سعودی عرب کا معتدل اسلام اور نیک دل شہزادہ


چلئے، دیر سے ہی سہی سعودی عرب کی قیادت کو خیال تو آیا کہ اسے اعتدال پسند اسلام کی طرف لوٹنا چاہیے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو دوبارہ معتدل اسلام کی طرف لوٹانے اور انتہا پنسدی کا فوری خاتمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ولی عہد کے بیان سے تین باتیں واضح ہوئیں۔ پہلی بات، سعودی عرب پہلے معتدل اسلام پر ہی عمل پیرا تھا بعد میں کسی نے متشدد اسلام کی طرف مملکت کا انتقال کرانے کے لئے کوششیں کیں اور ایسا ہوا۔ اس سے وہ بات ثابت ہوتی ہے جس کے مطابق سعود خاندان اور قدامت پسند عالم عبد الوہاب نے مل کر سعودی عرب کو سلفی اسلام کی طرف دھکیل دیا۔ مطلب ولی عہد مان رہے ہیں کہ ان کے اجداد اور عبد الوہاب دونوں کا یہ مشترکہ اقدام صحیح نہیں تھا اور اس سے اچھے نتائج نہیں نکلے۔

ولی عہد کے بیان سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ اس وقت سعودی مملکت جس اسلام کو فروغ دے رہی ہے وہ معتدل اسلام نہیں ہے۔ ولی عہد کا یہ بیان ان سلفی علماء کے لئے شرمندگی کا باعث ہے جو اب تک بتاتے رہے کہ سعودی عرب ہی اصل اسلام پر عمل پیرا ہے۔ اب جبکہ خود ولی عہد نے مان لیا کہ ان کا اسلام معتدل اسلام نہیں ہے تو ان سلفی علماء کو جواب دینا مشکل پڑے گا۔ ان علماء میں اکثریت ایسی ہے جو سعودی عرب میں رہتے بھی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے باشندے ہیں اور اپنے اپنے یہاں لوگوں کو سعودی اسلام کی خوبیاں بتاتے رہے ہیں۔ ولی عہد کا بیان تیسری بات یہ واضح کرتا ہے کہ سعودی عرب میں شدت پسند عناصر موجود ہیں جن کی فوری طور پر سرکوبی ضروری ہے۔

تھوڑی دیر کو مان لیتے ہیں کہ ولی عہد کا ارشاد ان کے دل کی آواز ہے لیکن اس سلسلہ میں چند سوالات غور طلب ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا جو ولی عہد کو اتنی حساس بات کہنی پڑی؟ کہیں ڈوبتی معیشت اور سفارتی ناکامیوں نے تو یہ بیان دینے کو مجبور نہیں کیا ہے؟ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی معیشت بہت برے دور سے گزر رہی ہے۔ سرکاری اخراجات میں مسلسل کٹوتیاں ہو رہی ہیں، تیل پر سے معیشت کا انحصار کم کرنے کے لئے ولی عہد ایک ویژن بھی پیش کر چکے ہیں۔ جس ملک میں کروڑوں غیر ملکیوں کو روزگار ملتا تھا وہاں اپنے شہریوں کے لئے نوکریاں ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔

ادھر سفارتی محاذ پر اب سعودی عرب کی وہ حیثیت نہیں محسوس ہوتی جیسے پہلے ہوتی تھی۔ لاکھ ہاتھ پیر مارنے کے باوجود سعودی عرب ایران اور مغرب کے درمیان نیوکلیائی معاہدہ منسوخ نہیں کرا سکا۔ صدر ٹرمپ نے معاہدے پر ٹیڑھی نظر ڈالی تھی لیکن باقی پانچ ممالک جس طرح ڈٹ کر معاہدے کے ساتھ کھڑے ہوئے اس سے سعودی عرب کا شدید مایوس ہونا فطری تھا۔ ایرانی صدر مغرب کے ساتھ رشتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ترکی اور قطر جیسے ممالک سے بھی ایران کے روابط میں اچانک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ شاید سعودی ولی عہد محسوس کر رہے ہیں کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور نئے حالات میں نئی حکمت عملی درکار ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کسی بھی دن انہیں سعودی عرب کی باقاعدہ قیادت مل سکتی یے اس لئے وہ اپنے ممکنہ مسائل کا ابھی سے تصفیہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بیان کا یہ حصہ توجہ طلب ہے کہ وہ ایسا ملک چاہتے ہیں جس کے دروازے دوسروں کے لئے کھلے ہوں۔

سعودی ولی عہد کی نیک نیتی اپنی جگہ لیکن صرف ان کے بیان سے بات نہیں بننے والی۔ انہیں اپنے عمل سے ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ واقعی معتدل اسلام کی طرف لوٹنا اور تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ان کا پہلا ہی امتحان یمن میں ہوگا جہاں سعودی عرب کی عسکری مہم کی کمان ولی عہد کے ہی ہاتھ میں ہے۔ دو برس سے جاری بمباری میں ہزاروں بے گناہ مارے جا چکے ہیں۔ امید ہے معتدل اسلام کی طرف لوٹنے کے پہلے قدم کے طور پر سعودی عرب یمن پر جاری بمباری کا سلسلہ روک دے گا۔ ولی عہد کو اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ جن انتہا پسند عناصر کو ختم کرنے کی انہوں نے بات کی ہے وہ سعودی حکومت کی ہی پشت پناہی کے سبب آج بہت طاقتور ہو چکے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے تدبر اور تحمل دونوں درکار ہوں گے۔

سعودی عرب کا معتدل اسلام کی طرف لوٹنا بہت لائق تحسین قدم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب نے دنیا میں اب تک متشدد اسلام کو جتنا فروغ دیا ہے کیا وہ سب بھی اتنی آسانی سے معتدل اسلام کی طرف واپس آئیں گے۔ ہمارے سامنے پاکستان کی مثال ہے جہاں آج وہ علماء دہشت گردی مخالف اجتماع کرتے گھوم رہے ہیں جنہوں نے کبھی اپنے مدارس کے طلبہ کو افغان جہاد کے نام پر لڑنے کے لئے بھیجا تھا۔ آج وہ طالب علم طالبان کے نام سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں اور اپنی دانست جو کچھ صحیح ہے اس کو منوانے کی کوشش میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں جبکہ ان کے فکری مرجع شدت پسندی کی مذمت میں قراردادیں پاس کر رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد کو کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے جس کے ذریعہ سعودی عرب کے ذریعہ اب تک دنیا میں فروغ دی گئی اسلام کی انتہا پسندانہ تفہیم کا سد باب ہو سکے، ورنہ ولی عہد تو بیان دے کر دنیا کے سامنے بری الذمہ اور سرخ رو ہو جائیں گے جبکہ دنیا ان کے اجداد کی بوئی فصل کا خمیازہ بھگتتی رہے گی۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter