ہاؤس آف شریف میں وراثت کی کشمکش


میں نے بہت لوگوں سے پوچھا کہ انھیں مریم نواز کے نیو یارک ٹائمز کے انٹرویو پر اعتبار ہے یا بعد میں جاری ہونے والے وضاحتی ٹوئٹس پر یقین ہے۔ ہر ایک نے کہا ہے کہ انٹرویو میں ٹھیک بات سامنے آگئی ہے بعد میں تو ردعمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر کوئی مریم نواز کی اس بات پر یقین کر رہا ہے کہ ن لیگ کی قیادت مریم نواز کو دینے کے حوالہ سے شریف فیملی کے اندر فیصلہ ہو گیا ہے۔

صرف بات اتنی ہے کہ یہ فیصلہ شریف فیملی نہیں بلکہ نواز شریف کے خاندان کے اندر ہوا ہے۔ جب کہ باقی شریف فیملی کو اس پرشدید تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ قیادت مریم نواز کو منتقل کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔1993 میں جب میں نے سیاسی رپورٹنگ شروع کی تھی تو ایک دن میں پرویز رشید صاحب کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ فیصل آباد سے پیپلزپارٹی کے رہنما رانا فاروق بھی بیٹھے تھے۔

میں نے سوال کیا کہ بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کیوں آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے بھائی سے صلح کر لینی چاہیے۔ اگر وراثت پر کوئی لڑائی ہے بھی تو بے نظیر کو قربانی دے کر بھائی کو منا لینا چاہیے۔ جائیداد بھائی سے زیادہ قیمتی نہیں۔ تو دونوں سیاسی رہنماؤں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی ساری جائیداد ایک طرف، پیپلزپارٹی ایک طرف، باقی جائیداد کی تقسیم کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، مسئلہ تو پیپلزپارٹی کا ہے اس کی تقسیم کیسے کی جائے۔ لڑائی تو پیپلز پارٹی پر ہے۔

بے نظیر بھٹو کا موقف تھا انھوں نے پیپلزپارٹی کی بحالی کے لیے بہت قربانی دی ہے اس لیے اس پر ان کا حق ہے جب کہ مرتضٰی بھٹو کے پاس بھی اپنی قربانیوں کی ایک طویل فہرست تھی۔ دونوں کی ماں محترمہ نصرت بھٹو بھی اپنے دونوں بچوں کے درمیان مفاہمت نہیں کروا سکیں۔ اور پھر پہلے ایک کی اور بعد میں دوسرے کی جان چلی گئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو میں صلح ہو جاتی وہ پیپلزپارٹی کی شراکت داری کا کوئی راستہ نکال لیتے تو دونوں بچ سکتے تھے۔ ان کے دشمنوں نے انھیں اکیلے اکیلے کر کے مارا۔

مرتضیٰ کے بعد بے نظیر کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ خاوند اندر ہو گیا۔ جلا وطنی ہو گئی۔ کیا ملا کچھ بھی نہیں ملا۔ اس سے بہتر تھا بھائی کے ساتھ مل کر کام کر لیتیں۔ صورتحال آج بھی مختلف نہیں ہے۔ شریف فیملی کو بھی بھٹو فیملی جیسی ملتی جلتی صورتحال کا سامنا ہے۔ مسئلہ آج بھی وراثت کا ہے۔ نواز شریف ن لیگ کی وراثت اپنے بھائی شہباز شریف کو نہیں بلکہ بیٹی مریم نواز کو دینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بھتیجے حمزہ شہباز سے بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان کے بیٹی کے سامنے سرنگوں کر دے۔

اگر یہ بادشاہت ہوتی اور تخت کی وراثت آسان ہوتی تو شائد سب چپ ہی کر جاتے۔ لیکن یہ لولی لنگڑی ہی سہی لیکن جمہوریت ہے۔ یہاں وراثت ایسے منتقل نہیں ہو سکتی۔ آپ ایک حکم نامہ سے وراثت طے نہیں کر سکتے۔ کم سہی لیکن عوام کا اور پارٹی کا بھی ایک کردار ہے۔ وراثت کی منتقلی کے لیے صرف نواز شریف کی خواہش کافی نہیں۔ دیگر عوام کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ جہاں تک محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق ہے تو اپنی ایک طویل جدو جہد سے وہ پیپلزپارٹی میں اپنی قیادت کا لوہا منوا چکی تھیں جب کہ پارٹی مرتضیٰ کی قربانیوں کی اس طرح مداح نہیں تھی۔

بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے بھی خود کو منوا لیا تھا۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 1988 میں اقتدار کے لیے اداروں سے مفاہمت نے ان کے لیے راستے آسان کیے جب کہ مرتضی آخری دن تک اپنے والد کی پھانسی کو بھول نہیں سکے اور اسٹبلشمنٹ سے لڑتے رہے۔ بے نظیر کی مفاہمت نے مرتضیٰ کے لیے دروازے مزید بند کر دیے۔ تب اگر مرتضیٰ بھی بے نظیر کی مفاہمت کی پالیسی مان لیتے تو ان کے لیے بھی راستے بن سکتے تھے۔

یہ درست ہے کہ مریم بی بی نے کہا ہے کہ شہباز شریف ان کے ہیرو ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان شہباز شریف کے حوالے سے ابہام باقی رکھنا چاہتا ہے۔ وہ شہباز شریف کو اپنے سے الگ بھی نہیں کرنا چاہتے لیکن شہباز شریف کو کچھ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ کوشش یہی ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کے ساتھ جس پوزیشن میں کام کر رہے تھے مریم نواز کے ساتھ بھی اسی پوزیشن میں کام کرنے کے لیے راضی ہو جائیں۔ وہ شہباز شریف کو ایک باری بھی نہیں دینا چاہتے لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف ان کی اگلی باری کے راہ بھی ہموار کریں۔

شائد شہباز شریف اس پر بھی مان جاتے لیکن وہ اس کے لیے شہباز شریف کی بات ماننے کو بھی تیار نہیں۔ جہاں تک ن لیگ کی پارٹی کا تعلق ہے تو ابھی تک مریم بی بی کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ پارٹی کے لیے راستے کھولنے کے بجائے بند کر رہی ہیں۔ پارٹی مفاہمت کی بات کر رہی ہے وہ روز مزاحمت کر رہی ہیں۔ اگر پارٹی میں سیکرٹ بیلٹ سے رائے دہی کی اجازت ہو تو غالباً اس وقت شہباز شریف کی قیادت پر سب متفق جائیں۔ سوائے چند لوگوں کے سب شہباز کو موقع دینے کے حق میں ہیں۔

یہ بات تو نواز شریف نے خود بھی تسلیم کی تھی کہ جب انھوں نے پارٹی کے لوگوں سے مشاورت کی کہ ان کے بعد کس کو وزیر اعظم ہونا چاہیے تو اکثریت نے شہباز شریف کا نام لیا۔ لیکن شائد شہباز شریف کی پارٹی میں مقبولیت ہی ان کی راہ کی رکاوٹ بن گئی ہے۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ ن لیگ کے اندر یہ رائے بھی ہے کہ نواز شریف کو پوائنٹ آف ڈیڈ لاک نہیں بنانا چاہیے۔ انھیں پارٹی کو آگے چلنے دینا چاہیے۔ انھیں مریم کو بھی فوری قیادت نہیںدینی چاہیے۔ وہ اپنا کیرئیر شروع کریں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ملکہ کے طور پر ہی شروع کریں۔

آج وقت ہے کہ شریف فیملی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں بھی بھٹو فیملی کی طرح ہی وراثت کا فیصلہ کرنا ہے۔ جس طرح بے نظیر اور مرتضیٰ دونوں لڑتے لڑتے ہو گئے گم، کیا اسی طرح شریف فیملی بھی ایسے ہی کرے گی۔ کیا نواز شریف بھی بے نظیر کی طرح اپنے بھائی کی قربانی دے دیں گے یا بھائی کو موقع دیں گے۔ صورتحال مختلف نہیں اگر نواز شریف شہباز شریف کو قربان بھی کر دیتے ہیں تو بھی انھیں کچھ نہیں ملے گا۔ مریم کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ جس طرح بے نظیر کو کچھ نہیں ملا تھا۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).