معاشرہ پراپرٹی ڈیلر کیسے بنتا ہے


جنرل ضیاء الحق کے دور میں پراپرٹی بزنس کو فروغ ہوا۔ جب کسی ملک کی آبادی بڑھ جاتی ہے تو یقیناً اس کی رہائشی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ درمیانے طبقے اور سرکاری ملازمین کے لئے کم لاگت والے فلیٹ اور مکانات تعمیر کرکے قسطوں پر فروخت کرے۔ اس کام میں نجی شعبہ کے بینکوں کو بھی شریک کیا جاتا ہے۔ حکومت نے اس شعبہ کو فروغ دینے کے بجائے نجی شعبے کو کھلی چھوٹ دے دی۔

انگریزوں کے نو آبادیاتی دور میں شروع ہونے والی روایت جس کے تحت انگریزوں کو خدمات اور وفاداری کا نذرانہ پیش کرنے والے طبقات کو زرعی رہائشی اور کمرشل زمینوں جائیدادوں سے نوازا جانے لگا۔ پنجاب کے دریاؤں میں سے نہریں نکالی گئی اور یوں پنجاب کے بنجر اضلاع زرخیز اور آباد ہو گئے دیہاتوں کے نام چک نمبر گاف ب پڑ گئے۔ انگریز بھارتی معاشرے میں ذات پات اور زمین کی اھمیت سے واقف تھے لہذا پیر جاگیر دار فوجی اور سول افسران اس پالیسی سے مستفید ہوئے اس دور کے ڈسٹرکٹ گزٹ میں ان طبقات کی سلطنت برطانیہ کے لئے خدمات اور ان کو دیے جانے والے اکرام وظائف کی تفصیل درج ہے۔ مثلاً ملتان کے گردیزی قریشی اور گیلانی گدی نشینوں کی ایسی ہی خدمات اور دی جانے والی مراعات کا ذکر ہے۔ آزادی کے بعد انڈیا میں وزیراعظم جواہر لال نہرو نے زرعی اصلاحات نافذ کرکے ایسی تمام جاگیرہں اور خطابات واپس لے لئے۔ اس عمل سے جمہوریت بھی مضبوط ہوئی ۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ نہ ہوسکا قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد یونینسٹ پارٹی سے وابستہ جاگیرداروں نے مسلم لیگ کی قیادت پر قبضہ کرلیا ملا جاگیر دار اور جرنیل اب پاکستان کی سیاست کے ٹھیکیدار بن گئے۔ انگریز دور کی زمینوں کی بندر بانٹ کی پالیسی جاری رکھی گئی جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں مزید تقویت پا کر جنرل مشرف کے دور آمریت میں اپنے نقطئہ عروج پر پہنچ گئی۔

آج حکومت پاکستان کا شاید ہی کوئی ادارہ ہو جو ہاوسنگ سوسائٹی اور پراپرٹی ڈیلری میں مصروف نہ ہو۔ ائیر فورس نیوی رینجرز سول ایوی ایشن سے لے کر آئی بی پولیس ایف آئی اے ڈی ایچ اے جوڈیشل ٹاؤن سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جماعت اسلامی سے وابستہ قرطبہ ٹاؤن موٹر وے سٹی جبکہ صحافی حضرات کے اپنے میڈیا ٹاؤن اور حکومتی سکیموں میں کوٹے ہیں جبکہ بحریہ ٹاؤن کا پاکستان آج قائدِ اعظم کے اصل پاکستان کا دعویٰ کر رہا ہے۔

آج پاکستان کی سیاست میں کامیاب ہونے کے لئے لینڈ مافیا اور انگلینڈ مافیا سے وابستہ ہونا کامیابی کی ضمانت ہے جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں طلبہ یونین مزدوروں کی یونین پر پابندی کے باعث درمیانے اور غریب طبقے کے سیاست میں داخلے کے ذرائع مسدود ہوتے چلے گئے آج پاکستان کے شہری حلقوں سے قومی اسمبلی پہچنے والے اکثریت اراکین اسمبلی پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں کوئی رول ماڈل نہیں۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات صرف پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عوام نے سروں پر بٹھایا عزت دی عدلیہ بحالی تحریک کے دوران انہوں نے سرکاری پلاٹ واپس کردیے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انہی پلاٹوں کی بحالی کی درخواست حکومت کو دے ڈالی۔

جامعات کے پروفیسر علم و تحقیق کی جستجو میں مگن رہتے ہیں دولت جائیداد کا حصول ان کا مطمع نظر نہیں ہوتا وہ طالب علموں کو خواب دکھاتے ہیں۔ یونیورسٹی کسی بھی معاشرے میں جزیرہ کی مانند ہوتی ہے لیکن آج کے اخبار میں پشاور یونیورسٹی کے وی سی اعلیٰ افسران پروفیسرز پر زمینوں کے گھپلے کے کروڑوں روپے کے نیب ریفرنس کی خبر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ آج کا پاکستان قائدِ اعظم کے پاکستان کے بجائے پراپرٹی ڈیلرز کا پاکستان بن چکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).