ایک لڑکی کب کب جنسی ہیریسمنٹ کا شکار ہوتی ہے!


کچھ دنوں سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہراساں ہونے کی تعریف بھی طبقاتی تقسیم کی طرح تقسیم کردی گئی ہے۔ اگر پل کے اس پار کسی طاقتور خاندان کی کسی بیٹی بہن کو سوشل میڈیا پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی جائے، تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ اس پر مستقبل میں کوئی ڈاکیومینٹری بھی بنائی جاسکتی ہے جبکہ پل کے اس پار ہراساں ہونے والی خواتین کا کچھ نہیں ،کیوں کہ وہ تو روز کا مسئلہ ہے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی بہن کو فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے والا ڈاکٹر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ نوکری سے فارغ ہوا یا جبری رخصت پر بھیجا گیا لیکن شرمین نے جو کہا وہ پورا کیا کہ ڈاکٹر نے غلط خاندان سے پنگا لے لیا ہے۔ ظاہر ہے طاقتور خاندان کی لڑکی کو ایک فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا بھی تو ” ہراساں ” کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور اگر غلطی سے مسیج بھیج دیا جاتا تو وہ ڈاکٹر تو گناہ عظیم کا مرتکب پایا جاتا۔

سوشل میڈیا پر اٹھنے والی اس ساری بحث میں ، میں نے لوگوں کے کمنٹس بغور پڑھے اور پھر انکی پروفائلز بھی دیکھیں، معلوم یہ ہوا کہ ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی شرمین کے اس عمل سے خائف ہے۔ جبکہ چند لوگ انکے حامی بھی ہیں۔ ایک حمایتی خاتون نے فرمایا کہ جو لوگ شرمین کے خلاف بول رہے ہیں وہ طبقہ وہ ہے جو ہراساں کرکے خود کو تسلی دیتا ہے جبکہ جو عورتیں ہراساں ہوتی ہیں انھیں ہراساں ہونے میں مزہ آتا ہے۔ کئی مردوں نے کہا کہ عورتیں بھی انھیں گھورتی ہیں ، فرینڈ ریکویسٹ بھیجتی ہیں ، فون پر تنگ کرتی ہیں کیا وہ بھی واویلا مچائیں ۔ کئی خواتین نے اپنی فیس بک کی فرینڈ ریکویسٹ کے آپشن کے اسکرین شاٹس جس میں کئی سو ریکویسٹ موجود ہیں انھیں لگا کر پوچھا کہ میں تو کئی سو بار ہراساں ہوگئیں ہوں۔

بحث طول پکڑ چکی ہے لیکن میں اسکو کسی اور طرح سے دیکھ رہی ہوں ۔ ہمارے معاشرے میں شاید ہی کوئی ایسی لڑکی ہو جو ہراساں نہ ہوئی ہو، اب بات کرتے ہیں پل کے اس پار کی عورت کی جنھیں بقول اشرافیہ کے ہراساں ہونے میں لطف آتا ہے وہ کیا جانیں کہ ہراساں ہونا کسے کہتے ہیں۔ بازار میں ماں کے ساتھ جانے والی وہ لڑکی جس کی شادی میں چند ماہ رہ گئے ہوں جب اپنی پسند کے زرق برق کپڑے خریدتی ہے تو دکاندار اسے کہتا ہے جی جی یہ کلر لیں آپ کا تو رنگ بھی اتنا گورا ہے آپ پر خوب جچے گا۔

