زندگی کے شہرِ طلسمات سے


زندگی کے شہرِ طلسمات سے

میرے اطراف میں آئینے ہی آئینے ہیں
اور اِن آئینوں میں بٹے ہوئے زندگی کے ہزارہا عکس۔۔۔۔
ایک آئینے سے دوسرے آئینے کا سفر، ایک حیرت سے دوسری حیرت کا سفر ہے
میں نے کبھی لکھّا تھا
زندگی کا چہرہ، محبوب کا چہرہ ہے
اُس کی دید کی ساعت ہے
زندگی، ستاروں سے بھرا لباس ہے
بہار کی سبز اور گُلابی روشنی ہے
چاند کی موج ہے، دوستوں کی ہنسی ہے
ہجر کی بے آب و گیاہ وادیوں میں اچانک مل جانے والا آبشار ہے
سوئے محل کے جاگ اُٹھنے کی داستان ہے
ستاروں کی کہانی ہے
جادو کی وہ چھڑی ہے
جو چشم زدن میں ایک عام لڑکی کو سِنڈریلا بنا سکتی ہے
بدن میں چاند کے حل ہونے
اور آنکھوں میں ستاروں کے اُترنے کا عمل ہے
لیکن شعور کی اگلی سیڑھیوں پر قدم رکھے تو پتہ چلا
کہ زندگی مرگِ محبت کی شام بھی تو ہے
ایسی شام جب کبھی محبت کی قبر پر یادوں کے تختے
لہلہاتے ہیں
اور کبھی آتش دان کے شعلوں میں سنہری ہیولے بنتے اور مٹتے نظر آتے ہیں
کبھی ہوا کے جھونکوں کی لائی ہوئی خوشبو
کسی کی خوشبو کی یاد دِلا جاتی ہے
شاید کسی یارِ پیماں شِکن کی یاد
جن پیڑوں پر آسیب کا اثر ہو، زندگی اُن کے
سائے میں ڈھولک کی تھاپ پر بہار کے گیت نہیں گاتی
آسیبی پیڑوں کی طرح کچھ دِل بھی آسیب زدہ ہو جاتے ہیں
پھر وہاں محبت کی یاد گاروں پر چراغ
روغنِ اشک سے جلتے ہیں
اور پھر وہی اُداسی کا لوبان
اور وہی قدیمی اور پُر اسرار مرگ زدہ خوشبو۔۔۔
خوشی پھر وہاں کا راستہ بھول جاتی ہے
خوشی کی عمر تو یوں بھی مختصر ہے
مگر زندگی!!؟؟
کیا ہے یہ زندگی!؟
’’زندگی نور ہے
خواب ہے
آگ ہے
زندگی رنگ ہے
خاک ہے
راگ ہی‘‘
زندگی اُن پلوں کو جینا بھی ہے ۔۔۔
جب شباب کے زینے پر قدم رکھتے ہوئے
چاند کی اوک سے سنہرا پانی پینا اچھا لگتا ہے
جب فون کی ہر گھنٹی پر جسم سے پہلے
دل کے قامت میں لہرائو پیدا ہوتا ہے
جب پائوں ستاروں پر ہوتے ہیں
اور دِل قوسِ قُزح کے ست رنگی جھولے میں جُھولا کرتا ہے
لیکن زندگی کے پیڑ کو ہرا بھرا رکھنے کے لئے
خونِ جگر سے سینچنا پڑتا ہے
عُروسِ زیست کی آنکھوں کو روشن رکھنے کے لئے
دل کے شیشے  کو سُرمہ کرنا پڑتا ہے
کہ زندگی سچ ہے
صرف سچ
ریگزار کو ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ کہنا
اور سوکھی مٹی کو نم ماننا اِس کے مسلک میں نہیں
شِکم کی آسودگی، خوشبوئے گندم کے بس میں کہاں
ہاتھ جُنبش نہ کریں اور قلم لکھتا رہے یہ ممکن نہیں
میرے قبیلے کے لوگ جلتے ہوئے خیام سے روشنی
لُٹتی ہوئی رِدائوں سے سایہ
اور خار دار طوق و سلاسل کے سبب رِسنے والے لُہو سے
زندگی کا رنگ اور جبر کے خلاف انکار کا حوصلہ کشید
کرتے چلے آئے ہیں
کہ زندگی مقتلِ کرب و بلائے وقت میں
ظلم کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کا نام بھی تو ہے
زندگی اِنتظار بھی ہے
جب ریشم کے کیڑے کی طرح کسی یاد میں لپٹے رہ کر
وقت بتانا ہو
تب سانس لینا بھی دشوار لگتا ہے
اور زندگی دُشوار ترین
یوں ہوتا ہے کہ رنگ محل کی شہزادی اپنے شہزادے کا
انتظار کرتی رہتی ہے
جو اُسے اِس آسیبی محل سے چُھڑا لے جائے گا
اِس اُمید اور یقین کے ساتھ ۔۔۔
کہ شہزادے تو بلائوں کو بھی تہِ تیغ کر سکتے ہیں
اور اُسے تو صرف طلسمِ شام و سحر سے رہائی چاہیے
لیکن انتظار طویل تَر ہوتا جاتا ہے
پذیرائی کے پھول چندن پیڑ کے نیچے پڑے پڑے سوکھ
جاتے ہیں
اور بدن کی سُوئیاں روح تک چھلنی کر دیتی ہیں
زندگی محبت ہے
پُنّل یار ہے
صدائے تیشۂ فریاد ہے
سوہنی کے کّچے گھڑے پر چڑھنے والا اَبدی رنگ ہے
دِل کا دائم آباد شہر بھنبھور ہے
پیلو چُننے کی جاودانی رُت ہے
موسم کی سخت رَوی کے سبب نقل مکانی کر جانے والے
پرندوں کی یہ امید ہے
کہ پھر بہار آئے گی
اور وادی میں نغمۂ ہزار گونجے گا
زندگی کے چہرے بے شمار اور رنگ انیک
حیرتوں کا سفر جاری ہے
حیرانی سے اِس شہرِ آئینہ کو دیکھتی ہوں
بے بسی سے ہاتھ ملَتی ہوں
ہزارہا رنگین کِواڑوں والے زندگی کے شہرِ طلسمات کے
پہلے دروازے کی دہلیز پر پڑتے میرے یہ قدم
اور عرصہ ٔ عمر مختصر۔۔۔
زندگی شاید کبھی سمجھ نہ آئے
صائمہ زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).