امریکی خاتون اول کی پاکستانی سردار سے عشق کی کہانی


امریکی تاریخ سابق صدر جان ایف کینیڈی اور ان کے قتل کی کہانی کے بغیر نامکمل ہے۔ جان ایف کینیڈی کی زندگی میں ان کی اہلیہ جیکلین کینیڈی کا مرکزی کردار ہے اور جیکلین کا نام پاکستانی سردار کی محبت سے جڑا ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے اپنے مقتول امریکی صدر سے متعلق تقریباً انتیس سو نئی دستاویزات عام کر دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ماضی کے ناقابل فراموش اور تاریک پہلوؤں پر دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ لیکن جب بھی جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات کی بات ہو گی تو پاکستانی سردار بھی درمیان میں آئے گا۔ حقیقت میں امریکی تاریخ میں جان ایف کینیڈی اور جیکلین کینیڈی کے ساتھ پاکستانی سردار بھی امر ہو چکا ہے۔

سردار اور جیکلین کے عشق کی کہانی پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کی بھی کہانی ہے۔ سن انیس سو ساٹھ میں سابق سوویت یونین نے ایک امریکی طیارہ مار گرایا تھا۔ امریکی پائلٹ گیری پاورز نے انکشاف کیا کہ وہ پاکستان کی ایئر بیس سے اڑا تھا۔ سوویت یونین نے اس امریکی پائلٹ کے بدلے اپنے ایک جاسوس روڈولف ایبل کا تبادلہ کیا تھا اور یہاں سے پاکستان کے سوویت یونین سے تعلقات خراب ہونے کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔

اس واقعے کے بعد مارچ انیس سو باسٹھ میں جیکلین کینیڈی (جیکی) نے اپنی ہمشیرہ کے ساتھ بھارت کے بعد پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے لاہور کے فوٹرس اسٹیڈیم میں ہونے والے نویں سالانہ پاکستانی ہارس اینڈ کیٹل شو میں بھی شرکت کی۔ اس دورے کے دوران ہی سابق پاکستان صدر ایوب خان نے انہیں عربی نسل کا گھوڑا تحفے کے طور پر دیا، جس کا نام سردار تھا۔

ساٹھ کی دہائی میں اپنائی جانے والی پاکستان کی ’ہارس ڈپلومیسی‘ تاریخ میں امر ہو چکی ہے۔ اس وقت ملکہ الزبتھ کو بھی تین اعلیٰ نسل کے گھوڑے بطور تحفہ دیے گئے تھے، جن میں سلطان نامی مشہور گھوڑا بھی شامل ہے۔ حال ہی میں جب شاہی خاندان نے ملکہ کو ملنے والے بہترین غیرملکی تحائف کی فہرست جاری کی تو اس میں سلطان کا نام بھی شامل تھا۔

خیر ہم تاریخی گھوڑے سردار کی طرف واپس آتے ہیں، جسے آغا خان اصطبل میں بریڈ کیا گیا تھا۔ بعد میں یہی گھوڑا جانوروں میں جیکلین کا سب سے بڑا عشق ثابت ہوا۔ جیکلین نے پیار سے سردار کا نام اپنے والد جیک بوویئر کے نِک نیم ’بلیک جیک‘ پر رکھا تھا۔ جیکی سردار سے اس قدر محبت کرتی تھیں کہ انہوں نے اس حوالے سے کہا تھا، ’’میری نجی یادگاروں میں یہ پسندیدہ ترین خزانہ ہے۔ ‘‘

’دا مسنگ ہسٹری آف کینیڈی ایئرز‘ نامی کتاب کے مطابق جیکلین نے اس گھوڑے کو امریکا لے جانے کے لیے جان ایف کینیڈی سے خصوصی طور پر درخواست کی تھی۔ اس غیر معمولی درخواست پر ریپبلیکن کانگریس مین والٹر میکوی کا اعتراض کہنا تھا کہ یہ گھوڑا ریزرو کا حصہ نہیں ہے اور اسے ملٹری ایئر ٹرانسپورٹ سروس فلائیٹ کے ذریعے امریکا نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن سردار کو اس اعتراض کے باوجود ایک ایئر فورس جہاز کے ذریعے امریکہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد میکوی نے کہا تھا، ’’سردار ایک کانگریس مین سے زیادہ با اثر ہے۔ ‘‘

اس کے بعد جب صدر ایوب خان سفارتی دورے پر امریکہ گئے تو انہوں نے کینیڈی فیملی کے فارم ہاؤس میں بھی قیام کیا اور ان کی جیکلین کے ساتھ گھوڑ سواری کرتے ہوئے تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ مجموعی طور پر جیکلین کی گھوڑ سواری کی سب سے زیادہ اور خوبصورت تصاویر سردار کے ساتھ ہی ہیں۔

قانونی طور پر امریکی صدر یا ان کی فیملی کو جو کچھ بھی تحفے میں ملتا ہے، وہ قانونی طور پر امریکی حکومت کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔ دورہ پاکستان کے دوران جیکی (جیکلین) کو متعدد تحائف سے نوازہ گیا، جن میں سونے کے ہار بھی شامل تھے۔ وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری پیریر سالگرین کے مطابق جیکی نے سردار کے علاوہ سب کچھ حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ پھر خصوصی انتظام کرتے ہوئے فرسٹ لیڈی کو کہا گیا تھا کہ وہ اس گھوڑے کی قیمت کا تقریبا سات فیصد بطور ٹیکس ادا کریں۔

بائیس نومبر انیس سو چونسٹھ کو پیش آنے والے واقعے نے جیکی کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ اس جمعے کے دن جیکی کے خاوند جان ایف کینیڈی کو ڈیلاس میں ایک سنائپر نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات اپنے حوالے سے ’تاریخی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی امریکی صدر کے جنازے کی رسومات انتہائی سخت پروٹوکول کے تحت ادا کی جاتی ہیں لیکن جیکلین جنازے کی رسومات کو ’پرسنل ٹچ‘ دینا چاہتی تھیں اور انہیں پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی اجازت دی گئی۔ وہ جنازے کی رسومات ابراہم لنکن کے جنازے کی طرح ادا کرنا چاہتی تھیں۔

1865ء میں ابراہم لنکن کے جنازے کے پیچھے پہلی مرتبہ ’رائیڈر لیس ہارس‘ کے طور پر ان کے ذاتی اور پسندیدہ گھوڑے ’اولڈ بوب‘ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس ’رائیڈر لیس‘ گھوڑے پر صرف کاٹھی اور لنکن کے بوٹ رکھے گئے تھے۔ یہ روایت چنگیز خان کے دور کی ہے۔ جنگ میں جب بھی کوئی سرکردہ فوجی ہلاک ہو جاتا تھا تو تدفین کے وقت اس کا گھوڑا جنازے کے پیچھے پیچھے چلایا جاتا تھا۔

جیکی بھی جان ایف کینیڈی کے جنارے میں اپنے ذاتی گھوڑے (سردار) کو شامل کرتے ہوئے ایسی ہی ایک رسم چاہتی تھیں، جسے تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ جیکلین کے پاس کئی دوسرے گھوڑے بھی تھے لیکن پاکستان کا دیا ہوا تحفہ ان کے خاندان کا حصہ بن چکا تھا۔

چوبیس نومبر بروز اتوار نیوز ایجنسی اے پی کے ایک صحافی نے تصدیق کرنے کے لیے جیکلین کی پریس سیکریٹری پامیلا ٹرنر کو فون کیا کہ آیا جان ایف کینیڈی کے جنازے میں شامل گھوڑا جیکلین کا سردار ہی تھا؟ کیوں کہ وہ گھوڑا ہجوم سے مانوس نہیں تھا۔ لائن سے مسلسل آگے پیچھے ہو رہا تھا اور اس کے چلنے کی تربیت بھی فوجی گھوڑوں کی طرح نہیں تھی۔ سیکرٹری نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ سردار (بلیک جیک) ہی تھا۔

جب یہ بات منظر عام پر آئی تو اس کے ایک دن بعد ہی پریس سیکریٹری پامیلا ٹرنر نے اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا کہ ’میں غلط تھی۔ ‘ اس کے علاوہ جان ایف کینیڈی کے ایک حکومتی ترجمان پیئر سیلنگر نے بھی کہا کہ وہ سردار نہیں بلکہ فوج کا ملکیتی گھوڑا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ فوج کے پاس بھی ایک بلیک جیک نامی گھوڑا موجود ہے۔ بیان کے مطابق ستائیس نومبر کو جیکلین نے سیکرٹری آف آرمی سائرس وینس سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ بلیک جیک انہیں واپس کیا جائے اور اس درخواست کے کچھ ہی دیر بعد بلیک جیک کو وائٹ ہاؤس میں ان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ان متنازعہ بیانات کی وجہ سے یہ بات ابھی بھی متنازعہ ہے کہ جان ایف کینیڈی کے جنازے میں سردار (بلیک جیک) شریک تھا یا پھر فوج کا اپنا ’بلیک جیک‘ نامی کوئی دوسرا گھوڑا۔

یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا، جب جیکلین کو وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنا سامان وغیرہ باندھ رہی تھیں۔

جان ایف کینیڈی صدارتی لائبریری اور میوزیم کے ڈائریکٹر ٹام پوٹنم نے سن دو ہزار پندرہ میں بروس ریڈل کو اپنے ایک پروگرام میں مدعو کیا۔ بروس ریڈل امریکی نامور ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں۔ وہ امریکی خفیہ ایجنسی میں بھی اور بطور سفارتکار بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بروس ریڈل کو ان کی کتاب ’’جان ایف کینیڈی فار گاٹن کرائسز: تبت، دا سی آئی اے، اینڈ دا سائنو انڈین وار‘‘ پر گفتگو کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس دوران انہوں نے صدر ایوب اور کینیڈی خاندان کے روابط پر بھی روشنی ڈالی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ چین کے خلاف تبتوں کو مدد مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کے ایک ہوائی اڈے سے فراہم کی جاتی تھی اور صدر ایوب اس سے متفق تھے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کینیڈی کے جنازے میں ’رائیڈر لیس ہارس‘ فوج کا بلیک جیک نہیں بلکہ سردار ہی تھا۔ ان کا یہ انٹرویو جان ایف کینیڈی آرکائیوز میں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سن دو ہزار آٹھ میں ’سٹینسلس ہسٹوریکل کوآٹرلی‘ کی جانب سے شائع کی جانے والی آزاد تحقیقات کے مطابق بھی جنازے میں شریک ’رائیڈر لیس ہارس‘ سردار ہی تھا۔ وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد جیکلین سردار کو اپنے ساتھ ورجینیا لے گئی تھیں اور بعد میں بھی انہیں کئی مرتبہ سردار کے ساتھ دیکھا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).