی دعوت پر کوئی ہزار برس پہلے مشرقی بنگال میں آئے تھے۔ میں اُن کی ستائیسویں پشت سے تعلق رکھتا ہوں لہٰذا مشرقی بنگال میری سرزمین ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ مشرقی بنگال اور مشرقی پاکستان میرا بھی اتنا ہی وطن ہے جتنا کہ کسی مسلمان کا اور پاکستان کو ایک عظیم، خوش حال اور طاقتور مملکت بنانا میری بھی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ یہ قوموں کی برادری میں باعزت مقام حاصل کر سکے، کیونکہ میں خود کو پاکستانی کہلواتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان یقینا ایک عظیم مملکت بنے۔ یہ مشرقی بنگال میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں سبھی کی خواہش ہے۔ مشرقی بنگال سے بہت کم لوگ ہجرت کر کے گئے ہیں، غالباً 5فی صد اور میرے اندازے کے مطابق شاید اتنے بھی نہیں۔ یقینا بعض حلقوں نے دیگر اندازے بھی لگائے ہیں اور کچھ کے خیال میں 10لاکھ افراد نے ہجرت کی۔ ہم مشرقی بنگال میں امن سے رہ رہے ہیں، اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ امن و دوستی سے جیسا کہ ہم نسلوں سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا میری شدید خواہش ہے کہ اِس ملک کا آئین موزوں ہو۔ میں نے اِس قرارداد کا بغور جائزہ لیا ہے اور اپنے معزز دوست جناب لیاقت علی خان کے خوب سوچے سمجھے اور الفاظ کے درست انتخاب پر مبنی بیان کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کیا ہے۔ مگر قرارداد اور مذکورہ بیان کو بغور پڑھنے کے بعد، حتیٰ کہ دونوں ڈاکٹرصاحبان اور دیگر معزز دوستوں کی تقاریر سُننے کے بعد بھی میں اپنی رائے تبدیل نہیں کر سکا۔ میں خود کو یہ قرارداد تسلیم کرنے پر مائل نہیں کر پایا او رمیرا اپنی پارلیمانی پارٹی کو بھی یہی مشورہ ہو گا کہ اِس قرارداد کی مخالفت کی جائے۔ جہاں تک پہلے پیرا گراف کا تعلق ہے :

”جیسا کہ تمام کائنات کی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اُس نے جو اختیارات ریاست پاکستان کواُس کے عوا م کی وساطت سے اپنی بیان کردہ حدود کے مطابق استعمال کرنے کی غرض سے سونپے ہیں، وہ ایک مقدس ذمہ داری ہیں“۔

میں سمجھتا ہوں کہ قرارداد کے اِس حصے کو حذف کر دینا چاہیے۔ میری سوچ کے مطابق تمام اختیارات عوام کے پاس ہوتے ہیں اور وہ اپنے اختیارات کا استعمال ریاست کے ادارے کے ذریعے کرتے ہیں۔ ریاست محض اُن کی ترجمان ہوتی ہے۔ یہ قرارداد ریاست کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عوام کی وساطت سے حاصل ہونے والے تمام اختیارات کو ”محض ریاست کے ذرائع“ کی حیثیت دے دیتی ہے۔ لوگوں کو کوئی قوت یا اختیار حاصل نہیں اور اِس قرارداد کے مطابق اُن کی حیثیت محض ڈاک خانے کی سی ہے۔ ریاست اپنے اختیارات کا استعمال اُس (اللہ تعالیٰ) کی طے کردہ حدود کے تحت کرے گی۔ یہ حدود کیا ہیں اور اِن کی تعبیر کون کرے گا؟ کیا ڈاکٹر قریشی یا میرے محترم مولانا شبیر احمد عثمانی یہ فریضہ انجام دیں گے؟ کسی اختلاف کی صورت میں کس کی تعبیر حتمی کہلائے گی؟ یقینا یہ کام اِن حضرات کا نہیں۔ کسی روز کوئی لوئی چہار دہم آئے گا اور اعلان کردے گا ”میں بذاتِ خود ریاست ہوں جسے خداوند تعالیٰ نے مسح دیا ہے“۔ اور یوں وہ زمانہ قدیم کے رواج کے مطابق بادشاہ کے اُلوہی حق حکمرانی کی تجدید کر دے گا۔ میرے نزدیک ”جاترا جیبا تاترا شیوا“( زبانِ خلق ہی نقارہ¿ خدا ہے)۔ لوگ بجائے خود خدا کے عطا کردہ اختیارات کا مظہر ہیں۔

میرے تصور کے مطابق کوئی بھی ایسی ریاست جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں، وہاں ریاستی نظام میں مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور اُس کی حیثیت ہمیشہ غیر جانب دار ہونا چاہیے یعنی کسی بھی مذہب کے خلاف کوئی تعصب نہیں پایا جانا چاہیے۔ اگر ضروری ہو تو وہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں معاملہ کرے۔ اِس میں کسی مخصوص مذہب کے ساتھ رعایت یا رواداری کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اِس سے احساس کمتری کا سدباب ہو جاتا ہے۔ ریاست کو تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہیے :کسی ایک پر مسکراہٹیں نچھاور کرنے اور دوسرے پر ناک بھوں چڑھانے کا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کا کسی مذہب سے منسلک ہونا ایک خطرناک اُصول ہے۔ گزشتہ تجربات ہمیں اِس بات سے خبردار کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اِس سنگین غلطی کو پھر نہ دہرایا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ لہٰذا میرا نقطہ¿ نظر یہی ہے کہ اقتدار اعلیٰ عوام کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔

اب دستور ساز اسمبلی کے لوگوں کی نمائندگی کرنے پر بات کرتے ہیں۔ یہ دستور ساز اسمبلی ایک تحریری قانون یعنی انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے ذریعے وجود میں آئی تھی جس میں ایک رُکن کو دس لاکھ افراد کی نمائندگی دی گئی تھی اور اِسے براہ راست نہیں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی طرف سے منتخب کیا جانا تھا۔ یہ یہاں پر آئین تشکیل دینے کی خاطر بیٹھے ہیں۔ اِنھیں اِس کام کا قانونی اختیار حاصل ہے مگر وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔ وہ محض ایک قانون ساز ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اب میں چوتھے پیراگراف کی طرف آتا ہوں :

”اِس مقصد کے لیے اسلام کے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اُصولوں کی کامل پیروی کی جائے گی۔ “

یقینا یہ بہت خوش نما الفاظ ہیں : جمہوریت، آزادی، مساوات اور دیگر تمام اُمور۔ اِس حصے کے بارے میں مجھے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند مولانا حضرات سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اُنھوں نے جو کچھ مجھے بتایا وہ یقینا اُن کی مذہبی کتابوں کے حوالے ہوں گے۔ میں اُنھیں یہاں دہراتا ہوں اور اگر کوئی غلطی کروں تو براہ کرم میری تصحیح کر دی جائے۔

اِس حوالے سے آپ ”مساوی حقوق“ کی بات کرتے ہیں مگر اِس کے ساتھ ہی اسلام کی عائد کردہ تحدیدات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ کیا کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی مساوی حقوق موجود ہیں؟ کیا کہیں پر…………

ایک معزز رکن اسمبلی : ”اسلامی ممالک میں ایسا ہی تھا“

…….. یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نہیں تھا۔ ہم یہاں پرصرف آئین تشکیل دینے کی غرض سے کانگریس پارٹی اور مسلم لیگ پارٹی میں منقسم ہیں اور میرا خیال ہے کہ آئین تشکیل دے دینے کے بعد ہمیں انتخابات کا سامنا ہے اور غالباً سیاسی جماعتیں بھی مختلف بنیادوں پر متحد ہوں گی۔ ممکن ہے کانگریس پارٹی موجود نہ ہو، ممکن ہے مسلم لیگ موجود نہ ہو کیونکہ کانگریس نے آزادی حاصل کرنے کا اپنا مقصد پورا کر لیا ہے اور مسلم لیگ نے بھی پاکستان حاصل کر لیا ہے۔ ممکن ہے متمول اور محروم لوگوں کی جماعتیں مقابلے پر اُتریں اور ایسا ہونا لازم ہے اور عین ممکن ہے کہ محروم لوگوں کی قیادت کوئی غیر مسلم راہنما کر رہا ہو۔ کیا اُسے ایک مسلمان ریاست میں انتظامیہ کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کی اجازت دی جائے گی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں کوئی غیر مسلم انتظامیہ کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ میں نے اِس مسئلے پر استفسار کیا اور مجھے یہ بتایا گیا کہ اُسے ایک مسلمان ریاست میں انتظامیہ کا سربراہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پھر یہ سبھی کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جس ملک کا سربراہ کوئی غیر مسلم ہو ، وہاں نماز جمعہ ادا کی جا سکتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جس ملک میں کوئی غیر مسلم انتظامیہ کا سر براہ ہے ، جیسا کہ متحدہ ہندوستان میں انگریز انتظامیہ کے سربراہ تھے، اسلامی احکامات کی تعبیر کے مطابق جن کے بارے میں مجھے ذاتی طور پربہت زیادہ علم نہیں، وہاں نماز جمعہ ادا نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں اور میرے خیال میں معزز صاحب صدر بھی اِس بارے میں جانتے ہوں گے کہ فرید پور کے ضلع میں دُودومیاں کی جماعت جمعہ کی نماز ادا نہیں کرتی تھی۔ اُن کے پوتے پیر بادشاہ میاں نے مجھے بتایا کہ ”کسی ایسے ملک میں جہاں کا سربراہ کوئی غیر مسلم ہو، نماز جمعہ ادا نہیں کی جا سکتی۔ “ لہٰذا ”اسلام کی طرف سے بیان کردہ مساوی حقوق“ کے الفاظ ، اور میں کوئی اور الفاظ استعمال نہیں کر رہا، ایک تلبیس ہیں۔ یہ ہم لوگوں یعنی غیر مسلموں کے لیے ایک دھمکی ہیں۔ اسلام کے بیان کردہ احکامات کے مطابق کوئی مساوی حقوق نہیں ہو سکتے۔ اگر ریاست کا قیام مذہب کے عمل دخل کے بغیر وجود میں آتا ہے تو کوئی بھی فرد خواہ وہ ہندو ہے، مسلمان، مسیحی یا بدھ اگر وہ ووٹ حاصل کر لے تو اِس ریاست کا سربراہ بن سکتا ہے۔ اگر ایک کتاب کے الفاظ کے مطابق دیکھا جائے تو بہت مشکل پیدا ہو سکتی ہے، یہ میری کانگریس پارٹی کی کتاب نہیں بلکہ لاہور سے شائع ہونے والی اور جماعت اسلامی کی مطبوعہ ہے جو مجھے دی گئی تھی۔ میں اِس کتاب کے صفحہ 20 سے چند سطور پڑھ کر سناتا ہوں :

”اسلام میں جمہوریت نہیں ہے ؛کیونکہ جمہوریت اُس مخصوص طرز حکومت کو دیا جانے والا نام ہے جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کو حاصل ہوتا ہے اور جس میں قانون سازی کا انحصار اپنی صورت اور مشمولات دونوں اعتبار سے رائے عامہ کی قوت اور ہمت پر ہوتا ہے اور قوانین میں تبدیلی اور ترامیم اِس رائے عامہ میں تبدیلی کی مطابقت سے لائی جاتی ہیں۔ اگر عوام کی بڑی تعداد کی طرف سے کوئی مخصوص قانون سازی مطلوب ہے تو اِسے تحریری قوانین کی کتاب میں جگہ دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، اگر عوام کسی قانون کو ناپسند کرتے ہیں اور اِس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اِسے موقوف کر دیا جاتا ہے اور یہ مزید مو¿ثر نہیں رہتا۔ لہٰذا اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی جسے موجودہ مخصوص اصطلاح کے مطابق جمہوریت کہا جا سکے“۔

میرے معزز دوست سردار عبدالرب نشتر نے اگلے روز کہا تھا ”نام میں کیا رکھا ہے؟“ میں بھی یہی بات دہراﺅں گا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے نام کچھ بھی رکھ دیا جائے اِس سے تھیاکریسی (مذہبی پیشوائیت) کی بُو آتی رہے گی۔

سردار عبدالرب خان نشتر: کیا آپ جانتے ہیں کہ اُس آدمی (سید ابوالاعلیٰ مودودی) کے ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا؟ وہ جیل میں ہے۔

سریش چندر چٹوپادھیائے: یہ ایک مختلف معاملہ ہے (اور اپنا بیان جاری رکھتے ہیں :)”اِس کے لیے زیادہ موزوں نام خدا کی بادشاہی ہو سکتا ہے جس کے لیے انگریزی میں ”تھیاکریسی“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

مجھے آپ کی تھیاکریسی یا مذہبی طریقہ کار کے بارے میں بہت زیادہ علم نہیں مگر اُنھوں نے مجھے اسلام کے بارے میں بہت سی باتیں بتائی ہیں۔

اور پھر آپ کو اسی کتاب میں یہ متن بھی ملتا ہے :”کسی بھی قانون کو تبدیل نہیں کیا جا سکے گا تاوقتیکہ اِس کا حکم خدا کی شریعت میں نہ پایا جائے۔ قوانین میں تبدیلی مسلمانوں کے درمیان اجماعِ آرا کے ذریعے لائی جاتی ہے۔ “

چنانچہ اگر کسی قانون میں تبدیلی مقصود ہو، تو یہ صرف مسلمانوں کے ووٹ ہی کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہم کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ میرے نزدیک اِس قرارداد میں بہت سے تحفظات فراہم کیے گئے ہں لیکن میں انھیں بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ الفاظ تو موجود ہیں لیکن کوئی ایسا قانون موجود نہں جس کے ذریعے انھیں عمل میں لایا جا سکے۔ یہ آخری حد ہے۔ اگر غیر مسلم ووٹ نہیں دے سکتے تو پھر ہمارے یہاں آ کر آئین تشکیل دینے کا کیا فائدہ ہے؟ اگر ہمیں قانون سازی کے لیے ووٹ دینے کا حق مل بھی جائے لیکن اگر کوئی غیر مسلم ملک کا صدر بننا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔ اگر وہ کسی ایسے فرد کو منتخب کرنا چاہیں جو غیر مسلم ہے تو ایسا فرد ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر مجلس دستور ساز کا رُکن نہیں بن سکتا۔ ہم ووٹ دے سکیں گے، مگر ہم صرف جناب نشتر کے لیے ووٹ دے سکیں گے اور چندر چٹوپادھیائے کے لیے نہیں جو ایک غیر مسلم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ اِس قرارداد کو منظور کروا سکتے ہیں کیونکہ آپ اکثریت میں ہیں اور میں اکثریت کے جبر سے بخوبی واقف ہوں۔ مگر ہم اِس میں رضامندی ظاہر کرنے والے رفیق کے طور پر شامل نہیں ہو سکتے ؛ہمیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اِس کی مخالفت کرنا ہو گی اور ہم اِس قرارداد کو قبول کرکے خودکشی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو ایک مسلم ریاست میں غیر مسلم کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا وہ جی حضوری کرنے والوں کا کردار ادا کریں گے، پانی بھریں گے اور لکڑیاں کاٹا کریں گے؟ کیا آپ توقع رکھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی عزت نفس رکھنے والا اِنسان اِس حیثیت کو قبول کرلے گا اور مطمئن ہو کر بیٹھ جائے گا؟ اگر مذکورہ قرارداد کو منظور کر لیا گیا تو غیر مسلموں کی وہ حالت ہو جائے گی کہ اُنھیں بالاتر اکثریت کی طرف سے بطور رعایت یا ترس کھا کر جو کچھ بھی مل جائے وہ اُس کی طرف نظریں لگائے بیٹھے رہیں گے۔ کیا یہی حقوق کی مساوات ہے؟ کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ غیر مسلموں کی حیثیت قدیم روما کے عامیوں کی سی ہو گی؟ ممکن ہے مسلم معاشرے کے ارکان کے اندر قدیم روما کے اشرافیہ اورعامیوں جیسا فرق موجود نہ ہو مگر سوال تو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان امتیاز کا ہے۔

اِس قرارداد کے بارے میں یہی کچھ ہے۔ اب ڈاکٹر قریشی نے غیر مسلموں کے ساتھ احساس خوف کو منسوب کیا ہے اور اقلیتوں کے طرز عمل کے بارے میں ایک نیا لفظ وضع کیا ہے۔ اُنھوں نے غیر مسلموں کو متنبہ کیا ہے اور اُن سے خوف کو ترک کر دینے اور اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمارا طرز عمل کس چیز کی عکاسی کرتا ہے؟ ہم کسی سے بھی خائف نہیں۔ ہم کانگریس کے لوگ کسی بھی فرد یا کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں تھے۔ ہم اب بھی مشرقی پاکستان میں رہ رہے ہیں اور بھاگ کر کہیں نہیں جا رہے۔ ہم اپنے بھائیوں سے مشرقی پاکستان چھوڑ کر نہ جانے اور زمین کا ایک بھی چپہ کسی کے حوالے نہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ مغربی پاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں غیر مسلم چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ مگر ہم نے وہیں پر آباد رہنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ جہاں تک رویے کا سوال ہے تو اِس کا انحصار اکثریتی کمیونٹی کے طرز عمل پر ہوتا ہے کہ وہ اقلیتی کمیونٹی کا اعتماد جیت لے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے طرزِ عمل سے اکثریت کے اندر اعتماد پیدا نہیں کر سکتے۔ اکثریت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایسے طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ اقلیت اُن سے خوف زدہ نہ ہو اور اُن کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی : (ذاتی وضاحت کے ایک نکتے پر) جناب اعلیٰ! میں نے اپنی تقریر میں ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا یا یہ عندیہ ظاہر نہیں کیا کہ حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے میرے دوست کسی دیدہ خوف میں مبتلا ہیں۔ بدقسمتی سے اُنھیں کوئی نادیدہ خوف ستائے جا رہا ہے اور میرا نکتہ یہ تھا کہ قرارداد مقاصد میں ایسے کوئی اُصول شامل نہیں کیے گئے جو اُنھیں خوف میں مبتلا کر سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے دوست بہت بہادر ہیں اور وہ کہیں بھاگ کر نہیں جائیں گے اور میں یقینا ً جانتا ہوں کہ …………
صاحب صدر : آپ کی ذاتی وضاحت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

سریش چندر چٹوپادھیائے : یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مذہب کا سوال کھڑا کر کے اکثریت اور اقلیت کے درمیان اختلافات کو دوام بخشا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ کب اور کہاں تک جائے گا، کوئی نہیں جانتا اور جیسا کہ ہم لوگوں کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا، تعبیر کا اختلاف ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مسلمہ اُصول یہ ہے کہ اکثریت اپنے منصفانہ برتاﺅ کے ذریعے اقلیت کے اندر اعتماد پیدا کرے۔ جبکہ ایک طرف تواِس قرار داد کے معزز محرک احترام کا وعدہ کرتے ہیں اور دوسری طرف نائب وزیر ڈاکٹر قریشی اقلیتی کمیونٹی کے لیے فراخ دلی کا ثبوت دینے یا اُن کی مشکلات کا احساس کرنے کی بجائے اُلٹااُنھیں اپنے رویے سے اکثریتی کمیونٹی کا دل جیت لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ قانون سازی کے اِس ایوان میں یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ وزیر اعظم تو اپنے الفاظ پر قائم رہتے ہیں لیکن دیگر ارکان کو یہ بات گوارہ نہیں کہ حزب اختلاف صحیح معنوں میں حزب اختلاف والے جذبے کے ساتھ کام کرے۔ اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ حزب اختلاف تابع فرماں بن کر رہے۔ ڈاکٹر قریشی کی سوچ کا انداز بھی یہی ہے کہ اقلیتوں کو اپنے اُوپر کی جانے والی کرم فرمائیوں پر شکر گزار ہونا چاہیے اور اُس بد سلوکی پر کبھی شکوہ نہیں کرنا چاہیے جو اُن کے ساتھ روا بھی رکھی جا سکتی ہے۔ اُن کے نزدیک اقلیتوں کے مسئلے کا یہی ایک حل ہے۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: جناب والا! میں ایک مرتبہ پھر ذاتی وضاحت کا نقطہ¿ اعتراض اُٹھانا چاہوں گا۔ میں نے ایسا ہر گز نہیں کہا۔ میرے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کی بہترین ضمانت اکثریت کی طرف سے خیر سگالی کا جذبہ ہے اور ان الفاظ کاکبھی بھی وہ مطلب نہیں نکلتا جس انداز میں میرے دوست اُنھیں توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔

سریش چندر چٹوپادھیائے: میرے فاضل دوست جناب عبدالرب نشتر کہا کرتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان نقطہ¿ نظر کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ دو ریاستوں یعنی بھارت اور پاکستان میں ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہم نے اِس بنیاد پر بٹوارے کی مخالفت کی کہ ہندوستان کے عوام ایک ہی قوم پر مشتمل ہیں جبکہ مسلم لیگ نے دو قومی نظریے یعنی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دو مختلف قومیں ہونے کی بنیاد پر تقسیم کی حمایت کی۔ ہمارے نقطہ¿ نظر اور ہمارے زاویہ¿ تخیل میں یہی بنیادی فرق تھا۔ ہندوستان کی تقسیم آبادی کی تقسیم کے بغیر عمل میں آئی۔ چنانچہ دونوں ممالک میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں ہی موجود ہیں۔ آبادی کا کوئی باقاعدہ تبادلہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کوئی تبادلہ زیر غور ہے۔ ہم نے یعنی پاکستان کے غیر مسلموں نے وفادار شہریوں کی حیثیت سے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقینا مشرقی بنگال سے چند ایک غیر مسلم اورمغربی پاکستان میں عملاً غیر مسلموں کی اکثریت چھوڑ کر جاچکی ہے۔ ہم سب خود کو پاکستان کا شہری سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کوپاکستانی ہی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مگر یہ قرار داد اس بات کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتی ہے اور جناب نشتر کی تقریر نے اس امر کو واضح کر دیا ہے۔ ہم یعنی کانگریس کے لوگ ابھی تک اپنے ایک قومی نظریے پر قائم ہیں اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام مسلمان اور غیر مسلم، ایک ہی قوم پر مشتمل ہیں اور یہ سبھی پاکستانی ہیں۔ اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی آبادی دو قوموں یعنی اکثریتی جماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور اقلیتی جماعت سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں پر مشتمل ہے، تو اس اُمر کی وضاحت کس طور کی جائے؟ دُنیا بھر میں کسی بھی جگہ پر قومیت کو مذہب کی بنیادپر تقسیم نہیں کیا جاتا۔

حتیٰ کہ مسلم ممالک میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اکثریتی یا اقلیتی جماعت نہیں کہتے۔ مختلف مذاہب سے وابستہ ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو ایک ہی قوم کے فرد کہلواتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے لگیں تو کیا غیر مسلم اپنے آپ کو غیر پاکستانی کہلوائیں گے۔ وہ خود کو کیا کہلوائیں؟

کئی معزز اراکین کی جانب سے بیک آواز: پاکستانی!

سریش چندر چٹوپادھیائے: کیا وہ دونوں ہی خود کو پاکستانی کہلوائیں گے؟ پھر لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم؟ میں کہتا ہوں کہ لوگوں کی مسلم اور غیر مسلم میں تفریق کو ختم کیجیے اور آئیے خود کو ایک ہی قوم کہلوائیں۔ آئیے خود کو ایک ہی عوام یعنی پاکستان کے عوام کہلوائیں بصورت دیگر اگر آپ مجھے غیر مسلم کہیں گے اور خود کو مسلمان کہیں گے تو پھر یہی مشکل پیش آئے گی کہ اگر میں خود کو پاکستانی کہلواو¿ں گا تو لوگ یہی کہیں گے کہ میں مسلمان ہوں۔ جب مجھے یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو ایسا ہی ہوا تھا۔ میں وہاں پاکستان کے مندوب کے طور پر گیا تھا۔ جب میں نے کہا کہ ”میں پاکستان کا ایک نمائندہ ہوں“ تو اُن کا خیال تھا کہ میں مسلمان ہوں اُنھوں نے کہا ” اس کا مطلب ہے آپ مسلمان ہیں“۔ میں نے کہا ” نہیں میں ہندو ہوں“۔ اُن کے خیال میں کوئی ہندو پاکستان میں نہیں رہ سکتا تھا اس لیے اُنھوں نے کہا ” آپ اپنے آپ کو پاکستانی نہیں کہلوا سکتے“۔ پھر میں نے ہر ایک بات کی وضاحت کی اور اُنھیں بتایا کہ پاکستان میں ہندو بھی اور مسلمان بھی آباد ہیں اور یہ کہ ہم سبھی لوگ پاکستانی ہیں۔ یہ اصل صورت حال ہے، لہٰذا میں اپنے آپ کو کیا کہلواو¿ں؟ مجھے اس ایک واضح جواب چاہیے۔ میں اس نکتے پر اپنے معزز دوست لیاقت علی خان کی طرف سے فیصلہ چاہتا ہوں۔

میں اپنے قابل احترام دوست جناب نشتر سے یہ نقطہ¿ نظر اور یہ زاویہ¿ تخیل فراموش کر دینے کی درخواست کروں گا۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے آپ کو ایک ہی قوم کے افراد بنائیں۔ آئیے اکثریت اور اقلیت کے بزعم خود احساسات کو ختم کر دیں۔ آئیے پاکستان کے تمام شہریوں کے ساتھ ایک ہی خاندان کے ارکان جیسا رویہ رکھیں اور ایسا آئین تشکیل دیں جس میں یہ بندھن ٹوٹ نہ پائے تاکہ ہر ایک کمیونٹی ضرورت اور خطرے کے وقت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور مساوی بنیادوںپر کھڑی ہو سکے۔ میں اپنے آپ کو اقلیتی کمیونٹی کافرد نہیں سمجھتا میں خود کو سات کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک تصور کرتا ہوں۔

میں اس قرارداد کے بارے میں اپنا بیان دے چکا ہوں۔ اب اس قرارداد کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں انتہائی دکھ کے ساتھ خود کوقائداعظم کے وہ عظیم الفاظ یاد دلا رہا ہوں کہ” ریاستی معاملات میں ہندو، ہندو نہیں اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہیں گے“ لیکن افسوس کہ اُن کی رحلت کے کچھ ہی عرصے بعد آپ نے یہ کیا کہ عملی طور پر ریاست کے مذہب کا اعلان کر دیا ! آپ لوگ ایک مذہبی ریاست قائم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اب جبکہ قائداعظم کے برعکس جن کے ساتھ مجھے انڈین نیشنل کانگریس میں کئی برسوں تک رفاقت کا موقع ملا ہے، آپ نے سیاست کو مذہب سے علیحدہ رکھنے میں اپنی ناکامی کو محسوس کر لیا ہے ، شاید ایسا ہی ہونا لکھا ہوا تھا حالانکہ جدید دُنیا میں ایسا ہر جگہ پر ہو رہا ہے۔ آپ ازمنہ وسطیٰ کے طرز فکر کو ترک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مجھے اِس قرارداد میں پاکستان کے عظیم خالق قائداعظم (اللہ اُن کی روح کو چین نصیب کرے)حتیٰ کہ پاکستان کے وزیر اعظم محترم لیاقت علی خان کی بجائے، اس ملک کے مذہبی سیاست دانوں کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔

جب میں یورپ کے دورے اور کئی مہینے کی غیر حاضر ی کے بعد وطن کے اپنے والے حصے (مشرقی پاکستان) میں واپس لوٹا تو جو معاملات مجھے وہاں دکھائی دیے اُنھوں نے مجھے پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ ملک میں کئی منفی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ یہ تبدیلی مجھے ملک کے اِس حصے (مغربی پاکستان) میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے محترم خواجہ ناظم الدین کو اِس بارے میں بتایا۔ اس سلسلے میں جناب لیاقت علی خان سے بھی بات کی اور اِس بارے میں ردعمل کی فضا اس ایوان پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ اپنی موجودہ حالت میں یہ قرارداد اُسی ردعمل کی مکمل عکاسی کر رہی ہے۔ یہ فضا صرف اس ایوان کے درودیوار تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اپنی لہریں ملک کے دور دراز کونوں تک بھی پہنچائے گی۔ میں بہت پریشان ہوں۔ میں نے کئی بے خواب راتیں اسی غور فکر میں بسر کی ہیں کہ اب میں اپنے اُن عوام کو کیا بتاو¿ں جنھیں میں ایک عرصے تک اپنی جنم بھومی کے ساتھ وابستہ رہنے کی نصیحت کرتا رہا ہوں؟ وہ بے یقینی کی ایسی حالت سے گزر رہے ہیں جس کا محض تصور کرنے کی بجائے خود اِس ایوان کے اندر بہتر طریقے سے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ افسر اپنی نوکریاں چھوڑ رہے ہیں، متمول اور بارسوخ افراد ہجرت کر چکے ہیں، معاشی صورت حال انتہائی ابتر ہے، ہر طرف بھوک چھائی ہوئی ہے ، عورتیں تن ڈھانپنے سے بھی مجبور ہیں، لوگ تباہ حال ہو چکے ہیں۔ انتظامیہ انتہائی بے رحمی کا مظاہرہ کر رہی ہے، لوگوں کی ثقافت، زبان اور رسم الخط کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قرار داد کے ذریعے آپ کمتری اور زیر دستی کی دائمی حالت کو اُن کا مقدر بنانا چاہ رہے ہیں۔ اُمید کی ہر ایک کرن اور ایک عزت نفس والی زندگی کے ہر امکان پر نااُمیدی کی دبیز چادر تان دی گئی ہے۔

اس کے بعد میں کیا مشورہ دے سکتاہوں؟ میں کس اُمید کے تحت لوگوں کو خاطر جمع رکھنے پر مائل کر سکتا ہوں؟ مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں کے سامنے واویلا کرنا بے سود ہے، آپ کے سامنے معقولیت اور استدلال سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ حضرات نے خود کو اُس عجزوانکسار کا نااہل ثابت کیا ہے جوحصول فتح یا کسی مذہب کے ساتھ وابستگی کے باعث دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ آپ اپنے راستے پر گامزن رہیے ، میں آپ کے لیے نیک خواہشات ہی ظاہر کر سکتا ہوں۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں اور اپنی دائمی آرام گاہ سے زیادہ دور نہیں ہوں۔ میں ہر قسم کے صدمے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ میں آپ کے خلاف کوئی عناد نہیں رکھتا۔ کاش آپ لوگ معقولیت کو کچھ اہمیت دے سکتے۔ ان سب باتوں کے باوجود ، دعا ہے کہ آپ کی راہ کھوٹی نہ ہو۔ آپ ترقی اور خوش حالی پائیں، پاکستان کی نوزائیدہ مملکت ایک عظیم قوم بنے اور قوموں کی برادری میں قابل احترام مقام پائے (تالیاں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments