کامیابی کا مغالطہ عرف مغالطے کی کامیابی


یہ عالمِ خیال ہی تو ہے، ’’مت جا تروتازگی پہ اس کی/ عالم تو خیال کا چمن ہے۔ ’’

ماضی کیا ہے، محض خیال۔ مستقبل، خیال یا کسی فرد کی صورت حال کے مدِ نظر امید یا اندیشہ۔ ارادہ کیا ہے، خیال کی ترتیب۔ ارادے کو فسخ کرنے والی قوت، خیال۔ زندہ رہنے کی امنگیں سب خیال سے جڑی ہوتی ہیں۔ زندہ نہ رہنے کی خواہش بھی خیال سے پیوست ہے۔ مشکل یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہر شے کاروبار بن گئی ہے۔

سیاست ہو یا مذہب، تعلیم ہو یا معالجہ، کھیل ہو یا تماشا، سب کو بنانے بگاڑنے کے پیچھے پیسہ کارفرما ہے۔ دولت اکٹھی کیے جانے کی ہوس ختم ہونے میں نہیں آتی۔ لہٰذا تعجب ہی کیا، جو بعض لوگوں نے خیال کو منفعت بخش دھندا بنا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم صحیح طرح سوچنا سیکھو، امیر ہو جاؤ گے، کامیاب رہو گے۔ اگر متمول یا کامیاب ہونا اتنا ہی سہل ہوتا، تو سب کے وارے نیارے تھے۔

لیکن انسان اپنے جوہر میں اس قدر پیچ در پیچ ہے کہ اسے کسی فارمولے کے شکنجے میں کسا نہیں جا سکتا۔ دوسرے یہ دنیائے آب و گل اتفاقات سے عبارت ہے۔ محض کوشش سے کچھ نہیں ہوتا۔ تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ۔ پھر بہت سے کام ہیں، جو خیال کے بل پر انجام نہیں دیے جا سکتے۔ اگر آپ کا قد ساڑھے چار فٹ ہے، تو کتنی ہی خیال بازی کر لیجیے چھ فٹ ہونے سے رہے۔ اگر آپ بدصورت ہیں، تو خوب صورت نہیں بن پائیں گے۔ اگر آبنوس کا کندہ ہیں، تو سرخ و سفید کیسے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ سائنسی علوم کی ترقی سے آگے چل کر ایسی انہونیاں بھی حقیقت بن جائیں۔ لیکن ظواہر بدلنے سے کیا ہوتا ہے، باطن کی جوکایا پلٹے اسی کی جیت ہے۔ جس کتاب نے یہ کہنے پر اکسایا ہے، اس کا خلاصہ یہی ہے کہ جو لوگ بڑی سہولت اور چرب زبانی سے کامیاب ہونے کے گُر بتاتے ہیں، وہ محض کاروبار کرتے ہیں۔ جو سودا وہ بیچتے ہیں، کھرا نہیں ہے۔ کھرے کھوٹے کی تمیز نہ ہو تو پچھتانا پڑتا ہے۔

بہرکیف، روزِ اوّل سے لوگ بے وقوف بنتے چلے آئے ہیں اور بنتے رہیں گے۔ حالاں کہ یہ بات صاف ہے کہ خوش طبع اور درد مند ہونا ہر حال میں متمول ہونے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ لیکن یہ کس نے سوچا۔ اس حد تک تو نفسِ مضمون ٹھیک ہے، مگر کتاب میں کچھ ایسا بھی ہے، جو دل کو نہیں لگتا۔ شاہد اعوان، جو کتاب کے ناشر بھی ہیں، لکھتے ہیں: ’’اس صورتِ حال سے ہماری قوم کی مرعوبیت اور فکری افلاس کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ فکری افلاس ہمارا کیوں؟ ان ملکوں کا کیوں نہیں جہاں یہ کتابیں لکھی اور لاکھوں کی تعداد میں چھپتی اور بکتی ہیں؟ اصل میں فکر و عمل کی بہت سی وبائیں مغرب ہی سے نازل ہوتی ہیں۔ وہاں جو بلا سر اٹھاتی ہے، وہ ہمارے جیسے ملکوں کا رُخ بھی کرتی ہے۔ اچھی باتیں ہم مغرب سے کم سیکھ پائے۔ بری باتوں کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کتاب میں جعلی خیال کی حکمرانی کے خلاف جتنی باتیں درج ہیں، وہ بھی مغرب ہی سے لی گئی ہیں۔ بیماری بھی وہیں کی، دوا بھی وہیں سے۔ کتاب انگریزی اقتباسات سے بھری پڑی ہے۔ یہ اقتباسات انگریزی میں بھی درج ہیں اور ذیل میں ان کا اُردو ترجمہ بھی ہے۔ معلوم نہیں، اس میں کیا مصلحت ہے۔

شاید یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ مصنف ترجمہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ کتاب میں اس پر بھی بڑا زور ہے کہ فلاں سٹڈی سے یہ ثابت ہوا یا فلاں بات بڑی حد تک پایۂ ثبوت تک پہنچی۔ اس قماش کی تحقیقات پر زیادہ اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ ہر روز تقریباً چار ہزار سائنسی اور طبی تحقیقی مقالے شائع ہوتے ہیں۔ وہ یکساں طور پر معیاری یا مستند نہیں کہلائے جا سکتے، بلکہ بعض صریحاً مغالطوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ مصنف نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’اس دعویٰ کی کوئی سائنسی بنیاد موجود نہیں ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’عملی طور پر غیر ثابت شدہ چیزوں پر یوں ہی یقین رکھنا، ایک غیر صحت مندانہ رویہ ہے۔‘‘ انہیں اپنے اقوال کے مضمرات پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ مثبت سوچ کے تیر بہدف ہونے کے واعظین اپنے سامعین اور قارئین کو بتاتے رہتے ہیں کہ ہماری مانو۔ تمہاری زندگی سنور جائے گی۔ بیشتر سیاست داں بھی اسی طرح کے دعوے کرتے رہتے ہیں اور کہیں زیادہ خطرناک اور فریب کار ہیں۔ ان کی گمراہ کن تلقینات سے بہت خون بہا ہے اور بڑی تباہیاں آئی ہیں۔ سیاست دانوں کی ہرزہ سرائیوں کے مقابلے میں یہ چھوٹے موٹے موٹی ویشنل واعظین بالکل بے ضرر دکھائی دیتے ہیں اور ان پر طیش کھانے کے بجائے مسکرانے کی ضرورت ہے۔ لوگ بے وقوف بننے پر آمادہ نظر آتے ہیں تو یہ ان کا ’’جمہوری‘‘ حق ہے، یہ بات استحصال کرنے والوں کو بخوبی معلوم ہے۔ مسئلہ صرف ایک ہی ہے۔ جو خیال کے بل بوتے پر کامیاب ہونے کے قائل ہیں وہ اس کتاب کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔ جو ناشر اور مصنف کے ہم نوا ہیں انہیں چارسو روپیے اجاڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ مصنف ’’اخلاق کا دامن چھوڑنے‘‘ (یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں) کے بجائے اپنی توانائی آیندہ کوئی کارآمد کتاب لکھنے پر صرف کریں گے۔

کامیابی کا مغالطہ از عاطف حسین ناشر: ایمل پبلی کیشنز، اسلام آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).