مسلم لیگ کا لندن اجلاس اور بلاول بھٹو کا انٹرویو


پاکستان کی سیاست کے حوالے سے دو اہم خبریں سامنے آئی ہیں۔ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا اجلاس ہوا ہے جس کے بعد پارٹی کے سربراہ نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ پارٹی کسی مائنس نواز فارمولے پر غور نہیں کر رہی ہے۔ وہ بدستور پارٹی کے صدر ہیں اور پارٹی ان کی قیادت میں متحد ہے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کی طرف سے گزشتہ چند روز کے دوران شدت اختیار کرنے والی ان افواہوں کی تردید کی گئی ہے کہ شہباز شریف کے اپنے بھائی کے ساتھ اختلافات اس حد تک بڑھ چکے ہیں اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے لئے ناقابل قبول ہو چکے ہیں، اس لئے پارٹی قیادت کی ذمہ داری شہباز شریف سنبھال لیں گے۔ نواز شریف نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ 3 نومبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہونے کےلئے پاکستان آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اس اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔ اس طرح پارٹی میں اگر بعض معاملات پر اختلاف موجود بھی تھا تو اس پر فوری طور سے قابو پا لیا گیا ہے۔ ملکی سیاست کے حوالے سے دوسری اہم خبر یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی پارٹی ملک میں کوئی ٹیکنو کریٹ یا قومی حکومت قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔ وہ اول و آخر جمہوریت کے ساتھ ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے اندیشہ ظاہر کیا کہ نواز شریف اور ان کے ساتھی اپنی قانونی و سیاسی مشکلات کی وجہ سے ٹیکنو کریٹ حکومت کے بارے میں خبروں کو پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یا ان کی خواہش ہے کہ ملک کی فوج کو اشتعال دلانے کےلئے ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ اسے مارشل لا لگانا پڑے۔ تاہم انہوں نے جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی اور پارٹی کے موقف کا اظہار کرکے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی پارٹی کسی غیر جمہوری کوشش کا حصہ نہیں بنے گی۔ اس سے قبل آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی طرف سے مفاہمانہ تعاون کی پیشکش کو مسترد کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بعض ایسی آئینی ترامیم کےلئے بھی تعاون سے گریز کیا ہے جس کی وجہ سے نواز شریف کو موجودہ قانونی مشکلات سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ اس دوران یہ خبریں بھی موصول ہوتی رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اور اعتماد بحال کرکے آئندہ انتخابات کے دوران کسی طرح سندھ کے علاوہ مرکز یا دوسرے صوبوں میں شریک اقتدار ہونے کی خواہش رکھتی ہے۔ ان قیاس آرائیوں کی روشنی میں نواز شریف کے بارے میں آصف زرداری کے سخت موقف کو جمہوری عمل کےلئے خطرہ قرار دیا جا رہا تھا۔ البتہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا دوٹوک بیان ان سیاسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کا سبب ہونا چاہئے جو مسلسل ملک میں سیاسی بحران کو بنیاد بنا کر فوج کی مداخلت یا کسی بھی طریقہ سے غیر جمہوری حکومت کے قیام کے امکانات کی خبریں پھیلاتے رہے ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ترجمان میجر جنرل آصف غفور ٹیکنو کریٹ حکومت یا فوجی مداخلت کی خبروں کو واضح الفاظ میں مسترد کر چکے ہیں۔ آرمی چیف نے ملک کے آئین کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج ملک کی آئینی حکومت کی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق کام کرے گی۔ تاہم 28 جولائی کو سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کی نااہلی کے حکم کے بعد سے ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے بارے میں تسلسل سے خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ ان افواہوں اور اندیشوں کو نواز شریف کی اسلام آباد سے لاہور تک احتجاجی ریلی اور عدلیہ اور دیگر اداروں کے بارے میں تند و تیز جملوں نے بھی تقویت بخشی ہے۔ یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو کسی طرح قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ان کی بجائے شہباز شریف قابل قبول ہیں۔ اسی لئے پارٹی کے وہ سارے عناصر جو بہرصورت اقتدار کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں، اشارہ ملتے ہی مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے نواز شریف کو ایک قانونی ترمیم کے ذریعے پارٹی کا صدر بنائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کی قیادت شہباز شریف کو ملنی چاہے۔ نواز شریف اپنے خلاف مقدمات سے فارغ ہو کر پارٹی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ ایسے بیانات اور خبروں کی روشنی میں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف قائم ہونے والے بدعنوانی کے مقدمات اور پاناما کیس میں ان کی نااہلی کو قانونی ضرورت سمجھنے اور اس کے مطابق ان سے نمٹنے کی بجائے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے بھی اسے سیاسی رنگ دیا اور مخالفین نے بھی اپنی شعلہ بیانی سے اس تاثر کو تقویت دی کہ یہ کوئی قانونی معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے طاقتور ادارے نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ اس طرح سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بارے میں شکوک و شبہات مسلسل گہرے ہوتے رہے ہیں۔

اس دوران ماہرین یا ٹیکنو کریٹس پر مبنی حکومت بنانے کی خبریں بھی عام کی جاتی رہی ہیں اورمختلف صحافی، اینکر اور سیاستدان یہ بیان بھی دیتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے درجنوں اراکین اسمبلی اشارہ ملتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنے کےلئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ بے یقینی نواز شریف کے سیاسی عزائم کےلئے مہمیز کا کام کرتی رہی ہے۔ کیونکہ عدالتی فیصلہ کو مشکوک بنانے سے ہی وہ موجودہ مشکل صورتحال سے نکلنے کی امید کر سکتے ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ نواز شریف شاید احتساب عدالت میں خود پر عائد الزامات کا جواب نہ دے سکیں۔ اس لئے اس حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کو مسلم لیگ (ن) اپنے اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کرتی رہی ہے کہ نواز شریف کے خلاف اصل مقدمہ ان کی پالیسیوں کے مقتدر حلقوں کا اختلاف ہے۔ اور یہ کہ نواز شریف فوج کے مقابلے میں سول بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں قبول کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے اور اسی لئے انہیں سیاست سے باہر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ جمہوری حکومت کے خاتمہ کےلئے خبریں سامنے لانے والے عناصر دانستہ یا نادانستہ نواز شریف کا سیاسی سہارا بنے ہیں۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کی ایک اشارے پر بغاوت کے علاوہ یہ خبریں بھی سامنے لائی گئیں کہ سپریم کورٹ یا پارلیمنٹ سے ہی ایک عبوری قومی یا ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کرنے کی منظوری لی جائے گی۔ تا کہ فوج براہ راست اس عمل میں ملوث نہ ہو لیکن سیاسی منظر نامہ پر وہی اقدامات کئے جائیں جو فوج کی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوں۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران اس منصوبہ کے حوالے سے یہ انکشافات بھی کئے گئے تھے کہ ایسی عبوری حکومت طویل ہوگی اور وہ ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کی راہ ہموار کرے گی۔ اس طرح فوج اپنے پسندیدہ شخص کو ملک کے ’’اسٹرانگ مین‘‘ کے طور پر سامنے لا کر موجودہ سیاسی بحران اور کھینچا تانی سے نجات حاصل کر سکے گی۔

اسی پس منظر میں وزیر داخلہ احسن اقبال کو ایک مضمون میں یہ سوال اٹھانا پڑا ہے کہ کیا ملک میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری میوزیکل چیئر کا کھیل جاری رہے گا یا اس بار سیاسی قوتیں کامیاب ہوں گی اور ملک میں جمہوریت جاری رہے گی۔ وزیر داخلہ کا موقف ہے کہ بعض ناکام سیاستدان، میڈیا کے ناراض عناصر اور چند ریٹائرڈ فوجی افسر ملک میں جمہوریت کا بستر گول کروانا چاہتے ہیں تاکہ ایک ٹیکنو کریٹ یا آمرانہ حکومت میں وہ اعلیٰ عہدے اور مفادات حاصل کر سکیں۔ احسن اقبال نے امید ظاہر کی ہے کہ اس بار غیر جمہوری قوتیں ملک کے سیاسی عمل میں خلل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ اب ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس حد تک احسن اقبال اور حکمران پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی تائید کی ہے کہ پیپلز پارٹی کسی غیر جمہوری حکومت کو قبول نہیں کرے گی۔ نوجوان رہنما کی یہ بات سیاسی بلوغت کا مظہر ہے۔ انہوں نے پنجاب میں پارٹی کی عدم مقبولیت کے باوجود یہ حوصلہ مندانہ بیان دے کر ملک میں جمہوریت کے حوالے سے شبہات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی بلاول بھٹو زرداری کی آواز میں آواز ملا کر پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہات کی بیخ کنی کرنی چاہئے۔ اس وقت بعض عناصر احتساب اور اسی قسم کے دیگر عذر تراش کر اگلے برس منعقد ہونے والے مجوزہ انتخابات موخر کرنے یا سرے سے جمہوری عمل کو معطل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ تاہم ووٹ کے ذریعے عوام کی تائید سے حکومت بنانے کی خواہشمند کوئی سیاسی پارٹی اس بے یقینی میں اضافہ کا سبب نہیں بن سکتی۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قیادت کے بحران کی تردید اور پیپلز پارٹی کی طرف سے جمہوریت کی تائید میں آنے والا بیان ملک میں عوامی حکمرانی کے تسلسل کےلئے بے حد اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ملک میں جمہوری عمل میں تعطل ملک کے مستقبل کےلئے شدید نقصان کا سبب بنے گا۔ بھارت مسلسل پاکستان کی سلامتی اور اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی حکومت بھارت نوازی کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ درشت رویہ اختیار کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے تجارتی عزائم کا راستہ روکنے کےلئے امریکہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کی مخالفت کا اعلان کر چکا ہے اور سی پیک کے حوالے سے بھارتی موقف کی تائید کرکے پاکستان کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کی تکمیل اور کامیابی چین کی مواصلاتی اور تجارتی ضرورتوں کےلئے اہم ہے۔ لیکن پاکستان کےلئے موجودہ مالی دباؤ اور سماجی مسائل سے نمٹنے کی واحد امید کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان حالات میں جمہوری عمل میں تعطل پاکستان دشمنوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے مترادف ہوگا۔

پاکستان اور اس کے عوام کی بہبود چاہنے والی قوتوں کو ایک طرف جمہوری عمل کو یقینی بنانے کےلئے یک آواز ہونا چاہئے تو دوسری طرف یہ تاثر ختم کرنا چاہئے کہ سیاسی اختلافات کو قومی اہداف کے حصول میں رکاوٹ بنایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali