سائنس اور مذہب میں جبری تعلق


\"naseem\"سچائی وہ پھیلتی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ پروپیگنڈہ وہ شے ہے جس سے آپ جھوٹ کو بھی سچ کہہ کر بیچ سکتے ہیں اور سچ کو جھوٹ ثابت کرسکتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ کب ثابت کرنا پڑتا ہے؟ جب ہمارے جھوٹ اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔

گریویٹیشنل ویوز کی دریافت کے بعد پاکستانیوں نے حسبِ معمول \”عین اسلامی بحوالہ پیش گوئی\” قرار دیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نہایت ڈھٹائی سے دوسروں کی کامیابیوں کے سہرے اپنے سر باندھتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کی کالک دوسروں کے چہرے پر ملتے ہیں۔ یہ مذہبی ذہن کا عمومی رویہ ہے۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں سے ایک کم علمی اور کج ذہنیت ہے۔ افسوس تب ہوا جب دیکھا گیا کہ یونیورسٹی میں سائنس پڑھانے والے پروفیسرز بھی مذہبی حوالے دے دے کر گریویٹیشنل ویوز سے متعلق سائنس کی گواہیاں پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ مجھے شدید کوفت تب ہوئی جب ان باعلم لوگوں نے محض اپنے ذاتی اعتقاد کی سچائی کی سند حاصل کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ دنیا کے بڑے سائنسدان مذہبی تھے( حتی کہ انہوں نے آئن سٹائن کو بھی مذہبی قرار دیا) اور یہ کہ سائنس اور مذہب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اتنی بڑی علمی بددیانتی کرتے ہوئے کم از کم ماتھے پر ایک ہلکی سی شکن تو پڑنی چاہیے لیکن کیا کیجیے ہمارے علم کی طرح ہماری دانش بھی سطحی اور محدود ہے اور ہم بغیر تحقیق کے بڑے دعوے کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ان صاحبان سے گزارش ہے کہ کبھی ان مذہبی روایات اور دعووں پر بھی روشنی ڈالنے کا اہتمام کریں جو سائنس مخالف ہیں یا سائنس جن کے خلاف گستاخیاں کرتی ہے۔ ورنہ توہم جیسے شیطانی لوگ بے پر کی اڑاتے ہوئے یہی کہیں گے ’میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو‘

کون سا سائنس دان مذہبی تھا اور کونسا ملحد؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ کیا ان سائنسدانوں کے ذاتی اعتقاد نے ان کے پیشہ ورانہ سائنسی طریقہ ہائے کار یا ان طریقہ کار کے نتیجے میں اخذ شدہ نتائج کو متاثر کیا؟ سائنسی طریقہ کار ایک سیدھے سے فارمولے پر چلتا ہے۔ ایک نظریہ قائم کرو۔ تجربات کے ذریعے اسے پرکھو۔ درست ثابت ہو جائے تو دیگر سائنسدانوں کے سامنے رکھ دو تاکہ وہ بھی اپنے طور پر اس کی درستی کو پرکھ سکیں۔ کسوٹی پر پورا اترنے پر اس نظریے کی توثیق کر کے اسے قبول کر کے پوری دنیا کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ کیا کسی بھی مذہب کے بنیادی عقائد کو اب تک تجربات کی کسوٹی پر پرکھا جا سکا ہے؟ کسی زمانے میں دیوتاﺅں کے منصب میں بادل بنانا۔ آندھی لانا۔ بارش برسانا۔ زلزلے برپا کرنا۔ دریاو ¿ں میں طغیانی پیدا کرنا۔ پانی پر بھاری جہاز چلانا شامل تھا۔ لیکن کسی بھی سائنسدان نے، چاہے وہ مذہبی تھا یا ملحد، ان مظاہرکی وجوہات پیش کرتے ہوئے کسی دیوتا کا نام استعمال نہیں کیا۔ میں ان ملائی پروفیسروں کی زبانی جاننے کا اشتیاق رکھتی ہوں کہ کس طرح مذہب ایک سائنسدان کی پیشہ ورانہ صلاحتوں کو متاثر کرتا ہے؟

