جب انسان اپنی ذات پر جبر کرتا ہے


جب میں نے  Dynamics of Oppressionنامی ایک کورس کا انتخاب کیا تو مجھے تھوڑا بہت تو اندازہ تھا کہ کچھ دلچسپ سیکھنے کو ملے گا مگر اس قدر گتھیاں سلجھیں گی اس بات کا بالکل علم نہیں تھا – پہلی کلاس میں ہی بتا دیا گیا کہ ہم اس کورس میں صرف ایک قسم کے جبر کا ذکر کریں گے اور وہ ہے خود جبری- کیونکہ یہی جبر کی سب سے خطرناک شکل ہے جو کسی بھی فرد یا انسانی گروه کی ذہنی اور جذباتی صحت کو سب سے زیادہ متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے – بتایا گیا کہ یہ ظلم کی وہ بدترین مثال ہے جس میں ظالم کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ مظلوم خود اپنے اوپر وہ ظلم کرنے لگتا ہے جو کبھی دوسرے اس پر کیا کرتے تھے – ا س کو انگریزی میں انٹرنلائز ڈ آپریشن Internalized Oppression کہتے ہیں –

دوسرے الفاظ میں جب ایک فرد یا کمیونٹی ایک عرصے تک کسی تعصب یا جبر کا نشانہ بننے رہتے ہیں تو وہ “خود جبری” کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ مظلوم اپنے آپ کو اسی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جس نظر سے ظالم کبھی ان کو دیکھ رہے ہوتے تھے – یعنی مظلوم نہ صرف خود اپنے ہی خلاف پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اپنی اصل شناخت بھول جاتے ہیں بلکہ ان تمام افوہوں اور قصہ کہانیوں کو سچ مان کر ان پر یقین کر لے آتے ہیں اور جو ان ہی کے بارے میں گڑھی گئی ہوتی ہیں –

 ایسے نظریات پر یقین جو خود آپ کی ذات یا اس کے کسی ایک حصے کی بھی نفی کررہے ہوں ذہن کو دہرے دباؤ کا شکار بنا دیتی ہے – چونکہ آپ بیک وقت ظالم اور مظلوم دونوں ہو رہے ہوتے ہیں اس لئے خود جبری میں جذباتی دباؤ جبر کے مقابلے میں زیادہ شدید ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ فرد کی جذباتی صحت کو نقصان پہچانے کی بھی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے –

جیسے ایک عورت ساری زندگی یہ سنتے بڑی ہوتی ہے کہ سیکس ایک گندہ کام ہے جس سے وہ جوٹھی ہوجاتی ہے یا جنسی تشدد کی صورت میں عورت کی عزت چلی جاتی ہے اور شادی کے قابل نہیں رہتی تو وہ اپنی مرضی سے سیکس کرنے کی صورت میں اور یا جبری سیکس کی صورت میں وہ اپنے کو گندہ گرداننے لگتی ہے اور اپنے آپ سے نفرت کا شکار ہو جاتی ہے یا جسمانی طور پر اپنے آپ کو دھوتی رہتی ہے کہ وہ ناپاک ہو گئی ہے –

عمومی خود جبری کی کچھ اور مثالوں میں اگر کوئی عورت اس بات پر یقین کرے کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے – یا کوئی سیاہ فام عورت سمجھے کہ چونکہ اس کے بال گھنگھریالے ہیں اور وہ کالی ہے یا اس کی ناک موٹی ہے تو وہ بدصورت ہے – یا کوئی مرد لوگوں کے سامنے رونے سے اجتناب کرے کہ یہ اس کی مردانگی کے خلاف ہے- انگریزی نہ آنے کی صورت میں اپنے آپ کو جاہل سمجھنا – یا یہ سمجھنا کہ ہماری قوم تو بس ڈنڈے کی قوم ہے –

افسوس کی بات یہ ہے کہ جتنی جبر کی شکلیں ہیں اتنی ہی اشکال میں خود جبری بھی موجود ہے –جہاں نسل پرستی ہے وہیں اپنی ہی نسل کو کم تر سمجھنا بھی ہے -جہاں مرد پرستی ہے وہیں اپنے آپ کو نامرد یا کم تر عورت سمجھنا بھی ہے – جہاں خوبصورتی کے معیار غیر انسانی ہیں وہاں اپنے آپ کو بدصورت سمجھنا بھی ہے – جہاں طاقت کا معیار غیر جذباتی ہونا ہے وہیں اپنی فطرتی خواھشات اور جذبات کو دبانا اخلاقی بھی ہے – جہاں جنس اور صنف کی صرف دو قسمیں ہی قدرتی سمجھی جاتی ہیں وہیں اپنے اندر کسی تیسرے قسم کے جنسی جھکاؤ کی نفی بھی موجود ہے –

 اصل میں انسانیت ابھی تک حقیقی اور روایتی قصوں ‘ دیو ما لائی کہانیوں اور پروپیگنڈوں میں فرق کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائی ہے جس کی وجہ سے سچ اور جھوٹ کی تفریق بھی نہیں ہو پا رہی ہے – اسی لئے کسی بھی سانحے کی صورت میں خود جبری کی شکل میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو نے کا خطرہ ہوتاہے – جتنا ہم حقائق سے دور اور قصہ کہانیوں کے قریب ہوتے ہیں اتنا ہی کوئی بھی واقعہ سانحہ بن کر ہم پر اثرانداز ہوتا ہے –

دوسرے لفظوں میں فرد یا کمیونٹی ایک بڑے پیچیدہ نظام کا حصہ ہوتے ہوئے کچھ سخت اصولوں کو لاگو کرتے کرتے بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی انہی سخت وچاروں تلے روندے جارہے ہیں – اور وہ ایک ہی وقت میں ظالم اور مظلوم دونوں کے کردار نبھا رہے ہوتے ہیں – ان حالات میں جب آپ اپنے ہی خلاف نبردآزما ہوں تو جو ذہنی اور جذباتی کشمکش پیدا ہوتی ہے وہ ایک فرد یا ایک ساتھ بہت سے لوگوں کی ذہنی صحت کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).