جب آپ یہ پہنیں گی ناں تو کسی کی نظر آپ پر سے نہیں ہٹے گی جبکہ یہ عام زبان میں ” سمپل مارکیٹنگ ٹیکٹک” ہوتی ہے جس کو دکاندار استعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن بار بار ایسے جملے خواتین کو زچ بھی کر رہے ہوتے ہیں کیو نکہ اسی میں دکاندار فائدہ اٹھاتے ہوئے ذو معنی جملے بھی کہہ جاتے ہیں۔۔ بازار کے رش سے تنگ آکر اکثر جب چھوٹی عمر کی بچیاں تھک ہار کر اماں سے کچھ ٹھنڈا پینے کی فرمائش کردیں تو کئی ایسے دکاندار یا ریڑھی فروش بھی ہوتے ہیں جو بلا وجہ ان بچیوں کو اضافی جوس کی پیش کش کرتے ہیں بلکہ بار بار کچھ اور چائیے کی رٹ لگا دیتے ہیں۔ ان بچیوں کو سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ وہ ہراساں ہورہی ہیں۔ پل کے اس پار رہنے والے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ وہ روز رکشہ ٹیکسی افورڈ نہیں کرسکتے۔ جب یہ بچیاں اور لڑکیاں جو پڑھائی کی غرض سے بسوں میں سفر کرتیں ہیں تو کنڈیکٹر سمیت بس میں سفر کرنے والے مرد مسافروں کے ذو معنی جملوں، گھورنے اور بہانے سے ہاتھ لگانے کے عمل سے بھی گزرتی ہیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے جب یونیورسٹی سے ماسٹرز کے بعد میں نے پہلی نوکری ایک فوڈ میگزین میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کرنے کی ٹھانی تو میرے والد میری نوکری کے خلاف نہیں کئی کلومیٹر دور بس سے آفس آنے جانے کے خلاف تھے۔ ان کو میرے مزاج کا علم تھا انھوں نے اکیلے میں مجھے بٹھا کر کہا کہ بیٹا میں جانتا ہوں تم نڈر ہو، کوئی تمہیں نقصان پہنچانے کا سوچے گا تو تم بھی اپنے دفاع میں کچھ کرو گی لیکن یہ دنیا بہت ظالم ہے یہاں لوگ برا کرتے ہیں لیکن ردعمل برداشت نہیں کرتے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک رہے گا لیکن اس دنیا کے خوف سے ہم خود کو روک نہیں سکتے جینا چھوڑ نہیں سکتے۔

مجھے نوکری پر جاتے ہوئے کچھ ماہ ہوئے تو ایک لڑکی جو سر سے پاوں تک عبایا اور نقاب میں جایا کرتی تھی اور اس سے راستہ ایک ہونے کے سبب بات چیت بھی اچھی تھی اسے میں نے کئی بار بس میں پریشان پایا۔ ایک بار وہ جگہ کم ہونے کے سبب بس کے پائیدان پر کھڑی تھی کہ ایک لڑکا بھی اس پر آ کھڑا ہوا یہ لڑکا اکثر اس لڑکی کو تنگ کیا کرتا تھا ۔مجھے حیرت ہوئی کہ ویسے ہی خواتین کے کمپارٹمنٹ میں جگہ کم ہوتی ہے اب دروازے پر لٹکی خواتین کے ساتھ بھی مرد کھڑے ہوجائے تو وہ کیسے سفر کریں۔ میں چونکہ اس کے قریب ہی تھی کہ اس نے مجھے کہا کہ یہ لڑکا مجھے مسلسل تنگ کر رہا ہے یا تم اندر کسی طرح جگہ بنواو یا پھر میں بس سے نیچے اتر جاوں میری برداشت جواب دے رہی ہے۔ اس بار میں نے لڑکے کی حرکات و سکنات پر غور کیا تو میرا غصہ ناقابل برداشت ہوگیا میں نے اس لڑکے کو پہلے تو کہا کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاو تمہیں شرم آنی چائیے۔ جس پر جواب آیا جسے تنگ کر رہا ہوں وہ تو بول نہیں پارہی تم کیوں چوہدری بننے لگی۔ اس بار جب اس نے اس لڑکی کو دوبارہ چھوا تو میں نے اس لڑکے کو پوری طاقت لگاتے ہوئے چلتی بس سے دھکا دیدیا۔