اگلی بات یہ ہے کہ کسی بھی سائنسی دریافت کے بعد آپ کو اسے کسی مذہبی بیان کے ساتھ جوڑنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ کم از کم سائنس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی مذہب اس کی کسی سچائی کی گواہی دے یا اسے رد کرے۔ وہ ایک دریافت کرتی ہے اور اگلی دریافتوں کے لیے نئے جہانوں میں نکل جاتی ہے۔ ہاں البتہ مذہبی حلقوں اور صوفیانہ قسم کا مزاج رکھنے والے ہمارے پروفیسروں کی طرف سے آئے روز سائنس اور مذہب میں زبردستی کا تعلق جوڑنے کی کوشش اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ سائنسی دریافتیں یا تو مذہب کی توقیر میں اضافہ کرنے کا باعث سمجھی جا رہی ہیں یا پھر مذہبی ذہن کو اب نئے دلائل کی ضرورت درپیش ہے۔ ورنہ کوئی بھی وجہ نہیں کہ مذہب جو کہ اپنی بنیاد میں محض ایک اخلاقی نظام ہے اسے سائنسی نظام بنا کر پیش کیا جائے۔ کیونکہ سائنس کا اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کا کام حقائق پیش کرنا ہے بھلے وہ مروجہ اخلاق اور روایت سے انحراف کا کا تقاضا کیوں نہ کریں۔

سائنس اور مذہبی ذہن کا اختلاف اسی دن واضح ہو گیا تھا جب گلیلیو کو اس دعوے پر اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں اور نا ہی یہ کوئی ایسی مقدس شے ہے کہ سورج اس کے گرد گھومتا پھرے۔ یہ ایک حقیر سا سیارہ ہے جو دیگر سیاروں سمیت سورج کے گرد گردش میں ہے۔ مذہبی ذہن کا مرکز انسان ہے لیکن سائنس کا مرکز کائنات ہے۔ تب ہی سائنس انسان کو’سوچنے والا ترقی یافتہ جانور‘قرار دینے میں جھجھک محسوس نہیں کرتی۔ لیکن مذہب نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہوئے سائنس کے اس بیان پر اتنا برا بنایا کہ اخبارات میں اس دعوے کا تمسخر اڑاتے ہوئے ڈارون کے بندر نما خاکے شائع کیے۔ مذہبی ذہن انسان کو غیر مرئی قوتوں کے تابع کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے جب کہ سائنس کی وسعت نظر ملاحظہ کیجئے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے انسان کوناقابل تسخیر بلندیوں پر لے جاتی ہے کہ یہ کائنات چند فطری قوانین کے تابع ہے اور انسانی شعور کے پاس وہ صلاحیت ہے جس کے بل بوتے پر وہ ان قوانین کو دریافت کر کے کائنات کو اپنے تابع کر سکتا ہے۔ دیکھیے تو پرت در پرت اختلافات کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ پھر اس قدر بے باکی سے دعویٰ کیا جا رہا ہے سائنس اور مذہب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟

کائنات سے واپس پاکستان میں آتے ہیں۔ ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سائنسی کتب کے ساتھ ساتھ من پسند مذہبی تعلیم کے حصول کے وافر انتظامات موجود ہیں (ہم اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں)۔ تاہم سائنس اور مذہب میں تعلق دریافت کرتے ہوئے اتنا تو کیجئے کہ پاکستان کے ساٹھ ہزار سے زائد مدرسوں میں اور کچھ نہیں تو فقہ اور دیگر مذہبی کتابوں کے ساتھ صرف سٹیفن ہاکنگ کی ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ ہی کو نصاب میں شامل کرنے کی مہم کا آغازکر لیجئے۔ سائنس اور مذہب میں باہم تعلق ثابت کرتے ہوئے کارل ساگاں کے ایک صاف ستھرےپروگرام’ کوسموس ‘ کو پاکستان کے کسی مذہبی چینل کی نشریات میں جگہ دلوا دیجئے۔ محض قلمی دعوﺅں اورزبانی شعلہ بیانیوں سے تو کوئی دعویٰ سچ ثابت نہیں ہوتا۔

نسیم کوثر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نسیم کوثر

نسیم کوثر سائنس کی استاد ہیں۔ وہ زیادہ تر سماجی و سائنسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ افسانہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ انہیں شاعری، موسیقی اور فکشن سے لگاؤ ہے۔ موصوفہ کو گھڑ سواری اور نشانے بازی کا بھی شوق ہے۔

naseem has 9 posts and counting.See all posts by naseem

Subscribe
Notify of
guest
17 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments