جاوید احمد غامدی: یاد یار مہرباں (2)


ادارہ بنانے کا پروگرام شروع کرنے سے پہلے جاوید صاحب کا کالج میں بہت کم طالب علموں سے میل جول تھا۔ ادارے کی بنا رکھنے کے بعد افراد کار کی تلاش کے لیے طالب علموں سے ملنا اور ان کو اپنی بات کا قائل کرنے اور ساتھ شامل ہونے کی دعوت دینا، ہمارا اہم مشغلہ تھا۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں جاوید صاحب کے علم اور ذہانت کی شہرت کافی پھیل گئی۔ ایسا طالب علم جو چار زبانوں میں دست گاہ رکھتا ہو اس ماحول میں نایاب و یکتا دکھائی دیتا تھا۔ طالب علم جاوید صاحب کی گفتگو اور ان کے علم سے متاثر ہوتے تھے لیکن ساتھ چلنے کا حوصلہ کرنا ایسا آسان نہ تھا۔ طلبہ ایک روشن مستقبل کے حصول کی تمنا میں تعلیمی مراحل طے کر رہے تھے۔ ان نادیدہ راہوں پر بھٹکنے کا اچھے طالب علم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ گورنمنٹ کالج نیو ہوسٹل سے ہمیں دو ساتھی میسر آئے۔ اقبال مرزا اور افضال احمد۔ اقبال مرزا میرا کلاس فیلو اور روم میٹ بھی تھا اس لیے وہ تو ابتدا ہی میں شریک سفر بن گیا۔ وہ جاوید صاحب سے اس قدر متاثر ہوا کہ آئندہ چند برسوں کے لیے ان کا ہم زاد بن گیا۔ کوئی ایک برس بعد افضال بھی آن شامل ہوا۔

اس زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جاوید صاحب نے دعوی کیا کسی شخص کا ہینڈ رائٹنگ اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور میں کسی کا ہینڈ رائٹنگ دیکھ کر اس کی شخصیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔ افضال کے لیے اس قسم کے کسی دعوے کو مان لینا بہت مشکل تھا۔ ایک دن ہم افضال کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے ایک کلاس فیلو کے بنائے ہوئے نوٹس کی کاپی جاوید صاحب کے سامنے رکھ دی اور کہا آپ اس کی شخصیت کے متعلق بتائیں۔ ہمیں یقین تھا جاوید صاحب کا اس طالب علم سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ جاوید صاحب کچھ لمحے اس کاپی پر نظر جمائے رہے، پھر انھوں نے کہا کہ یہ بنا سنوار کر لکھی گئی تحریر ہے، یعنی فطری بہاؤ کے ساتھ لکھی ہوئی نہیں ہے اس لیے غلطی کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اس کی عادات اور کردار کے بارے میں بتانا شروع ہو گئے۔ افضال نے صرف دو باتوں کی تردید کی۔ ایک مجھے آج بھی یاد ہے۔ جاوید صاحب نے بتایا یہ ہاکی کا کھلاڑی ہے۔ افضال نے کہا نہیں کرکٹ کھیلتا ہے۔ ایک عجیب عادت یہ بتائی کہ یہ کسی دوست کے ساتھ سڑک پر چلتے ہوئے ہمیشہ اس کی بائیں جانب چلتا ہے، یعنی خود کبھی سڑک کی جانب نہیں چلتا۔ بعد میں افضال نے جب اپنے دوست سے پوچھا تو اس نے اس بات کی نہ صرف تائید کی بلکہ کہا وہ شعوری طور پر ایسا کرتا ہے۔ اس کو انگریزی زبان میں (Graphology ) کہا جاتا ہے اور اس کا شمار دست شناسی جیسے نام نہاد علوم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں، لیکن اس وقت ہمارے اوپر رعب خوب پڑا تھا۔

اب ذرا علامہ کے لقب کا بھی ذکر ہو جائے۔ میرا ابھی یونین کی صدارت کا دور چل رہا تھا؛ جاوید صاحب مریدکے سے لاہور واپس آ چکے تھے۔ جاوید صاحب کا ایک پبلک لیکچر کرانے کا پروگرام بنا۔ مسئلہ یہ تھا نہ کسی ہوٹل کا بار اٹھانے کے وسائل تھے نہ ہال کا کرایہ دینے کی استطاعت تھی۔ میں نے تجویز پیش کی گورنمنٹ کالج کے اولڈ ہال میں کروا لیتے ہیں، اس طرح ہال کا کرایہ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیکچر کے پوسٹر چھپوا کر شہر میں لگائے گئے۔ ہمارے ہاں ناموں کے ساتھ القابات لگانے کا بہت رواج ہے۔ ایک بائیس تئیس برس کے نوجوان کو، جس کی بھرواں داڑھی بھی نہیں، مولانا تو کہا نہیں جا سکتا تھا۔ پوسٹر چھپوانے کی الیاس کی ذمہ داری تھی۔ جب پوسٹر چھپ کر آئے تو ان پر مقرر کا نام علامہ جاوید احمد لکھا ہوا تھا ، جو خالصتاً الیاس کی ذہنی اپج تھی۔ اس طرح یہ لقب آئندہ کئی برس تک جاوید صاحب کے نام کا حصہ بنا رہا۔ الیاس اپنے مخصوص شرارتی انداز میں کہا کرتا تھا ہم کو دعائیں دو تمھیں علامہ بنا دیا۔

تعلیم سے فارغ ہونے کے باوجود ہمارے ذہن ابھی فکر معاش سے بیگانہ تھے۔ بس کچھ بڑا کام کرنے کی دھن سر پرسوار تھی۔ اس زمانے میں ہم غالب کا یہ مصرع بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے: بیا کہ قاعدہء آسماں بگردانیم۔ اس ضمن میں ہمارے دوست مستنصر میر کی کہانی بہت سبق آموز ہے۔ میر صاحب نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور اس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اسی زمانے میں جاوید صاحب سے ملاقات ہوئی تو نوکری کرنے سے انکاری ہو گئے۔ خیر گھر والوں کے دباؤ کے نتیجے میں انھوں نے سول سروسز اکیڈمی جائن کر لی۔ اکیڈمی میں ان کا پہلا نمبر تھا، کیونکہ جس کا پہلا نمبر تھا وہ ورلڈ بنک میں چلا گیا تھا۔ میر صاحب کا وہاں دل نہیں لگتا تھا، چنانچہ ٹریننگ کے اختتام پر انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور ہمارے رفیق سفر بن گئے۔ ڈاکٹر منصور الحمید بھی ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد نوکری کا آغاز کرنے پر رضامند نہیں تھے۔ کئی برس بعد، شاید ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی کی شادی کے موقع پر، میری اہلیہ کی ان کی والدہ سے ملاقات ہوئی۔ وہاں جاوید صاحب کا ذکر بھی آ گیا تو ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے کہا اوہ جیہڑا منڈیاں نوں نوکری نئین کرن دیندا۔

 جاوید صاحب مرید کے سے لاہور واپس آ کر گارڈن ٹاؤن کے احمد بلاک میں ایک مکان کرائے پر لے کر دوبارہ کام کا آغاز کر چکے تھے۔ ایم اے کے امتحان سے فارغ ہو کر میں بھی ہوسٹل سے وہاں منتقل ہو گیا۔ الیاس، افضال اور چوہدری رفیق پرانے ساتھی تھے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر منصور الحمید، مستنصر میر اور ملک اشرف ساتھ شامل ہو چکے تھے۔

مگر اس برس دو حادثات ہوئے جنہوں نے جاوید صاحب کی آئندہ زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پہلا حادثہ یہ تھا جاوید صاحب نے مولانا مودودی صاحب کی خواہش پر جماعت اسلامی میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔ میرے علاوہ باقی ساتھیوں نے بھی جماعت کی رکنیت کے فارم جمع کروا دیے۔ میں نے مقدور بھر اس فیصلے کی مخالفت کی۔ میری مخالفت کی دو وجوہ تھیں۔ اولین وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے پرانے لوگ آپ کو قبول بھی نہیں کریں گے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی ایک شخصیت کی فکر کے گرد قائم ہونے والی جماعت ہے اس لیے اس کا کا رخ کسی اور طرف موڑنا ممکن نہیں۔ اسے حسن اتفاق کہیے اس زمانے میں رانا اللہ داد خاں لاہور جماعت کے امیر تھے جو جاوید صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتے تھے۔ اس لیے عام جماعتی طریق کار کے برعکس جاوید صاحب کو بہت جلد رکنیت مل گئی، باقی دوستوں کی درخواستیں زیر غور تھیں۔

کراچی میں جماعت اسلامی نے ادارہ معارف اسلامی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا، جس کے تحت چراغ راہ کے نام سے ایک مجلہ بھی شائع ہوتا تھا۔ مولانا مودودی صاحب کی خواہش تھی کہ اس ادارے کی شاخ لاہور میں بھی قائم کی جائے۔ انھوں نے جاوید صاحب کو اس کا سربراہ نامزد کیا۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی کے دفاتر منصورہ منتقل ہو گئے تھے۔ اچھرہ میں ایک خالی ہونے والی عمارت کو مولانا مودودی صاحب نے جاوید صاحب کے حوالے کرنے کا کہا تاکہ وہاں ادارہ معارف اسلامی کا دفتر قائم کیا جا سکے۔ جماعت کے ارباب بست و کشاد اس فیصلے پر خوش نہیں تھے چنانچہ انھوں نے کئی ماہ کی لیت و لعل کے بعد، اور مولانا مودودی صاحب کے شدید اصرار پر وہ عمارت حوالے کی اور ہم سب لوگ وہاں منتقل ہو گئے۔

یہاں ہمیں پہلی بار عمارت کا کرایہ ادا کرنے کی فکر سے نجات ملی۔ تعلیمی پروگرام کا دوبارہ آغاز ہوا۔ لیکن اس میں چند دشواریاں حائل تھیں۔ جاوید صاحب کی اگرچہ رسمی تعلیم تو ہے، لیکن میں انھیں خود آموز ہی قرار دوں گا۔ وہ بے پناہ ذہانت کے مالک ہیں۔ ان میں یہ ملکہ ہے کہ وہ کسی فن کی اعلیٰ ترین کتاب کو پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ مصیبت یہ تھی کہ یہی توقع وہ دوسروں سے بھی رکھتے تھے۔ اس لیے عربی زبان کی تدریس کا معاملہ کچھ الل ٹپ ہی چل رہا تھا۔ گارڈن ٹاؤن میں قیام کے زمانے میں ہمیں اچانک مشہور مصری ادیب طہٰ حسین کی ایک کتاب من لغو الصیف کا مطالعہ شروع کرا دیا گیا۔ اس میں ایک کہانی من اعماق الصحرا مجھے بہت پسند آئی تھی اور اس زمانے میں اس کا اردو میں ترجمہ کرنے کا ارادہ بھی کیا تھا۔

اچھرہ کے زمانہ قیام میں جاوید صاحب نے ہمیں عربی نحو کی کتاب کافیہ پڑھانا شروع کی۔ اس کے پہلے ہی جملے پر میرا جھگڑا ہو گیا۔ میرا اصرار تھا کہ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اس کا زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ جاوید صاحب کا کہنا تھا کہ یہ عربی نحو کی بہت اعلیٰ کتاب ہے، لیکن میرا ذہن اور ذوق اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ خیر کسی نہ کسی طرح کافیہ کا درس جاری تھا کہ مولانا مسعود عالم ندوی کے خطوط کی ایک کتاب میرے ہاتھ لگ گئی۔ ایک خط میں مولانا محترم نے کسی کو نصیحت کی تھی کافیہ جیسی کتابوں کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے؛ یہ زبان کا ذوق بگاڑنے والی ہیں۔ اس کے بعد کافیہ کی تدریس سے ہماری جان چھوٹ گئی۔ اسی زمانے میں ہم نے اصول الشاشی اور ابن حجر عسقلانی کی نخبة الفکر پڑھیں، ثانی الذکر کتاب پر میرا بہت مباحثہ ہوتا تھا۔ ہم نے سبعہ معلقات سے عمرو بن کلثوم کا معلقہ بھی پڑھا جس کے کچھ اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں۔

دوسرا حادثہ جاوید صاحب کی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے ملاقات تھی۔ جس وقت ہم لوگ اچھرہ منتقل ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے، مولانا اصلاحی صاحب ہمارے پاس تشریف لائے تھے۔ مسجد شہدا میں مولانا اصلاحی کا خطاب تھا۔ جاوید صاحب اور الیاس وہاں گئے تھے اور خطاب کے بعد مولانا کو اپنے ساتھ گارڈن ٹاؤن لے آئے تھے۔ میر ی مولانا سے یہ پہلی ملاقات تھی۔

 اس ملاقات کے بعد جاوید صاحب نے مولانا کی تصانیف، بالخصوص ان کی تفسیر تدبر قرآن، کا مطالعہ شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جاوید صاحب کو مولانا مودودی صاحب کے ترجمہ اور تفسیر میں بہت غلطیاں دکھائی دینے لگیں۔ اچھرہ منتقلی کے بعد وہ ہر چند روز بعد مولانا سے کسی نہ کسی آیت کے ترجمے یا تفسیر پر اپنا اختلاف بیان کرنے پہنچ جاتے۔ اس پر الیاس اور میرا کہنا تھا کہ آپ چونکہ جماعت میں شامل ہو چکے ہیں اور رکن بھی بن چکے ہیں، اس لیے ذرا دھیرج سے کا م لیجیے۔ اس قدر تیزی مناسب نہیں؛ اس کا آپ کو نقصان ہو گا۔ اس زمانے میں جاوید صاحب ان باتوں کو، جن میں کسی مصلحت شناسی کا شائبہ ہو، درخوراعتنا نہیں رکھتے تھے۔ ان کا جواب ہوتا تھا میں ایک عمارت میں قیام کی خاطر کتمان حق کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔

 اسی دوران میری پنجاب سروس کمیشن کی جانب سے لیکچرر کی سلیکشن ہو چکی تھی اور ستمبر میں مجھے تعیناتی کا خط مل چکا تھا ۔ میری تعیناتی گورنمنٹ خواجہ فرید کالج، رحیم یار خان میں ہوئی تھی۔ وہاں اگرچہ ایک طرح سے گھر ہی تھا، لیکن میں اس وقت لاہور سے باہر نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں نے کچھ بھاگ دوڑ کی لیکن لاہور میں تعیناتی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ بالآخر کوئی پانچ ماہ کی تاخیر کے بعد میں فروری 1976 کے آخری ہفتہ میں رحیم یار خان چلا گیا۔

 گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور آیا تو پتہ چلا جاوید صاحب کے جماعت اسلامی کے ساتھ معاملات بہت کشیدہ ہو چکے تھے۔ ایک رات میں باہر سے آیا تو جاوید صاحب کو جمعیت کے ایک بہت سرگرم کارکن کے ساتھ مصروف گفتگو پایا۔ کوئی گھنٹہ بھر میں نے وہ گفتگو مکمل خاموشی کے ساتھ سنی۔ جب وہ صاحب تشریف لے گئے تو میں نے جاوید صاحب سے کہا آپ کچھ خدا کا خوف کریں۔ یہ کیا کر رہے ہیں۔ جاوید صاحب کا جواب تھا نہیں یہ بے چارہ تو خود میری طرح جماعت کے معاملات پر بہت مضطرب ہے۔ میں یہ کہہ کر خاموش ہو گیا ان صاحب کے بارے میں میری رائے کچھ مختلف ہے۔ اس ملاقات کے کوئی ایک مہینہ بعد اس نے وہ تمام گفتگو تحریری صورت میں جماعت کو رپورٹ کر دی۔

میری غیر حاضری کے دوران میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ جاوید صاحب جب مولانا مودودی صاحب سے تفہیم القرآن پر اپنے اعتراضات بیان کیا کرتے تھے تو ایک دن مولانا نے ان سے کہا آپ یہ اعتراضات تحریری صورت میں مجھے دے دیں۔ جاوید صاحب نے کچھ دنوں بعد لکھ کر دے دیے۔ مولانا نے جب ان کا جواب لکھا تو اسے اپنے رسالہ ترجمان القرآن میں چھاپ بھی دیا۔ اگرچہ مولانا نے جاوید صاحب کا نام نہیں دیا تھا، لیکن ان اعتراضات کو پڑھ کر جماعت اور جمعیت میں ہر شخص کا دھیان جاوید صاحب کی طرف ہی گیا۔ جاوید صاحب ان دنوں گڑھی شاہو کی ایک مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ وہاں جمعیت کے کچھ لڑکوں نے ترجمان القرآن میں چھپنے والے اعتراضات کی بابت استفسار کیا۔ جاوید صاحب نے چونکہ مولانا سے یہ ضمانت لی تھی کہ ان کا نام افشا نہیں کیا جائے گا، اس لیے انھوں نے گول مول جواب دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اس جواب کا ان لڑکوں نے یہ مطلب سمجھا کہ جاوید صاحب انکار کر رہے ہیں۔ وہ مولانا مودودی صاحب کے پاس گئے اور نجانے ان سے جا کر کیا کہا کہ مولانا نے جاوید صاحب کے ہاتھ سے لکھے ہوئے کاغذات ان کے حوالے کر دیے۔ ان لوگوں نے واپس آ کر مسجد میں ہنگامہ کیا اور جاوید صاحب پر جھوٹ بولنے کا الزام عاید کیا۔ اس پر جاوید صاحب نے درس کے شرکا پر واضح کیا کہ کس شرط پر انھوں نے یہ اعتراضات لکھ کر مولانا کو دیے تھے اور ظاہر ہے کہ ان اعتراضات کو شائع کرنا مقصود نہیں تھا۔ بہرحال ان واقعات کی بنا پر کچھ عرصہ بعد جاوید صاحب کی جماعت کی رکنیت ختم کر دی گئی۔

 گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے پر میں واپس رحیم یار خان چلا گیا تھا۔ گورنمنٹ سروس میں کنفرمیشن کے لیے پولیس رپورٹ درکار ہوتی ہے۔ سی آئی ڈی کی رپورٹ میں، کالج یونین میں سرگرمیوں کی بنا پر، مجھے سرکاری نوکری کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر میں نے اپنے گھر والوں کو قائل کر لیا کہ اس وقت میرا نوکری سے استعفا دے دینا مناسب ہو گا۔ چنانچہ میں اکتوبر کے آخری ہفتہ میں استعفا دے کر لاہور واپس آ گیا۔ یہاں آ کر پتہ چلا جماعت کی طرف سے عمارت خالی کرنے کا نوٹس مل چکا ہے۔ اس کڑے وقت پر ایک بار پھر الیاس ہی کام آیا۔ اس نے مرید کے میں اپنے پرانے گھر کی دوسری منزل پر بندوبست کیا اور ہم جنوری  1977 میں وہاں منتقل ہو گئے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).