بس کی رفتار کچھ کم تھی اور کالے پل کے قریب سی ایس ڈی کی طرٖف پولیس بھی کھڑی تھی جب وہ لڑکا گرا تو بس رک گئی پولیس نے اسے اٹھایا اور بس ڈرائیور سے پوچھ گچھ کی کہ کیوں اوور لوڈنگ کی ہوئی ہے لیکن لڑکا مسلسل مجھے گالیاں دیتا رہا میں بس سے اتری اور پولیس والے سے کہا کہ اس پر رحم نہ کھائیں میں نے اسے دھکا دیا ہے اور ساری بات بتائی جس کے بعد اور لڑکیاں بھی بولیں پولیس نے اس لڑکے کو موبائل میں ڈالا اور لے گئے۔

دوران ملازمت ایک بار میں نے اپنے باس کے کہنے پر ایک بیٹ پر کام شروع کیا اور وہ خبریں دینا شروع کیں جو متعلقہ بیٹ رپورٹر چھپا رہا تھا۔ اس پر مجھے اس رپورٹر نے کئی بار زبانی اور پھر ٹیکسٹ میسج کے ذریعے ڈرایا دھمکایا۔ دوران کوریج ایک سیاسی جلسے کے دوران مجھ سمیت دیگر صحافیوں کو سیاسی جماعت کے کارکنان نے گالیاں دیں ہراساں کیا اور پتھر ،پانی کی بوتلیں تک ماریں۔ یہاں تک کہ میرا نام سرچ کر کے مجھے فیس بک پر ان باکس میسیجز بھیج کر بھی مغلظات بکی گئیں ، ہراساں کیا گیا، میری کردار کشی اس لئے کی گئی کہ میں جس چینل میں کام کر رہی تھی اس چینل کے خلاف ان کا پارٹی لیڈر تھا ۔ میری کئی ساتھی رپورٹر نے مجھے ایسے واقعات کا بتایا کہ کام کے دوران انھیں اپنے ساتھیوں، لوگوں اور اجنبیوں سے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی میری فیس بک کے میسج بکس میں کئی اجنبی لوگوں کے ایسے ایسے اخلاق باختہ میسجز موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ انکی اخلاقی قدریں کیا ہیں۔

میری ایک صحافی دوست نے مجھ سے ایک بار شئیر کیا کہ اسلام آباد کے مانے جانے صحافی جن کی خبروں پر ادارہ آنکھ بند کر کے یقین کرتا ہے اور تحقیقاتی صحافت میں ان کا بڑا نام ہے وہ خواتین کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ پہلے پہل میں اس بات پر یقین نہ کر پائی لیکن جب میں نے ان کے میسجز پڑھے تو اندازہ ہوا کہ خواتین کن کن مشکلات سے گزر کر کام کرتی ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ عورت کا اصل مقام گھر اور چہار دیواری ہے اگر وہ گھر سے باہر نکلے گی تو اسے ان سب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہر ایک کی اپنی رائے ہے میں احترام کرتی ہوں لیکن یہاں ان جیسوں کے لئے میرے پاس ایسی مثال بھی ہے اس پر وہ کیا کہیں گے؟

آج سے کئی سال قبل محلے میں یہ بات اٹھی کہ جب بچوں کے اسکول سے آنے کا وقت ہوتا ہے اور اسکول کی وین گلی کے کونے پر بچوں کو ڈراپ کردیتی ہیں اس وقت ایک موٹر سائیکل سوار گلی میں داخل ہوتا ہے اور بچیوں کے ساتھ بد تمیزی کر کے فرار ہوجاتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوا ہوگا اور بچیو ں نے مارے خوف اور شرم کے گھر میں بات بھی نہیں کی ہوگی لیکن یہ منظر کچھ چھوٹی عمر کے بچوں نے بھی دیکھا کہ انکی بڑی بہن کے ساتھ ایسا ہوا ہے جس پر انھوں نے گھر پر والدین کو آگاہ کیا۔ محلے والے چوکنے ہوئے اور والدین بچوں کے گھر آنے کے وقت باہر کھڑے ہونے لگے جس سے اس آدمی نے راستہ بدل لیا کچھ روز بعد اسی حرکت پر وہ دھر لیا گیا اور محلے کے لڑکوں نے اس کو خوب مارا پیٹا۔ یہ معصوم بچیاں گھروں سے شوقیہ یا ملازمت کرنے نہیں نکلیں تھیں بلکہ علم حاصل کرنے جایا کرتی تھیں لیکن معاشرے میں بے لگام پھرنے والے ہوس کے مارے بھوکے بھیڑئیے کو کیا تمیز؟؟؟ اسے تو شکار چائیے۔

میرے پاس ایک خاتون کا فون آیا جس میں انھوں نے بتایا کہ انکی چھ سالہ بچی کو وین ڈرائیور کئی ہفتوں تک ہراساں کرتا رہا وہ بچی خوف میں جینے لگی اور ننھی سی جان بھلا کیا بتا پاتی۔ ایک بار اسکول وین سے جب گھر پہنچی تو اس کے بالوں میں اسکے ساتھی بچوں نے پینسل شارپ کرنے کے بعد کا کچرا ڈال دیا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بچی کو نہلایا جائے تو اس روز میں نے اس کے جسم کے کچھ حصوں پر نیل اور چوٹ کے نشان دیکھے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ عموما میری بچی کو نہلانے اور کپڑے بدلوانے کی ذمہ داری گھر میں رکھی ہوئی ایک میڈ کی تھی اس روز بھی اگر وہ اسے نہلاتی تو مجھے اندازہ نہ ہوتا کہ میری بچی اس عمر میں کس درندگی کا شکار ہورہی ہے۔ انھوں نے بچی سے بہت پیار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وین ڈرائیور اسے تنگ کرتا ہے اور ڈراتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر کسی کو بتاو گی تو میں تمہیں وین کے ٹائر کے نیچے دیکر مار دوں گا۔

ظلم یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں روز کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو پہلے سے کہیں بھیانک اور نہ بھولنے والا ہوتا ہے۔ وہ کوئی چھ سالہ بچی ہو یا بارہ سال کی لڑکی، تیس سالہ ملازمت پیشہ خاتون ہو یا پچاس سال کی باوقار بیوہ یا مطلقہ وہ روز کہیں نہ کہیں ہراساں ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ واقعات صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ ایشیا سمیت ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام ہیں لیکن یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ ” غیر اخلاقی” اور ” ہراسیت ” میں کیا فرق ہے؟ کسی اجنبی خاتون کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا میرے نزدیک غلط ہے لیکن اس پر ایک میسج بھیجا جائے اور اس کے حسن کی تعریف بھی کردی جائے تو بات غلط سے نامناسب روئیے پر آتی ہے پھر بار بار میسج کیا جائے تو یہ واقعی غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں آتا ہے لیکن آپ اسے ڈرائے دھمکائیں، غیر اخلاقی باتیں کریں اور خود سے دوستی یا ملنے پر دباو ڈالیں تو یہ ہراساں کرنے کے زمرے میں ضرور آتا ہے۔

نہ جانے وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے اپنی آسانی کے لئے یہ بات پھیلا رکھی ہے کہ عورت اگر خاموش ہے تو اسکا مطلب نیم رضامندی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو اس کا مطلب ہاں ہے۔ یاد رکھیے اگر عورت نہ کہہ دے تو اس کا مطلب نہ ہی ہے۔ یہ کہنا کہ ہراساں صرف عورت ہی ہوتی ہے سراسر غلط ہے مرد بھی اسکا شکار ہوتے ہیں۔ کوئی عورت اگر کسی بھی مرد کا بے تکلفانہ چھونا پسند نہیں کرتی تو ہوسکتا ہے کوئی ایسا مرد بھی ہو جو کسی عورت کا کندھے پر ہاتھ مار کر بات کرنا پسند نہ کرتا ہو۔ ہمارے ایک دوست جو ایک اچھی پوسٹ پر ہیں وہ ایک کورس کی غرض سے دوسرے شہر گئے ان سے بات ہوئی تو انھوں نے زکر کیا کہ گروپ میں کوئی پچاس افراد ٹرینینگ پر ہیں جن میں دس خواتین بھی شامل ہیں ان میں ایک خاتون کا بہت دیر تک گھورنا انھیں خوفزدہ کردیتا ہے میں یہ سن کر ہنسی کہ کیسا محسوس ہوا؟ جب کوئی مرد ایسی حرکت کرے تو عورت پر کیا گزرتی ہوگی تو ان کا جواب تھا یہی میں بھی سوچتا ہوں اور اس بات نے میرے سوچنے کے انداز کو بدل دیا ہے کہ عورتیں کس طرح برداشت کرتی ہیں کیا کیا سہہ جاتی ہیں ہم کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہماری بہن، بیٹی، بیوی جب باہر سے گھر آتی ہیں تو نہ جانے کیا کیا ذہنی دباو اور دل پر بوجھ بھی ساتھ لاتی ہیں۔

تو محترمہ شرمین صاحبہ ، ہمارے معاشرے میں بہت کم عورتیں ایسی ہونگیں جو خود پر ہونے والے ظلم یا ہراساں ہونے کے خلاف کھڑی ہوجائیں زیادہ تر خاموش رہنا پسند کرتی ہیں کہ کیچڑ میں پتھر کون مارے؟ لیکن اگر آپ بااختیار ہیں طاقتور ہیں اس پر سونے پر سہاگہ امیر بھی، تو اپنی مرضی سے تعریف و تشریح کو تبدیل نہ کریں اپنی بہن کے ساتھ ہونے والے نامناسب روئیے کو ہراساں کہہ دینا اور آپکے حمایتیوں کا دوسروں کے لئے اس کو عادت قرار دیدینا انتہائی نا مناسب ہے۔

ہم ابھی تک تو انگریزی اور اردو میڈیم، پیلے اسکول اور او لیول، نیو کراچی اور ڈیفینس کلفٹن کی جنگ میں پھنسے تھے لیکن آپ نے تو اب ہراساں کی نئی تعریف بیان کر کے ہمیں ایک اور تقسیم میں الجھا ڈالا۔ یہ بتاڈالا بلکہ جتا ڈالا کہ تقسیم اب بھی ہے پل کے اس پار اور اس پار۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس بار پل کے اس پار بھی کسی کو ہراساں کیا گیا۔ لیکن یقین جانئے اگر آپ نے کبھی یہ سب بھگتا ہوتا ان سب سے گزری ہوتیں جن سے ہر روز لاکھوں کروڑوں عورتیں گزرتی ہیں تو اب کچھ بھی کہتے ہوئے لکھتے ہوئے لفظوں کا چناو بہتر انداز میں کرتیں۔ آپکی پوسٹ طویل نہیں، دھمکی آمیز نہیں بلکہ کچھ یوں ہوتی کہ شہر کے نامور اور مصروف ترین اسپتال کی ایمرجنسی کے ڈاکٹر مریضوں کو فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے پیشے کی ذمہ داری سے کتنے غافل بیٹھے ہیں۔ اگر یہ اس ڈاکٹر کی عادت ہے تو نہ جانے ان مریضوں کا کیا ہوتا ہوگا جو ان سے علاج کرانے جاتے ہوں گے۔ یہ چونکہ میری رائے ہے تو یقیناًایک مڈل کلاس خاندان کی پروفیشنل صحافی کی رائے سے آپ قطعا اتفاق نہیں کریں گی کیونکہ مڈل کلاس والے سارے پل کے اس پار کے رہنے والے جو ہیں ،،،جو ہراسیت کی جدید تعریف سے نابلد ہیں۔

تحریر، سدرہ ڈار، کراچی

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar