سوشل میڈیا اور ڈاکٹر مریض کے تعلقات


”آپ کے خیال میں پاکستان اور امریکہ میں‌ میڈیکل پریکٹس میں‌ کیا فرق ہے؟ “ لائیو ریڈیو شو میں اس خاتون نے انٹرویو شروع کیا۔ نارمن میں نئی جاب شروع کی تھی اور میں ذیابیطس کے بارے میں‌ اس ریڈیو انٹرویو سے پہلے سارے سوال اور جواب لکھ کر پریکٹس کرکے گئی تھی۔ یہ سوال پہلے سے دیے ہوئے سوالوں‌ میں‌ شامل نہیں تھا۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میں‌ صرف ایک اسٹوڈنٹ لائف گذاری تھی اور میڈیکل پریکٹس امریکہ آکر کی۔ اس لیے مجھے خود بھی اس سوال کا جواب زیادہ گہرائی سے معلوم نہیں‌ ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بدلتی جاتی ہے۔ آج کل کیا پڑھایا جارہا ہوگا یا کیسے کام کرتے ہوں گے، کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہے۔

ہماری جنریشن کے لوگ جانتے ہیں کہ جب ہم چھوٹے بچے تھے تو ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس نہیں‌ ہوئی تھی جیسی اب ہے۔ ٹی وی سیٹ سادہ سا ہوتا تھا جس میں تین بٹن ہوتے تھے۔ ایک آن آف کرنے کا اور دوسرا آواز بڑھانے کا اور تیسرا آواز گھٹانے کا۔ ریموٹ کنٹرول بھی نہیں‌ ہوتے تھے۔ ایک پی ٹی وی چینل ہوتا تھا جو صرف شام میں‌ چلتا تھا اور پہلی جماعت سے دسویں تک آپ کے ملک کے صدر ضیاءالحق ہوتے تھے۔ یہ ایک سوال کوئی بچہ مس نہیں کرتا تھا۔ ہماری نظروں کے سامنے دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا نیا ہے۔ اس پر بہت ریسرچ ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا کے فائدوں اور نقصانات پر سینکڑوں جرنل آرٹیکلز چھپ چکے ہیں اور ہم سب ساتھ ساتھ سیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی بڑا سوال ہے کہ سوشل میڈیا کے تعلق کو کیا سمجھا جائے؟ میرے ذاتی خیال میں فیس بک کی طرح‌ کی ویب سائٹس ایک اوپن پارٹی کی طرح‌ ہیں جن میں‌ ہمارے بچوں، رشتہ داروں، ساتھ میں‌ کام کرنے والوں سے لے کر ایسے بھی لوگ شامل ہیں‌ جن سے ہم کبھی نہیں‌ ملے۔ یہ ہم خیال افراد کے آپس میں‌ ملنے کا ایک اچھا راستہ ہے۔

میں‌ نے پٹسبرگ پینسلوانیا کے مرسی ہسپتال میں‌ انٹرنل میڈیسن میں‌ ریزیڈنسی کی اور پھر اوکلاہوما یونیورسٹی سے اینڈوکرنالوجی میں‌ فیلوشپ کی۔ جو بھی ہیلتھ کیئر سے متعلق قوانین ہیں وہ وقت کی رفتار سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان قوانین میں‌ سول رائٹس ایکٹ، امیریکنز وتھ ڈس ایبلٹی ایکٹ اور پرائیویسی سے متعلق ہیلتھ انشورنس پورٹیبلٹی اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ جس کو مختصراً ہپا بھی کہتے ہیں‌ شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے بڑھی ہے اور سوشل میڈیا اتنا نیا ہے کہ قانون پیچھے رہ گیا ہے۔ امریکہ میں‌ ایک فیصد آبادی قانون دان ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ایک فیصد آبادی جیل میں‌ ہے جو کہ دنیا‌ میں‌ سب سے زیادہ ہے۔ قانون امریکی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ باہر سے شاید بہت آزاد دکھائی دیتے ہوں لیکن ہماری زندگی کا ہر پہلو، ہر رشتہ، ہر تعلق، ہر جگہ مستقل مختلف قوانین کے تانے بانے میں‌ جکڑا ہوا ہے۔

