بلاول عمران خان کے شکر گزار رہیں


گزشتہ چند روز سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے الزامات کی سیاست کا عَلم اٹھائے اپنی اپنی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب کر رکھا ہے۔ ایک طرف پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری عمران خان کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے طنز کے نشتر چلا رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان بھی آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات کے ساتھ ان کے ماضی کو کریدنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔

اِن الزامات میں شدت اُس وقت آئی جب 18 اکتوبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ کارساز کی یاد میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں جلسے سے خطاب کے دوران اپنے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں حکومت کے چار سالہ دور کو بد ترین دور قرار دیتے ہوئے ن لیگ پر ذاتی مفادات کی خاطر سیاسی انتشار پھیلانے اداروں سے الجھنے اور انھیں کمزور کرنے جیسے سنگین الزامات لگاتے ہوئے ملک میں معاشی بحران، امن وامان کی ناقص صورتحال کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ جبکہ کے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ملک میں گالم گلوچ کی سیاست کو پروان چڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور انھیں سیاسی اناڑی جیسے القابات سے بھی نوازا۔ جس کے بعد سے مستقل دونوں جانب سے لفظی تکرار کا سلسلہ جاری ہے۔

تنقید کے حوالے سے جہاں تک عمران خان کی بات ہے۔ اُن کا شکوہ اِس حد تک تو درست ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے آغاز سے لے کر مختلف ادوار میں وفاق اور سندھ کا حصہ رہی ہے۔ جبکہ 2008 ء سے مستقل سندھ کی باگ ڈور اِسی کے ہاتھ میں ہے۔ بجائے اِسکے سندھ کو ایک مثالی صوبہ بناتی۔ سندھ ترقی کرتا۔ گڈ گورننس کے قیام کےلیے عملی اقدامات اٹھائے جاتے۔ سندھ کے عوام کو با اختیار بنایا جاتا۔ جہاں تعلیم صحت اور روزگار کے یکساں مواقع فراہمکیے جاتے۔ بیڈ گورننس کے باعث صوبے کی حالت انتہائی خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ پارٹی قیادت جلسے جلوس اور میٹنگوں میں دیگر صوبوں کی کارکردگی پر تو تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن جب بات اپنے صوبے کی کارکردگی کی آتی ہے تو سب اچھا ہے کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتی۔

18 اکتوبر کو بلاول بھٹو نے حیدرآباد جلسے میں اپنے جوشِ خطابت میں جس طرح سندھ کو مثالی صوبہ قرار دے کر اُس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کی باتیں کی ہیں۔ جب سے سندھ کے عوام ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں۔ کہ یہ کس دھرتی کی بات کررہے ہیں۔ اور دھرتی پر وہ کونسی جگہ ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جبکہ اِس دھرتی کے باسیوں کو تو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہے۔ پہننے کو غریب کے تن پر کپڑا نہیں ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کو روٹی کا ایک لقمہ نہیں ہے۔ بےروزگاری کے سبب جیب میں دھیلا نہیں ہے۔ امن وامان کی صورتحال کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہ سے تیز دھار آلے سے خواتین پر حملے کرنے والا شخص آزاد گھوم رہا ہے۔ جسے پکڑنا حکومت کےلیے چیلنج بن گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سے لے کر آئی جی سندھ تک سب بےبس ہیں۔

کراچی جیسا بین الاقوامی شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اندرون سندھ کے غریب عوام بھوک افلاس کا شکار صحت و صفائی کی ابتر صورتحال کے پیشِ نظر مہلک امراض میں مبتلا موت کے منہ جا رہے ہیں۔ اور آپ اُن سے مرسو مرسو سندھ نہ ڈسو کا نعرہ لگوا رہے ہیں۔ جانے کسے سنا رہے ہیں۔ یہ مت بھولیں آپ آکسفورڈ سے پڑھ کر آرہے ہیں۔

میئر اختیارات اور فنڈز کو رو رہے ہیں۔ اور آپ عوام کو نظام بدلنے حقوق فراہمی کی نوید سنا رہے ہیں۔ بے روزگاری اور معاشی تنگدستی کے سبب نوجوان ہتھیار اٹھائے عام شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔ اور آپ کہتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ جی ہاں آپ کے لیے سب اچھا ہے۔ ماحول سازگار ہے۔ میدان صاف ہے۔ میاں صاحب اداروں سے الجھ بیٹھے ہیں۔ یہ آپ کہ لیے بہت اچھا ہے۔ عمران خان نے ناقص حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار لی ہے۔ آپ کا رستہ صاف کردیا ہے۔ حقیقتاً آپ عمران خان کے شکر گزار رہیے۔ کیونکہ انھوں نے جو کیا آپ کے لیے بہت اچھا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیوایم کو تقسیم کردیا ہے۔ یہ آپ کےلیے بہت اچھا ہے۔ زرداری صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو ایک مضبوط اینٹ کا سہارا دے دیا ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت اچھا ہے۔ کل تک اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کھٹکنے والا اچانک آنکھ کا تارا بن گیا ہے۔ یہ آپ کےلیے بہت اچھا ہے۔

عوام کے لیے اچھا ہو نہ ہو۔ آپ عوام کے لیے اچھا کریں نہ کریں۔ اچھا کرنے والوں نے آپ کےلیے سب اچھا کردیا ہے۔ بس اب اپنی باری کا انتظار کیجئیے۔ اچھا کرنے والوں کا شکریہ ادا کیجئیے۔ جلسے جلوس کرنا چھوڑئیے عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنا اب بند کیجئیے۔ ویسے بھی ووٹ لے کر کیا کریں گے۔ آخر کار عوام کے ووٹوں پر آپ کے وزیروں نے پیشاب ہی تو کرنا ہے۔
(اختتام)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).