کوئی بیس سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام ”ہاؤ لا از سفوکیٹنگ امریکہ“ یعنی کہ ”قانون کس طرح امریکہ کا دم گھونٹ رہا ہے“ تھا۔ میں‌ نے نئے ملک میں اس بات کو سمجھ لیا کہ امریکہ میں‌ کچھ بھی کریں تو کوئی نہیں روکے گا لیکن آپ کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے آزاد نہیں‌ ہیں۔ آپ کی پسند اور ناپسند آپ کی ناک کی نوک تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ ہر ادارے کی طرح میڈیکل کی پریکٹس بھی باقاعدہ بہت سارے قوانین کی پابند ہے۔ میڈیکل کالج، ریذیڈنسی اور فیلوشپ میں‌ بار بار لیکچرز، راؤنڈز اور کولیگز کے درمیان یہ بات اچھی طرح‌ ہر گریجویٹ کے دماغ میں‌ بٹھا دی جاتی ہے کہ محتاط رہ کر کس طرح‌ میڈیکل کی پریکٹس کرنی ہے۔ یہ مشہور کیس سب جانتے ہیں‌ کہ ایک خاتون گرم کافی اپنی ٹانگوں‌ پر گر جانے سے جھلس گئی تھی‌ اور انہوں‌ نے میکڈانلڈز پر کیس کردیا تھا جو وہ جیت گئی تھیں۔ اس کیس کے بعد یہ بہتری آئی کہ کافی کے درجہ حرارت کو ایک لیول پر رکھا جانے لگا۔ ایک خاتون کو بریسٹ کینسر ہوگیا تو انہوں‌ نے اپنے ڈاکٹر پر کیس دائر کردیا کہ وہ ہر سال پوسٹ کارڈ بھیجتے تھے کہ میموگرام کروالو جبکہ انہوں‌ نے اس کا مقصد مجھے اچھی طرح‌ نہیں سمجھایا تھا۔ وہ بھی یہ کیس جیت گئی تھیں۔ اس لیے اب محض پوسٹ کارڈ بھیجنا کافی نہیں‌ سمجھا جاتا، ہمیں مریضوں کو آسان زبان میں‌ یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ کوئی ٹیسٹ‌ کیوں‌ ضروری ہے؟ میڈیکل ٹریننگ پروگرام میں کئی بار چھوٹی سی بات ایک بڑا بتنگڑ بن گئی۔ ہمارے سامنے بہت سارے ایسے کیس ہوئے جن کی کچھ مثالیں آپ کو بتاتی ہوں۔

ایک ایمرجنسی میڈیسن کے ریزیڈنٹ نے ایک مریض کے ذیابیطس سے متاثر پیروں میں زخموں‌ کی تصویریں‌ کھینچ کر سوشل میڈیا پر لگا دی تھیں جس پر اس کو سرزنش کی گئی۔ آج بھی نارمن ریجنل ہسپتال کی پالیسی ہے کہ مریضوں کی تصاویر نہ لی جائیں۔ کچھ بیماریاں ہیں‌ جن سے تصویر کھینچنے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ ان سے کہا کہ آپ اپنے فون سے خود اپنی تصویریں‌ لے لیں‌ تاکہ میں مانیٹر کروں‌ کہ بیماری بہتر ہورہی ہے یا نہیں۔

پٹسبرگ اسٹیلرز فٹ بال کی ایک قومی سطح پر جانی ہوئی ٹیم ہے۔ اس کا کوارٹر بیک بین راتھلسبرگر ایک مرتبہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں‌ زخمی ہوگیا اور مرسی ہسپتال لایا گیا۔ چونکہ وہ ایک سلیبرٹی ہے، سارے ہسپتال میں‌ کھلبلی مچ گئی اور کوئی دو سو افراد نے الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ میں‌ جا کر تانک جھانک کرنی شروع کردی۔ اس بات پر کافی لوگوں‌ کی پرنسپل کے آفس میں حاضری لگی۔ ہمارے ایک انڈین کولیگ ڈاکٹر کو بھی پروگرام ڈائریکٹر نے بلایا۔ انہوں‌ نے خود یہ کام نہیں کیا تھا، وہ امریکن فٹ بال دیکھتے تو کیا جانتے تک نہیں‌ تھے۔ جب وہ کمپیوٹر کھلا چھوڑ کر چلے گئے تو ان کی آئی ڈی سے کسی اور نے بین راتھلسبرگر کا چارٹ کھولا تھا۔ کمپیوٹر میں ہر لاگ ان کا ریکارڈ بن جاتا ہے اور جن مریضوں کی ذمہ داری آپ پر نہ ہو، ان کے چارٹ کو دیکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ لائنیں لکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ ڈائلاگ چل رہا ہے کہ کیا بین راتھلسبرگر کے اس ایڈمیشن نے بارے میں‌ یہاں‌ لکھنا ہپا کے دائرے میں‌ آتا ہے؟ لیکن نہیں‌۔ وہ میرا مریض نہیں‌ تھا اور یہ سب باتیں‌ اس کے مشہور ہونے کی وجہ سے ٹی وی سے سارے ملک نے سنی تھیں‌۔ میں‌ اپنا یا اپنے بچوں‌ کا چارٹ بھی نہیں‌ دیکھ سکتی ہوں۔ اگر کوئی رپورٹ دیکھنی ہو تو اس کی باقاعدہ درخوست کرنی ہوگی۔ اگر کوئی ڈاکٹر اپنے نام سے ملتے جلتے ناموں کا چارٹ دیکھے جن کا وہ ڈاکٹر نہ ہو تو اس سے ایک الرٹ کا سسٹم شروع ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ باہر سے آکر کوئی کیس دائر کرے، اپنے ہسپتال میں‌ ہی ایسے ادارے ہیں جو یہ چیک رکھتے ہیں۔

ریذیڈنسی میں کام کی شفٹیں ہوتی تھیں۔ جب ہماری شفٹ ختم ہو تو سائن آؤٹ دینا ہوتا تھا یعنی آنے والی ٹیم کو مریضوں کے بارے میں‌ ایک خلاصہ دینا ہوتا تھا کہ کون کس لیے داخل ہوا ہے۔ ایک ٹیم سے یہ غلطی ہوگئی کہ گوگل میل سے یہ سائن آؤٹ دے دیا۔ اس پر ایک اندرونی ہنگامہ ہوا کہ مریضوں‌ کی پرائیوٹ انفارمیشن اب ایک پبلک سرور کےای میل پر شئر کرلی گئی ہے۔ اس بات سے دس قدم پہلے کہ کوئی کہیں سے یہ انفارمیشن حاصل کرتا یا وہ کسی مقدمے میں تبدیل ہوتا، اندر سے ہی ایک تھیوریٹکل چانس پر بحث چل نکلی۔ میڈیکو لیگل رسک مینجمنٹ کا باقاعدہ ہر ٹریننگ پروگرام میں‌ کورس ہوتا ہے اور ہر ہسپتال کا ایک ڈپارٹمنٹ بھی ہوتا ہے جو اسی دائرے میں‌ کام کرتا ہے کہ کس طرح‌ ڈاکٹرز اور ہسپتال کو کورٹ کچہری اور مقدموں‌ سے بچائے۔ ایک اندازے کے مطابق اوسطاً ایک امریکی ڈاکٹر پر اس کی زندگی میں‌ دو بار کیس دائر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر امریکی ڈاکٹر ایک لائبلٹی انشورنس لیتا ہے تاکہ اگر کوئی ہمارے اوپر مقدمہ کردے تو انشورنس کمپنی اس کو پیسے ادا کرے۔ کچھ لوگ کسی بھی غلطی کو پکڑ کر صرف پیسہ حاصل کرنے کے لیے بھی کیس کردیتے ہیں۔ اس لیے ایک امریکی ڈاکٹر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔

فیس بک کے استعمال سے متعلق قومی یا ریاستی سطح پر امریکہ میں‌ اس وقت کوئی قوانین موجود نہیں‌ ہیں۔ اس سے متعلق صرف مختلف میڈیکل سوسائٹیز کی گائڈلائنز موجود ہیں۔ یہ گائڈلائنز ڈاکٹرز کو کسی بھی مریض کو فیس بک پر دوست بنانے سے منع کرتی ہیں۔ ڈاکٹر ہیرس میرے مینٹور ہیں جو اینڈوکرنالوجسٹ ہیں اور ایک قانون دان بھی ہیں۔ میں نے ان سے بھی یہی سوال پوچھا تو انہوں‌ نے بھی منع کیا کہ فیس بک پر مریضوں سے دوستی نہ کریں بلکہ وہ سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ یہاں اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ وہ 70 سال کے ہیں اور ان کی جینیریشن سوشل میڈیا نہ جانتی اور سمجھتی ہے اور نہ ہی ان کو اسے سیکھنے میں‌ دلچسپی ہے۔

ہر روز بدلتی ہوئی دنیا میں ہماری ایک اصلی زندگی ہے۔ سوشل میڈیا ایک آلہ ہے جس سے دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے میں‌ مدد ملتی ہے۔ ہسپتال کا اپنا بھی فیس بک پیج ہے اور ہر ڈپارٹمنٹ کا بھی جس پر لوکل سرگرمیوں‌ کی تشہیر کی جاتی ہے۔ شروع شروع میں کوشش کی کہ جتنا ہو سکے تمام تعلقات کے درمیان لکیریں قائم رہیں لیکن آہستہ آہستہ آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں۔ چونکہ میں‌ ایک ڈاکٹر ہوں میرے رشتے دار، دوست، ساتھ میں‌ کام کرنے والے سبھی مشورے طلب کرتے ہیں۔ صرف عام آدمی ہی نہیں‌ بلکہ دیگر اسپیشلٹی کے آپ کے اپنے کولیگ بھی سوال کرتے ہیں۔ کہیں کسی اجنبی سے بھی ملیں تو جیسے ہی انہیں‌ پتہ چلے کہ آپ ڈاکٹر ہیں تو وہ آپ کو اپنے کندھے کے درد کے بارے میں بتائیں‌ گے۔ آہستہ آہستہ اس پیچیدہ نظام میں لوگوں‌ کی پرائیویسی کا خیال کرنا سیکھنا ہوتا ہے جس میں‌ وقت بھی لگتا ہے اور غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹر اور مریض کے لحاظ سے کوئی پبلک گفتگو نہ کی جائے۔ جو خود مریض‌ ہیں‌ یا ان کا کوئی فیملی ممبر ہمارے کلینک میں‌ مریض‌ ہو اور وہ خود یہ بتا دیں‌ تو کہہ سکتے ہیں‌، ہم نہیں‌ کہہ سکتے۔ میں‌ اپنی بیٹی کو ایک برتھ ڈے پارٹی میں‌ لے کر گئی تو ان میں سے ایک کی ماں نے ہمیں‌ آتے دیکھا تو کہا کہ اوہ آپ میری ڈاکٹر ہیں۔ وہاں جو بھی اور لوگ موجود ہوں ان سے کہتی ہوں یاد رکھیے کہ انہوں‌ نے یہ بتایا ہے، میں‌ نے نہیں۔ ایک مرتبہ ایک کتا ہمارے گھر کے سامنے ملا۔ اس کے کالر پر فون نمبر لکھا تھا۔ میں نے اس نمبر پر فون ملایا کہ آپ اپنا کتا آکر لے جائیں تو وہ کہتی ہیں، آپ میری ڈاکٹر ہیں۔

اب آتے ہیں‌ اس ڈاکٹر پر جس پر اس کی کمزور ججمنٹ کی وجہ سے یہ نزلہ گرا ہے۔ اس سچوایشن کو سمجھانے کے لیے ایک حقیقی مثال دوں‌ گی۔ یونیورسٹی آف اوکلاہوما کے ہیلتھ سائنسز سینٹر کے دو سعودی ڈاکٹرز ایک سڑک پر ایک ایسی طوائف سے بات کرتے ہوئے ٹی وی کے سامنے پکڑے گئے تھے جو درحقیقت ایک انڈر کور پولیس آفیسر تھی۔ محمد ایک لائق اور محنتی ڈاکٹر تھا جس کو مریض، کولیگز اور پروفیسرز سب پسند کرتے تھے۔ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی نے اس کو نکال دیا تھا اور وہ واپس سعودی عرب چلا گیا تھا۔ وہ ایک معصوم اور شریف آدمی تھا۔ کلچرل تفریق کی وجہ سے اس نے وہ نارمل انسانی معاشرتی ہنر نہیں‌ سیکھے تھے جو امریکہ میں‌ بچپن سے سکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح کسی لڑکی سے بات کرنی ہے، کس طرح ایک تعلق بنانا ہے یا اس کو قائم رکھنا ہے۔ وہ ایک آزاد ملک میں‌ رہ رہا تھا، اس کی اچھی نوکری اور تنخواہ بھی تھی اور اس کے لئے کسی مناسب لڑکی کو تلاش کرلینا اتنا مشکل نہیں‌ تھا لیکن وہ یہ سب کرنا نہیں جانتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس بات کو سمجھتے ہوئے یونیورسٹی کو اس کو معاف کردینا چاہئیے۔ اس کو معاف کردیا گیا تھا اور وہ واپس آکر اپنی کینسر کی فیلوشپ ختم کرنے میں‌ کامیاب ہوا۔ ایک با انصاف نظام میں‌ سزا جرم کے برابر ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جرم کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ اور کیا وہ اس کا پہلا جرم ہے؟

کیا میرے فیس بک میں‌ میرے کوئی مریض دوست نہیں‌؟ میرے کئی مریضوں نے فیس بک دوست بننے کی درخواست بھیجی جو میں‌ نے قبول کرلی کیونکہ وہ لوگ مجھے پسند ہیں۔ کوئی قانون دان ہے، کوئی پروفیسر اور کچھ سماجی حلقوں کے ممبر میرے فیس بک دوست ہیں۔ کافی ہیں‌ جو دوست پہلے بن گئے اور بعد میں‌ مریض۔ یہاں‌ پر یہ بات بتانا اہم ہے کہ نہ صرف میں خود بلکہ اور بھی جن امریکی ڈاکٹروں‌ کو جانتی ہوں، ان میں‌ مریضوں نے ڈاکٹرز کو فیس بک دوست بنانے کی دعوت دی تھی جو انہوں‌ نے قبول کی یا مسترد کی۔ خود سے ڈاکٹرز مریضوں کو فیس بک دوستی کی درخواست بھیجنے سے گھبراتے ہیں۔ ایک لیڈی سال میں‌ ایک مرتبہ آتی ہیں‌ جو ریڈیو کی مشہور شخصیت ہیں۔ ان کا اصلی نام ریڈیو سننے والے نہیں‌ جانتے۔ ان سے بات چیت کرتے ہوئے ہمیشہ میرے ذہن میں یہ خیال رہتا ہے کہ اگر ہمارے کلینک میں ان کے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا تو وہ ریڈیو پر نہ بول دیں اس لیے اور محتاط رہتے ہیں‌۔

اس وقت جو آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کے معاملے پر ایک بڑا مباحثہ شروع ہوا ہے اس کے بارے میں‌ یہاں میں کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں۔ کیا ان ٹریننگ پروگرامز نے اچھے طریقے سے ان ڈاکٹرز کو اس موضوع پر تعلیم دی ہے؟ کیا انہوں‌ نے لکھ کر سوشل میڈیا سے متعلق کوئی گائڈ لائنز مرتب کی ہیں؟ کیا انہوں‌ نے ان ڈاکٹرز کو پہلے سے بتایا ہے کہ یہ لائن کراس کرنے سے کیا سزا مل سکتی ہے؟ یقیناً ہر طرف خوف و ہراس پھیل چکا ہوگا اور باقی ایسے بہت سے ڈاکٹرز جن کی اپنے مریضوں‌ سے سوشل میڈیا پر دوستی ہے وہ بھی مزید محتاط ہوچکے ہوں‌ گے۔ سب سے بڑا سوال جو میرے ذہن میں‌ ہے وہ یہ کہ کیا امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے قوانین، ان کی ایتھکس یا باؤنڈریز ساؤتھ ایشیا کی بالکل مختلف سوسائٹی پر لاگو کیے جاسکتے ہیں؟ کیا ایسا کرنے سے ہم خود کو کلچرلی انکامپیٹنٹ ثابت نہیں کرتے؟ ایک کتابی دنیا ہوتی ہے اور ایک اصلی دنیا ہوتی ہے۔ ان کو ساتھ میں انصاف سے چلانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).